منطقی اثباتیت کا آغاز 1924 میں آسٹریا کے شہر ویانا میں ہوا۔ اس کی بنیاد مورٹس شیلک نے رکھی، جو طبیعیات کے ماہر تھے اور ابتدائی زندگی میں سائنس کی طرف خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد میں فلسفے میں ان کی دلچسپی بڑھی اور انہوں نے ایک اسٹڈی سرکل قائم کیا، جسے ابتدا ء میں “شیلک سرکل” کہا جاتا تھا۔ اس سرکل میں ان کے قریبی دوست اور شاگرد بیٹھا کرتے تھے۔ جیسے جیسے شیلک کی شہرت میں اضافہ ہوا اور اس سرکل میں پورے آسٹریا، خاص طور پر ویانا سے آنے والے مشہور دانشور شامل ہونے لگے، اس کا نام “شیلک سرکل” سے تبدیل ہو کر “ویانا سرکل” رکھ دیا گیا۔ یہ سرکل بعد میں منطقی اثباتیت کا مرکز بن گیا، اس اسٹڈی سرکل کی خاصیت یہ تھی کہ اسے بطورِ خاص فلسفے سے نہیں جوڑا جاتا تھا بلکہ یہاں تقریباً ہر طرح کے دانشور موجود ہوتے تھے، جن میں ماہرینِ منطق، ماہرینِ لسانیات، سائنسدان، فلاسفہ اور ریاضی دان وغیرہ شامل تھے لیکن ان میں کچھ متفقہ تھا تو مابعدالطبیعیات سے دشمنی۔ ان ماہرین کا ماننا تھا کہ وہ فلسفے کو مزید واضح بنانے نکلے ہیں وہ اپنی تحریک کو اکثر scientific philosophy بھی کہتے تھے۔
لاجیکل پازیٹیوسٹس کے بنیادی خیالات:
گستاو برگمین جو کہ ویانا سرکل کے اہم ممبر تھے ‘کے مطابق لاجیکل پازیٹیوازم کے بنیادی خیالات چار ہیں:
1- علت و دیگر معاملات پر ہیومین موقف کی حمایت یعنی لاجیکل پازیٹوسٹ بھی علت و معلول کی لازمیت کے انکاری تھے اور اسے تجربے سے زیادہ حقیقی ماننے کو تیار نہیں تھے۔
2- تمام ریاضیاتی اور منطقی حقائق اپنے آپ میں سچ ہیں اور انھیں کسی بیرونی تصدیق کی ضرورت نہیں۔
3- فلسفے کا بنیادی کام تعقلات کی منطقی وضاحت کرنا ہے جس کے لیے سب سے اہم علمِ لسانیات اور منطق ہے۔
4- فلسفے کے دیگر تمام مسائل بالخصوص مابعدالطبیعیاتی مسائل صرف اور صرف لسانی اصطلاحات کے غیرواضح ہونے کی وجہ سے ہیں۔
پازیٹیوسٹ کے مطابق لسانی تجزیہ سب سے اہم چیز ہے جس کے ذریعے ہم کنفیوزن ختم کرکے زبان کے مسئلے حل کرسکتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ایک ایسی آئیڈیل زبان بنائی جائے جو کہ ہمارے تجربے کو اسی منطقی انداز سے بیان کرے جیسے کرنا چاہیئے تو فلسفے کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں بچتا کہ جو حل ہونے سے رہ جائے گا۔
ان کے مطابق وہ باتیں کہ جن کو ہم فیصلہ کن انداز میں صحیح یا غلط ثابت نہیں کرسکتے پر بحث کرنا ان کے ہی ایک ہم خیال فلسفی لوڈوک وٹگینسٹائن کے بقول “ذہنی مشت زنی” سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے مطابق یہ بےمعنی بحثیں تھیں اور معنی خیز بیانات صرف اور صرف وہی ہیں جن کو براہ راست verify کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ مابعدالطبیعیات کے مطابق یہی کہتا تھا کہ یہ نہ سچ ہے نہ جھوٹ مگر سرے سے بےمعنی ہے۔
اب تک ہم نے یہ بھی سمجھ لیا کہ لاجیکل پازیٹوسٹ یہ مانتے تھے کہ جس چیز کو verify کیا جاسکتا ہے صرف وہی معنی خیز ہے تو ان کی verification کا معیار کیا تھا؟ تو وہ ان کا Verification principle ہے جو کہ ان کے نظریے کا دل ہے، Verification principle کے مطابق “کوئی بھی بیان یا بات تب ہی معنی خیز ہوسکتی ہے جب یا تو وہ اپنے آپ میں درست ہو جیسے ریاضیاتی مساوات ہوتی ہیں تو یا پھر وہ تجربے کے ذریعے سچ ثابت ہوسکتی ہو”۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ بےمعنی ہے۔ اس میں بھی پازیٹوسٹ کے ہاں درجہ بندی تھی۔ ایک strong verification ہوتی تھی جس کا مطلب تھا کہ تجربے سے کسی چیز کا سچ یقینی طور پر ثابت ہوجائے ‘جیسے یہ بات ہے کہ “باہر بارش ہورہی ہے” یہ میں باہر دیکھوں اور ثابت ہوجائے کہ ہاں بارش ہورہی ہے تو یہ strong verification ہے جبکہ اگر تجربہ صرف اس بات کے سچ ہونے کو قابلِ یقین بنائے لیکن فیصلہ کُن طور پر ثابت نہ کرے تو اسے ہم weak verification کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ verification کے کئی معیارات میں سے ایک معیار یہ بھی تھا کہ وہ ایک دو لوگوں کی موجودگی میں یا ایک دو دفعہ کرکے دیکھا ہوا تجربہ نہ ہو بلکہ اس کو rigorously test کیا گیا ہو۔ پازیٹوسٹ کے مطابق اس کے بعد وہ بات ایک حقیقت بن جاتی ہے جس سے مزید نتائج منطق کا استعمال کرکے نکالے جاسکتے ہیں۔ پازیٹوسٹس کا یہ بھی ماننا تھا کہ اگر کوئی بات ایک نظریہ ہو تو اسے کئی سارے premises میں توڑا جانا چاہیئے پھر ان سب premises کی سخت verification ہونی چاہیئے پھر اس نظریے کو قبول کیا جانا چاہیئے۔ اسے ہم incrementalism کہتے ہیں جس کے لاجیکل پازیٹیوسٹ بہت داعی تھے۔
اس ساری بحث کے دوران لاجیکل پازیٹیوسٹ کو ایک اور مسئلہ مابعدالطبیعیات کے علاوہ جو پیش آیا وہ اخلاقیات کا تھا کیونکہ پازیٹیوسٹ اپنے اس سخت گیر موقف کو ہر چیز پر لاگو کر رہے تھے۔ اس پر لاجیکل پازیٹیوسٹس کا موقف تھا کہ اخلاقی اقدار زیادہ تر جذبات پر مبنی ہوتی ہیں اور اس پر کہ معاشرہ کیا قبول کرتا ہے اور کیا نہیں۔ ان کا ٹھوس علم سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اس بات پر قائم رہتے ہیں کہ ٹھوس علمی میدان میں اخلاقی بیانات اور باتوں کی بھی کوئی معنی خیزی نہیں کیونکہ یہ ان کے verification principle پر پورا نہیں اترتی۔
یہ ایک انتہائی پیچیدہ فکرِ فلسفہ کے بنیادی نظریات اور اندازِ فکر کو پیش کرنے کی کوشش کی بہت سی چیزیں ذہن میں تھی لیکن انھیں اس تحریر سے باہر رکھا کیونکہ وہ بات کو مبتدین کے سمجھنے کے لیے بہت مشکل کردیتی۔ ورنہ لاجیکل پازیٹیوازم اس سے کئی گہرا نظریہ بلکہ ان میں اور ان سے پہلے کے پازیٹیوسٹ میں فرق ہی یہی تھا کہ انہوں نے ریاضیاتی منطق کا بہت استعمال کیا جس کی وجہ سے ان کا نظریہ قدرِ پیچیدہ تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں