نواسۂ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کو ان کے ساتھیوں نے جنگ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن جب آپ تیار نہ ہوئے، تو آپ پر طعنوں کی بوچھاڑ کی گئی، یہاں تک کہ
“یا مذل المومنین” (اے مومنین کو ذلیل کرنے والے) جیسے طنزیہ جملے کہے گئے۔ اس کے باوجود، آپ نے اپنی بصیرت اور صبر کا مظاہرہ کیا اور امیر شام معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ صلح کی، خلافت سے دستبردار ہو گئے، اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امت کی بھلائی کو ترجیح دی۔
ائمۂ اہل بیت علیہم السلام میں سے امام علی اور امام حسین علیہما السلام نے جنگ اور شہادت کو قبول کیا، جبکہ باقی ائمہ کرام نے ہر طرح کے مصائب اور مشکلات برداشت کیے، لیکن کبھی جنگ کا راستہ نہیں اپنایا۔
اس سے بڑھ کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت سے ہمیں حلف الفضول، مواخات، میثاق مدینہ، صلح حدینیہ، فتح مکہ، درجنوں سفارتی خطوط اور معاہدات رہنمائی کے لیے ملتے ہیں۔
ایران کی جانب سے حالیہ میزائل حملوں میں آبادی کو نشانہ نہ بنانے کا اعلان سامنے آیا ہے، اور ان حملوں کا مقصد محض ملٹری تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا۔ اس احتیاط کی ہم ستائش کرتے ہیں، اور کاش کہ دیگر فریق بھی انسانی آبادی کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتے۔
یہ کمزوری نہیں بلکہ حکمت ہے۔
تاہم، اگرچہ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے ک اہم تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچا، حقیقت کچھ مختلف لگتی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تمام ویڈیوز کو جھوٹا قرار نہیں دیا جا سکتا، اور میڈیا کو متاثرہ مقامات پر جانے سے روکنا اس بات کا اشارہ ہے کہ نقصان ضرور ہوا ہے۔
اسرائیل کے (خطے میں ایرانی اتحادیوں پر) نشانہ وار حملوں کے بعد دونوں بار ان کا جواب دینا ایران کی مجبوری بن گئی تھی، لیکن ایرانی قیادت نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ وہ خطے میں جنگ کا آغاز نہیں چاہتے۔ اس جنگ نے اب تک اسرائیل، غزہ، مغربی کنارہ، اور لبنان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس میں مجموعی طور پر تقریباً پینتالیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
اب، جب دو ریاستیں براہ راست آمنے سامنے ہیں، جنگ کے دائرے میں مزید ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ روس، چین یا دیگر طاقتور ممالک کھڑے ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت بتائے گا، لیکن اسرائیل کو امریکہ اور نیٹو ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ صورتحال بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ پیدا کرتی ہے، جس سے شہر ویران ہو سکتے ہیں اور نسلیں تباہ ہو سکتی ہیں۔
بچے چاہے فلسطین، اسرائیل، لبنان، شام، یمن یا ایران کے ہوں، ان کا کوئی قصور نہیں۔ وہ بڑوں کے جنگی جرائم و عزائم کی بھینٹ نہیں چڑھنے چاہئیں۔ بچے کسی بھی مذہب، قوم یا عقیدے سے ہوں، وہ معصوم ہیں اور جنگ کی تباہ کاریوں کے حقدار نہیں۔
اس لیے ہمارا اصولی موقف ہے کہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ صلح اور امن کی ہر کوشش، چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو، بابرکت اور نیک شگون ہے۔ امن کا ہر راستہ، چاہے وہ مذہب، سیاست یا سفارتکاری سے نکلے، باعثِ رحمت ہے۔
ہم جنگ کے ہر سودا گر اور جنگی جرائم کے ہر مجرم سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔ دنیا میں امن قائم رکھنے میں ناکام ادارے اور تنظیمیں بھی اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔
جنگ کبھی بھی خوشحالی اور امن کا ذریعہ نہیں ہوتی۔ جدید ہتھیار جنگجو اور نہتے عوام کے درمیان فرق نہیں کرتے، اس لیے اقدامی اور دفاعی جنگ میں بھی کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ جنگ ہمیشہ انسانی جانوں، صدموں، اور بربادی پر منتج ہوتی ہے۔ صلح اور امن کا بدترین حل بھی جنگ سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ مشرق وسطیٰ میں بھڑکتی ہوئی جنگ کو روکنے کے لیے لوگوں کو عقل، حکمت، اور صحیح فیصلے کی توفیق عطا فرمائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں