میر تقی میر کا نام آتے ہی ہمارے کانوں میں سارنگی کی دلخراش صدا گونجنے لگتی ہے، فضا کرب کی دھند میں لپٹ جاتی ہے، اور ایسے دکھیارے کی تصویر سامنے آ جاتی ہے جو زندگی بھر دکھ بھوگتا اور شعر کراہتا رہا۔
یہ تصویر کچھ تو میرؔ کے چند مشہور اشعار کی بِنا پر ہے، جو 72 نشتروں کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور کچھ ہمارے بااثر نقادوں نے بھی دماغ کا تیل جلا کر یہ اندھیر پھیلایا ہے۔
پھر چونکہ میر کا زمانہ بھی بڑا پرآشوب تھا، پہلے مغل بادشاہوں کی رنگینیوں، نادر شاہ کی لوٹ ماروں، احمد شاہ ابدالی کی یلغاروں پھر مرہٹوں اور روہیلوں کی دست درازیوں نے دہلی کے بخیے ادھیڑ دیے، اس لیے خارجی شواہد بھی فی الفور مہیا ہو گئے اور دو جمع دو چار ہو گیا۔
مولوی عبدالحق میرشناسی کے بنیاد گزار ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’جو شخص میر کے حالات اور اخلاق و سیرت سے واقف نہ ہو وہ ان کے کلام کو پڑھ کر بغیر کسی تذکرے کی مدد کے خودبخود ان کے انداز، ان کی طبیعت کی افتاد اور مزاج کو تاڑ جائے گا۔ ان اشعار کو پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک لفظ، طرزِ بیان، ترتیب و بندش میں ان کے قلبی واردات و احساسات کا نقشہ کھنچا ہوا ہے۔ وہ شعر میں اپنا دل نکال کر رکھ دیتے ہیں۔‘
اور آگے چل کر: ’میر خود سوز و غم کا پتلا ہے۔ میر انیس رلاتے ہیں، میر خود روتا ہے۔ یہ آپ بیتی ہے، وہ جگ بیتی۔‘
مزید کہتے ہیں کہ ’نازک مزاجی اور خودداری کے ہاتھوں وہ زندگی سے بیزار رہے اور ہمیشہ دکھ درد سہتے اور خونِ جگر پیتے رہے اور اسی خونِ جگر سے انہوں نے زمینِ شعر کو سینچا۔‘
میر کے ایک اور نقاد ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی کتاب ’نقدِ میر‘ میں لکھا ہے: ’بےوقت یتیمی، اعزہ کی بےمہری، زمانہ کی جفاکاری، بےروزگاری، فاقہ کشی، دربدری، خاک بسری اور دوسرے مصائب و آلام نے میر کے ذہن کو تقریبا ماؤف کر دیا تھا۔‘
سید صاحب ایک مثال کی مدد سے میر کی زندگی کی وضاحت کرتے ہیں: ’بعض اوقات ماں باپ کے حساس بچے کسی معمولی بات سے ناراض ہو کر گھر سے اس طرح روٹھ کر نکل جایا کرتے ہیں کہ پھر ان کو گھر کی خوشی کا کوئی تصویر اور کوئی دلاسا تسکین دلا کر گھر میں واپس نہیں لا سکتا۔ میر بھی قدرت کے ان حساس بچوں میں سے تھے وہ اوائلِ عمر کے حوادث کے سبب کچھ یوں دلبرداشتہ ہوئے کہ زندگی کی آوازوں سے قطعاً روٹھ گئے۔‘
ڈاکٹر سلیم اختر میر کے کچھ اشعار کی مثالیں دے کر کہتے ہیں کہ ’یہ اشعار ایک طرح سے سیلف پورٹریٹ کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔‘ اور یہ کہ ’میر کی کلیات ایک غیر معمولی تخلیقی جینیئس کی نفسی واردات کی کیس ہسٹری بھی ہے۔‘
کلاسیکی شاعروں کے بارے میں ہمارے بہت سے نظریات و تصورات کا سرچشمہ محمد حسین آزاد کی آبِ حیات ہے، چنانچہ میر کی شخصیت کا نقشہ کھینچنے میں بھی اولیت کا شرف انہی کو حاصل ہے: ’ان کا کلام صاف کہہ دیتا ہے کہ جس دل سے نکل کر آیا ہوں وہ غم و درد کا پتلا نہیں، حسرت و اندوہ کا جنازہ تھا۔ ہمیشہ وہی خیالات بسے رہتے تھے۔ بس جو دل پر گزارتے تھے، وہی زبان سے کہہ دیتے تھے کہ سننے والوں کے لیے نشتر کا کام کر جاتے تھے۔ ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں۔‘
آزاد نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ دہلی کے کوچے محلوں میں بکھری یادوں کے ایجادی صندوق میں ہاتھ مار کر کوئی مڑا تڑا پرزہ نکالتے ہیں اور مغربی لالٹین کی روشنی میں پڑھ کر شعروں کی شانِ نزول بھی بیان کرتے چلے جاتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:
’محلہ کے بازار میں عطار کی دکان تھی۔ آپ بھی کبھی کبھی اس کی دکان پر جا بیٹھتے تھے۔ اس کا نوجوان لڑکا بہت بناؤ سنگار کرتا رہتا تھا۔ میر صاحب کو برا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر فرماتے ہیں:
کیفتیں عطار کے لونڈے میں بہت ہیں
اس نسخہ کی کوئی نہ رہی ہم کو دوا یاد
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شعر دیکھ کر واقعہ گھڑ لیا گیا ہے، کیوں کہ اصل شعر میں ’کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں‘ ہے، اسے ’ہیں‘ سے بدل لیا۔ بلکہ دوسرے مصرعے میں تحریف کر دی کہ اصل میں یوں تھا: ’اس نسخہ کی کوئی نہ رہی حیف دوا یاد۔‘
عطار کے لونڈے کا ذکر آیا ہے تو عندلیب شادانی کا مشہور مضمون یاد آنا لازمی ہے، ’میر صاحب کا ایک خاص رنگ۔‘ شادانی صاحب کو میر شناسی کے میدان میں آنے میں دیر لگی، مگر شکر ہے پھر بھی آئے تو، اور آتے ہی کھوج لگا لیا کہ سوز و گداز، دل شکستگی، غم خوردگی اور کرب و الم میر کی اہم خصوصیات نہیں ہیں، بلکہ ایک اور رنگ میر کی کلیات پر چھایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے بقول ان کے ’میر کے کلام کا بیشتر حصہ ’امرد نامہ‘ کہلانے کا مستحق ہے۔‘
اس کے بعد انہوں نے اس رنگ میں رنگ کر میر صاحب کی شعروں کی جو تاویل کی ہے اسے سن کر شاید آزاد بھی ’آہ‘ کہہ اٹھیں۔ چند جھلکیاں آپ بھی دیکھ لیں:
’میر صاحب کو جن بدمعاشوں سے سابقہ پڑا تھا وہ حددرجہ کے کمینے تھے، ہمیشہ مارتے تھے اور کبھی پیار نہیں کرتے تھے۔ آخر تنگ آ کر میر صاحب نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب کبھی اس بےوفا کے کوچہ میں قدم نہ رکھیں گے اور اس سے کہہ بھی دیا کہ اب اگر کبھی ادھر کا رخ بھی کروں تو مجھے سید نہ کہنا:
در پر سے ترے اب کے جاؤں گا تو جاؤں گا (مفعول مفاعیلن 2x)
یا پھر اگر آؤں گا سید نہ کہاؤں گا
غالباً کوئی رقیب رو سیاہ بھی اس وقت وہاں موجود تھا۔ اسے معلوم تھا کہ میر صاحب اپنے دل سے بری طرح متاثر ہیں اور بیج کھیت میر صاحب کو چھیڑنے کے لیے کچھ کہہ دیا۔ بس میر صاحب آگ بگولا ہو گئے مگر رقیب کا کیا بگاڑ سکتے تھے، محبوب اس کی حمایت پر موجود تھا۔ بس اتنا کہا کہ ’اچھا بچہ کبھی اکیلے میں ملو گے تو سمجھوں گا، اگر جوتے نہ مارے ہو تو سید نہیں چمار کہنا:‘
اے غیر میر تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے
سید نہ ہو پھر تو کوئی چمار ہووے‘
عندلیب شادانی اس بات کے قائل تھے کہ شاعری آپ بیتی ہے، ان کی اسی اکلوتی مشہور غزل کا ایک شعر ہے:
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے.
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
اس لیے انہوں نے میر کے کلام میں غوطے لگا لگا کر درجنوں شعر ڈھونڈ نکالے جن میں پیش کردہ واقعات گویا میر کے اوپر بیتے ہیں، اور جن سے بقول ان کے ثابت ہوتا ہے کہ میر امرد پرست تھے۔
انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے صرف عطار کے لونڈے نہیں بلکہ اور بھی متعدد پیشوں سے. وابستہ لونڈوں کے بارے میں شعر پیش کیے ہیں۔ اس کھلیان میں سے چند بالیاں:
ہم تو مطرب پسر کے ماتے ہیں
گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں
کیا جانے قدرِ غنچۂ دل باغباں پسر
ہوتے گلاب ایسے کسو میرزا کے پاس
ترش رو بہت ہے وہ زرگر پسر
پڑے ہیں کھٹائی میں مدت سے ہم
گیا نظر سے جو وہ گرم طفلِ آتش باز
ہم اپنے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھیں
عندلیب شادانی خود شاعر تھے، اور پڑھے لکھے آدمی تھے۔ لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی تھی اور فارسی شعری روایت پر بھی ہاتھ بند نہیں تھا۔ وہ تھوڑا تامل کرتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ میر کے یہ شعر امرد پرستی کے شعر نہیں ہیں۔ یہ دراصل۔۔۔ شہر آشوب ہیں۔
شہر آشوب کا عام مطلب تو کسی شہر کی تباہی کا مرثیہ ہے، مگر دراصل اصطلاح کی اس کی اصل اور ابتدائی تعریف ایسی نظم ہے جس میں کسی شہر میں بسنے والے نوخیز پیشہ وروں کے حسن کا ہزلیہ انداز میں بیان ہو اور یہ روایت اردو کے علاوہ فارسی اور ترکی زبان میں بھی موجود ہے۔ اسے شہر آشوب اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان حسینوں کا حسن اتنا بلاخیز ہے کہ اس نے گویا اپنی تجلی سے شہر کو تباہ کر دیا ہے۔
فارسی کے اولین شاعروں میں سے ایک مسعود سعد سلمان لاہوری (متوفی 1121) ہیں جنہوں نے اب تک کا معلوم پہلا بارہ ماسہ لکھنے کے لیے علاوہ پہلا شہر آشوب بھی لکھا ہے، جس میں عنبر فروش، زرگر، نیل گر، صیاد، نائی، نقاش، کاتب، آہن گر، قصاب، حتیٰ کہ عطار کے لڑکوں کی بھی کی صفات بیان کی ہیں۔
مسعود سعد سلمان کے دو صدیوں بعد امیر خسرو آتے ہیں جن کی ایک تخلیق کا نام ہے ’شہر آشوب یا مجموعہ رباعیات بر طبقِ حالاتِ اہلِ حرفہ۔‘ اس کا ایک شعر بطورِ تبرک پیش ہے:
تُجّار پسر کہ تیشہ رانی میکرد
آرے برما ستم نہانی میکرد
ان دو کے علاوہ بھی فارسی اور ترکی کے درجنوں شاعر ہیں جنہوں نے شعر آشوب لکھے ہیں، یعنی اس اصطلاح کے اولین معنی میں۔
تو اگر میر نے لڑکے کے حسن پر شعر لکھے ہیں تو وہ دراصل ’شہر آشوب‘ ہیں۔ ان شہر آشوبوں میں میر کیا کہتے ہیں؟ ایک شعر کو تھوڑا رک کر دیکھتے ہیں:
معمار کا وہ لڑکا پتھر ہے اس کی خاطر
کیوں خاک میں ملا تو اے میرِ دل شکستہ
معمار پتھر سے عمارت بناتا ہے، اس کی مناسبت سے پتھر کہا۔ پھر معمار مٹی گارے سے بھی کام لیتا ہے، تو ’کیوں خاک میں ملا تو۔‘ پھر ’میرِ دل شکستہ،‘ یعنی دل پتھر سے ٹکرا کر کرچی کرچی ہوا۔ مزید لطف دیکھیے کہ ’پتھر ہے اس کی خاطر۔‘ خاطر کا ایک مطلب دل بھی ہے، چنانچہ اس کی مناسبت ’میرِ دل شکستہ‘ سے قائم ہو گئی۔
ایک کام کرتے ہیں کہ اس شعر سے مناسبتیں اڑا کر دیکھتے ہیں پیچھے کیا بچتا ہے:
معمار کا وہ لڑکا بےحس ہے اس کی خاطر
برباد ہو گیا تو کیوں میرِ دل گرفتہ
آپ نے دیکھا کہ شعر کا مفہوم وہی رہا، مگر میر نے جس محنت سے شعر کی عمارت تعمیر کی تھی، وہ ہمارے تجربے کے بھدے ہتھوڑے نے چکناچور کر دی۔
اسی شعر میں نہیں، میر کے تمام شہر آشوبوں میں آپ کو رعایتِ لفظی کی ایسی ہی کارفرمائیاں نظر آئیں گی۔ اب شہر آشوب کی اوپر بیان کردہ تعریف سامنے رکھیے، ’شہر کے اہلِ حرفہ کے لڑکوں کا حسن کا ہزلیہ بیان،‘ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میر کیا کر رہے ہیں۔
یہ زبان کا شعر ہے، زبان پر دسترس دکھانے کا شعر ہے، زبان کے امکانات کھنگالنے کا شعر ہے۔ اسے امرد پرستی کا شعر سمجھنا اور اسے پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ میر واقعی کسی معمار کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے، قابلِ افسوس ہے۔ ورنہ تو فرض کرنا پڑے گا کہ میر اپنی زندگی میں عطار، معمار، آتش باز، کشتی گیر، مغل زا، دھوبی، صراف، طبیب، مفتی، قاضی، گلفروش، برہمن، مطرب، مغنی، ہندو، ترک، سپاہی، سید، باغبان، زرگر، اور کئی دوسرے لڑکوں پر عاشق رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں نسوانی حسن و عشق کے جو واضح اشارے ملتے ہیں وہ الگ ہیں۔ مانا کہ میر نے لمبی عمر پائی مگر پھر یہ بھی ماننا پڑا گا کہ وہ عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم تر ڈان ہوان، کیسانووا اور پلے بوائے بھی تھے۔
اس مضمون کی ابتدا میں ہم آپ کو بزرگ نقادوں کی زبانی سنا چکے ہیں کہ میر کے دل کی کلی کبھی کھلی ہی نہیں تھی۔ سوچیے اگر کلی نہ کھلنے پر یہ عالم ہے، کھل جاتی تو میر کیا گل بلکہ گلستان کھلاتے؟
ان حکما نے جو کام کیا ہے اس سے یہ خیال گزرتا ہے گویا شاعری قارورہ ہے جس کی رنگت اور ہیت سے شاعر کے حالاتِ زندگی، اس کے مزاج، پسند ناپسند، افتادِ طبع، حتیٰ کہ جنسی میلانات کی بھی ٹھیک ٹھیک تشخیص کی جا سکتی ہے۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا شاعری شخصیت کی نمائندگی کرتی ہے، اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کیا شاعر کائنات کا عکاس ہوتا ہے کہ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا رہتا ہے؟
حسبِ معمول اس سوال پر سب سے پہلے یونانیوں نے بحث کی ہے۔ افلاطون کا مائیمیسس (Mimesis) کا نظریہ تو سب کو معلوم ہو گا۔ افلاطون کا خیال تھا کہ مادی کائنات دراصل مثالی کائنات کی نقل ہے۔ فنکار کائنات کی نقل اتارتا ہے، یعنی نقل در نقل کر کے حقیقت سے دو درجے دور جا پڑتا ہے۔
ارسطو نے اپنے استاد کی اس بات سے بھی اختلاف کر کے شاگردی کا حق ادا کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ادیب اصل زندگی کی غلامانہ نقالی نہیں کرتا، بلکہ منتخب واقعات کو لے کر انہیں اپنی مرضی کے مطابق نکھارتا، سنوارتا اور ڈھالتا ہے، اور یوں وہ اس کائنات کے بالمقابل اپنی متوازی کائنات تخلیق کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔
آنے والی صدیوں میں اس موضوع پر بہت سے فلسفیوں نے بحث کی جن میں کانٹ، نیچے اور ہائیڈیگر وغیرہ نمایاں ہیں، مگر میں فلسفیوں سے الگ ہٹ کر دو شاعروں کے ہاں سے مثالیں دینا چاہوں گا جنہیں بڑی آسانی سے پچھلی دو صدیوں کے دوران انگریزی کے تین چار چوٹی کے شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
جان کیٹس نے ایک خط میں ’منفی صلاحیت‘ یاNegative Capability کی اصطلاح متعارف کروائی۔ کیٹس کے مطابق شیکسپیئر جیسے بڑے شاعر اس صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں جو غیرحتمی، غیر یقینی صورتِ حال، اسرار، اور شکوک و شبہات کو جوں کا توں قبول کرتے ہیں اور ان پر اپنی تفہیم یا تشریح کا ٹھپہ لگا کر انہیں محدود کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ شیکسپیئر کو ’ایموجن‘ جیسی اپنی سب سے نیک دل ہیروئن کا کردار تخلیق کرنے میں اسی قدر لطف آتا تھا جتنا ’آئیگو‘ کو تخلیق کر کے، جو شکیسپیئر کا سب سے بڑا ویلن ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ نے اسی بات کو آگے بڑھایا۔ وہ اپنے مشہور مضمون ’روایت اور انفرادی استعداد‘ میں لکھتے ہیں کہ شاعر ان جذبات سے جو نے کبھی محسوس نہیں کیے، اتنا ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جتنا اپنے شناسا جذبات سے۔ ویسے کیٹس یہ بات اپنی مشہور نظم Ode on a Grecian Urn میں پہلے ہی کہہ چکا تھا: Heard melodies are sweet, but those unheard, are sweeter
بہرحال، ایلیٹ اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ شاعر اگر واحد متکلم ’میں‘ کے صیغے میں لکھتا ہے تو یہ ’میں‘ بھی ایک کردار ہے، اور فنکار جتنا بےعیب ہو گا، اتنے ہی مکمل طریقے سے وہ اپنے اندر اس انسان کو جو دکھ جھیلتا ہے، اس دماغ سے الگ رکھنے میں کامیاب ہو سکے گا جو تخلیق کرتا ہے۔
اسی مضمون میں ایلیٹ نے وہ مشہور فقرہ لکھا کہ ’شاعری جذبات کو بےلگام چھوڑنے کا نہیں، بلکہ جذبات سے دور بھاگنے کا نام ہے، شاعری شخصیت کی ترجمان نہیں بلکہ شخصیت سے فرار ہے۔‘
بات یہ ہے کہ شاعر جب کوئی شعر کہتا ہے تو وہ ذاتی تجربہ بیان نہیں کر رہا ہوتا۔ کوئی بھی انسان، چاہے وہ کتنا ہی عظیم مفکر کیوں نہ ہو، ہمہ وقت لمحۂ موجود کے چھوٹے سے پنجرے میں قید ہوتا ہے اور اس کی زمان اور مکان دونوں میں رسائی بہت محدود ہوتی ہے۔ اس کا ذاتی تجربہ by definition انتہائی محدود، سطحی اور یک رخا ہوتا ہے۔ وہ اس شخصی تجربے کو بیان کرے گا تو اس کا بیان بھی سطحی، سوقیانہ اور تنگ داماں ہو گا۔ عشق و محبت، نفرت، رقابت، وصل، جدائی، زندگی، موت، بیماری، بڑھاپا، اپنی اصل میں بےحد عامیانہ چیزیں ہیں جن سے دنیا کا تقریباً ہر انسان گزرتا ہے۔ ان محدود تجربوں کو کوئی نچوڑے گا کیا اور نہائے گا کیا۔ لیکن اسی شاعر کا معمولی سے معمولی جذبہ اس وقت عظیم ہو جاتا ہے جب وہ اسے دسیوں ہزار سالوں کے دوران لاکھوں شاعروں کے سنوارے، نکھارے، نتھارے مشترکہ تخلیقی تجربات کے مقابل رکھ دیتا ہے۔
اسی لیے شاعر شعر کہتے وقت اپنے ذاتی تجربے کو بروئے کار نہیں لاتا، بلکہ اپنی پوری تہذیب کے مشترکہ تجربات کا نچوڑ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ گویا شاعری انفرادی نہیں ایک اجتماعی، تہذیبی اور سماجی عمل ہے، جس میں صدیوں کے فاصلے، زبانوں کا فرق اور براعظموں کی دوریاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
آپ میر کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان کے بظاہر انتہائی منفرد شعروں کا اصل خیال مثال کے طور پر خانِ آرزو سے لیا گیا، بعض اوقات تو محض لفظوں کے ہیر پھیر سے بات بدل دی گئی۔ لیکن خانِ آرزو نے یہ خیال بیدل سے لیا تھا، بیدل نے صائب سے، صائب نے حافظ سے، حافظ نے رومی سے، رومی نے عربی شاعری سے، عربوں نے عبرانی سے، انہوں نے سمیریوں سے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ انسان کی نسل لکھوکھا سال پرانی ہے اور انسان زبان لگ بھگ ایک لاکھ سال سے بول رہا ہے، اس لیے اغلب ہے کہ شاعری بھی قریب قریب لاکھ سال سے ہو رہی ہے۔
اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھ کر آپ شاعر سے کہیں کہ وہ اس سانجھے انسانی تہذیبی ، سماجی اور تاریخی ورثے کو طاق پر رکھ کر صرف وہی لکھے جو اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا دل سے محسوس کیا ہو، تو ایسا ہی جیسے آپ نے اس کے ہاتھ پشت پر باندھ کر سامنے قلم رکھ دیا ہے کہ بھئی لکھ۔
کیا ذاتی تجربے کی شرط لگا کر یہ شعر لکھے جا سکتے تھے:
اگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہم
صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میر
سرِ منصور ہی کا بار آیا
عالم کسو حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
ہمت اپنی ہی تھی یہ میر کہ جوں مرغِ خیال
اک پرافشانی میں گزرے سرِ عالم سے بھی
نشوونما ہے اپنی جُوں گَردباد انوکھی
بالیدہ خاکِ رہ سے ہے یہ شجر ہمارا
قصہ مختصر یہ کہ کلاسیکی شاعر، خاص طور پر کلاسیکی غزل کا شاعر اپنے سامنے موجود نئی پرانی شاعری کے ذخیرے سے، اپنے کلاسیکی کینن (canon) سے، اپنے زمانے میں چلنے والی تحریکوں اور رحجانات، اور جس صنف میں لکھ رہا ہے، اس کی شعریات، کنونشنز اور تقاضوں سے مواد اٹھاتا ہے۔
وہ غزل کہتے ہوئے آس پاس دیکھتا ہے کہ آج کل کون سے مضمونوں کی چلت زیادہ ہے۔ اگر وہ کسی مضمون پر فکر کرتا ہے تو اسے اپنی زندگی سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ یہ سوچتا ہے کہ اس مضمون کو قُدما نے کیسے برتا ہے، ہم عصروں نے اس میں کیا گل کاریاں کی ہیں اور میں اس میں نئے معنی کیسے پیدا کر سکتا ہوں، یا اسی بات کو تھوڑا آگے لے جا سکتا ہوں، یا اسے یوں پلٹ سکتا ہوں کہ کوئی انوکھا پہلو نکل آئے۔ بلکہ بعض اوقات کسی عام سے شاعر کا معمولی شعر بھی بڑے شاعر کو کوئی نئی راہ سجھا دیتا ہے۔ میر نے کئی بار ایسا کیا ہے کہ کسی شاعر کا عام سا شعر اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا۔ کچھ واقعات ’آبِ حیات‘ میں بھی درج ہیں۔
بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ شاعر نے کسی مصرعے پر غور شروع کیا تو آگے چل کر لفظوں کا درد و بست، شعر کی زمین اور ردیف قافیہ اسے کسی اور ہی سمت بلکہ بالکل مخالف جہت میں بہا کر لے گیا۔ اب اگر شعر اعلیٰ نکل آیا ہے تو کیا شاعر اسے پھاڑ کر ردی میں پھینک دے گا کہ میرا آج کی صبح بری گزری تھی مگر شعر رجائیہ ہو گیا ہے؟ نہیں! میرا تو خیال ہے کہ وہ شاعر، اگر شاعری اس کا مسئلہ ہے، تو وہ مرزا نوشہ کے تتبع میں ازاربند میں ایک نہیں بلکہ دہری گرہ لگا کر شعر محفوظ کر لے گا۔
آپ نے وہ مشہور فقرہ سنا ہو گا کہ ’تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔‘ انگریز شاعر شیلی نے اسی بات میں تصوف کی بجائے درد و غم رکھ دیا، لیکن دراصل یہ کسی بھی شعری مضمون پر صادق آتا ہے، چاہے وہ خمریات ہو، یا ہزلیات، معاملہ بندی ہو یا مذہبی شاعری ،یا رندی یا امرد پرستی۔
اسی سے منسلک تخلیقی عمل کی پراسرار کارفرمائی بھی ہے۔ کیا شاعر جب شعر کہنے بیٹھتا ہے تو وہ مکمل منصوبہ بندی کر کے قلم ہاتھ میں تھامتا ہے، اور کاغذ کے سامنے وہ مکمل کنٹرول میں ہوتا ہے؟ کیا تخلیقی عمل اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انجان راہداریوں اور زیرِ شعور ان چھوئی پگڈنڈیوں پر نہیں چلاتا؟
دوسرے لفظوں میں، شاعری کوئی شفاف کھڑکی نہیں ہے جس سے جھانک کر ہم شاعر کے نظریات، خیالات اور جذبات کا مشاہدہ کر سکیں۔ ذاتی تجربہ اگر کوئی ہے بھی تو وہ تخلیقی عمل کی کٹھالی سے گزر کر کچھ کا کچھ بن جاتا ہے اور اس سے اصل واقعے کو ری کنسٹرکٹ کرنا ممکن نہیں رہتا۔
اب ظاہر ہے کہ زبان شاعر خود تخلیق نہیں کرتا، بلکہ پہلے سے بنے ہوئے مسالے کو استعمال میں لاتا ہے۔ اور اس کام کے لیے وہ پہلے سے موجود شاعروں کے کلام سے مدد لیتا ہے۔
اب لفظ ’دریا‘ ہی کو لے لیجیے، میں نے اگر دریا پر شعر کہا ہے تو یہ میرا ذاتی دریا نہیں ہے۔ دریا جونہی شعر میں آئے، قاری کے دماغ میں اس لفظ کے متعدد انسلاکات کوند جاتے ہیں، کئی اشعار، نظریے، مقولے دماغ میں گونجتے ہیں جو معاشرے کا مشترکہ ورثہ ہیں اور ان سب نے مل کر دریا کو ’ایک بڑی ندی‘ سے اوپر اٹھا کر کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔ یہی عمل تقریباً ہر کلیدی لفظ کے ساتھ ہوا ہے۔
خانِ آرزو کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی ایرانی شاعر شیخ علی حزیں لاہیجی سے چشمک ہوئی کہ آیا ہندوستان والوں کو فارسی آتی ہے یا نہیں۔ حزیں نے کہا کہ ہم نے زبان اپنی نانیوں دادیوں سے سیکھی ہے، ہندوستانی ہمارا کیا مقابلہ کریں گے۔ اس پر خانِ آرزو نے لاجواب فقرہ کسا کہ آپ نے نانیوں دادیوں سے سیکھی ہو گی، ہم نے خسرو، حافظ اور سعدی سے فارسی سیکھی ہے۔
لاہیجی نے عام بول چال کی فارسی واقعی نانی سے سیکھی ہو گی، مگر اعلیٰ شعری زبان، بیان اور اظہار کے انہیں بھی حافظ و سعدی اور انہی کے پائے کے دوسرے عظیم شاعروں کے آگے زانو تہہ کرنا پڑا ہو گا۔
لیکن صرف زبان کی بات نہیں ہے، شاعری کا بھی یہی معاملہ ہے۔ شاعر شاعروں ہی سے شاعری سیکھتا ہے۔ میر کے زمانے کے شاعر کے سامنے فارسی شاعری کا فلک بوس کوہِ بےستوں موجود تھا۔ وہ اسی سے اپنی شاعری کی نہر نکالتا تھا، اسی سے مکالمہ کرتا تھا۔ یہی اس کی درس گاہ، یہی اس کی ورکشاپ تھی۔ یہ اس اعتراض کا بھی جواب ہے کہ کلاسیکی اردو غزل گو میں ہمالیہ کی بجائے اوپر بیان کردہ بےوستوں و دماوند، اور کوئل کی بجائے بلبل اور گنگا کی بجائے جیحوں کا ذکر کیوں ہے۔
امریکی نقاد ہیرلڈ بلوم نے ایک اصطلاح وضع کی ہے، anxiety of influence جس کا ترجمہ ’اثر کا اضطراب‘ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاعر اپنے پیش رو شاعروں کے ساتھ مسلسل ہم کلامی میں سرگرم ہوتا ہے، اور یہ اس کے تخلیقی عمل کا لازمی حصہ ہے۔ شاعر کے دو مسئلے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ پرانے شاعروں سے کیسے عہدہ برا ہو اور ان شاعروں کے مقابلے پر اپنے شعر کو کیسے پیش کرے، جن سے اس نے اثر قبول کیا ہے۔
آسکر وائلڈ نے ایک بار بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ ’تمام بری شاعری خلوص سے پر ہوتی ہے۔‘
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر اچھا شعر لازمی طور پر جُھوٹا ہوتا ہے، مگر یہ کہ شعر کی دنیا حقیقی دنیا سے الگ اور اس سے ماورا ہوتی ہے اور وہاں سچ جھوٹ ماپنے کے پیمانے الگ ہوتے ہیں۔
قدیم عرب معاشرہ کی رگوں میں شاعری دوڑتی تھی، اس لیے قرآن اور حدیث میں بھی شاعروں اور فنِ شعر کے بارے میں چند ایسی باتیں آ گئی ہیں جن سے ہمارے موضوع پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً سورۃ الشعرا میں ہے کہ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ: شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔} اس کی تشریح مفسرین نے یوں کی ہے کہ شاعر ہر قسم کے شعر کہتے ہیں، کبھی کسی کی تعریف کرتے ہیں، پھر اسی کی مذمت پر اتر آتے ہیں ۔
ایک اور آیت میں ہے: {وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ ایسی بات کہتے ہیں ۔} تفسیرِ کبیر کےمطابق یہاں شاعروں کے قول اور عمل میں تضاد بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں سخاوت کی تعریف بیان کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خود سخاوت کرنے سے اِعراض کرتے ہیں اور بخل کی مذمت بیان کرتے ہیں جبکہ خود انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ شاعر کی ذات اور اور اس کی شاعری میں اپنی شخصیت کا اظہار دو الگ چیزیں ہیں۔
ہم نے اب تک شاعری کا ذکر کیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ادب کی دوسری اصناف کسی اور اصول پر کام کرتی ہیں۔ اوپر کیٹس کی ’منفی استعداد‘ اور شیکسپیئر کے ہاں اس صلاحیت کی وافر مقدار میں موجودگی کا ذکر ہوا۔ کچھ ایسی ہی خوبی لیو ٹالسٹائی میں بھی پائی جاتی تھی۔ انگریزی ادب کا ایک بڑا نام ورجینیا وولف کا ہے۔ انہوں نے ٹالسٹائی پر اپنے ایک مضمون میں حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیسے مرد ہوتے ہوئے بھی ٹالسٹائی نے اپنے ناولوں میں نسوانی کرداروں، خاص طور پر ’وار اینڈ پیس‘ کی نتاشا، کے جذبات اور خیالات کو بھرپور صداقت اور گہری تفہیم سے پیش کیا ہے کہ وہ کردار بالکل جیتے جاگتے لگتے ہیں۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ بھلا ٹالسٹائی کا میر سے کیا تعلق بنتا ہے؟ میر شاعر ہیں، ٹالسٹائی ناول نگار، تو میں آپ کو انتظار حسین کا مشہور جملہ یاد دلانا چاہوں گا کہ انہیں میر میں ایک ناول نگار نظر آتا ہے۔
انتظار صاحب نے اس اجمال کی تفصیل بیان نہیں کی مگر میر کے سب سے بڑے پارکھ شمس الرحمٰن فاروقی نے اس مشاہدے کی نہ صرف تائید کی ہے بلکہ آگے بڑھ کر صراحت بھی کی ہے کہ میر کی دنیا ’اپنی وسعت، واقعات کی کثرت، غزل کے روایتی کرداروں کو واقعاتی سطح پر برتنے کی خصوصیت اور عام زندگی کے معاملات کے تذکرے کے باعث کسی بڑے ناول نگار کی دنیا معلوم ہوتی ہے۔‘
آگے چل کر کر فاروقی مزید مخصوص ہو جاتے ہیں کہ ’میر کا کلیات مجھے چارلز ڈکنز کی یاد دلاتا ہے، وہی افراتفری، وہی انوکھے اور معمولی اور روزمرہ اور حیرت انگیز کا امتزاج، وہی افراط وہی تفریط، وہی بےساختہ مگر حیرت انگیز مزاح، وہی بھیڑبھاڑ۔ لگتا ہے ساری زندگی اسی کلیات میں موجزن ہے۔ زندگی کا کوئی تجربہ نہیں، عارفانہ وجدان اور مجذوبانہ وجد سے لے کر رندانہ برہنگی تک کوئی ایسا لطف نہیں، ذلت، ناکامی، نفرت، فریب شکستگی، فریب خوردگی، پھکڑپن، زہرخند، سینہ زنی سے لے کر قہقہہ، جنسی لذت، عشق کی خودسپردگی اور محوتی تک کوئی ایسا جذبہ اور فعل نہیں جس سے میر نے خود کو محروم رکھا ہو۔‘
یہ ہیں میر۔ جن کے ہاں اگر ’میر جی‘ یا ’میر صاحب‘ بھی آتا ہے تو وہ بھی میر تقی میر نہیں بلکہ شاعر کا تخلیق کردہ ایک فرضی کردار ہے، پرسونا ہے، جس کا مواد پہلے سے موجود شاعری کے کورپس میں سے اٹھایا گیا ہے۔ اس کا میر کی اصل زندگی سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔
آخر میں آپ کے سامنے میر کے چار شعر رکھتا ہوں:
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
نالہ کش ہیں عہد پیری میں بھی تیرے در پہ ہم
قدِ خم گشتہ ہمارا حلقہ ہے زنجیر کا
صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
پیری میں کیا جوانی کے موسم کو رویے
اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سویے
یہ بڑھاپے کے موضوع پر اردو کے چند عمدہ ترین اشعار ہیں، لیکن اگر کلیاتِ میر کھولیں تو یہ شعر دیوانِ اول میں ملیں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دیوانِ اول میر نے اس وقت مرتب کیا تھا جب ان کی عمر 27 سال تھی۔ چونکہ اس میں پانچ سو سے زیادہ غزلیں ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں کم از کم آٹھ دس برس کے دوران کی گئی شاعری شامل ہو گی۔ گویا میر ٹین ایجر کی عمر ہی سے بڑھاپے کی ماندگی اور شکست خوردگی کے شعر لکھ رہے تھے۔ ذاتی تجربے کی روشنی میں نہیں، اردو اور فارسی شاعری میں بڑھاپے کے موضوع پر لکھے گئے اشعار کی روشنی سے اپنا دیا جلا رہے تھے۔
آپ نے دیکھا ہو گا فلم شروع ہونے سے پہلے ایک سلائیڈ چلائی جاتی ہے
This is a work of fiction. Any similarity to actual persons, living or dead, or actual events, is purely coincidental.
ترجمہ: ’یہ فرضی کہانی ہے۔ اس کی کسی مردہ یا زندہ شخص، یا اصل واقعات سے تعلق محض اتفاقی ہے۔‘
میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کی کتابوں کے پہلے صفحے پر بھی یہی پیغام چھپوایا جانا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں