انسانی اَنا جہاں ایک طرف فرد کی قوت ارادی کو تقویت دیتے ہوئے اسے مشکلات سے نکلنے میں مدد دیتی ہے، وہیں گاہے کوئی غیر ضروری چھلانگ لگواتے ہوئے مشکل میں بھی ڈال سکتی ہے۔ اَنا جمود کا شکار ہو جائے تو انسان اس کے دوسرے جنم کی سعی کرتا ہے، اَنا کو کوئی دوسرا رنگ دیتے ہوئے فرد دوسری سِمت کو نکل پڑتا ہے کیونکہ اَنا اپنی اصل میں کثیر الجہتی ہے، کسی محقق نے اَنا کو یونان سے تشبیہہ دے رکھی ہے، جب بھی کوئی سماج جمود کا شکار ہوتا ہے تو اسے یونان کی طرف واپس جانا پڑتا ہے ، نشاۃ ثانیہ کی ضرورت ہو، یا پھر کلاسیکیت اور رومانیت کے ادوارِ رنگیں ہوں، یہ سب واپس قدیم یونان کی سیر کا نتیجہ ہیں، واقعہ یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے فعال کنندہ ہائے ہوں، جرمن رومانوی لکھاری یا انیسویں صدی کے کلاسیکی ادیب ہوں، ان میں سے کبھی کسی نے ملک یونان کی زیارت نہیں کی، نتیجہ یہی نکالا جانا چاہیے کہ یونان بھی دو ہیں، ایک وہ قدیم یونان جو آج بھی جغرافیہ میں موجود ہے اور دوسرا انسان کے اندر ایک یونان بستا ہے۔
آخر یہ ایسا کیا تقاضا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر آگے کو بڑھنے کیلئے اَنا اور یونان کی ہمیشہ نئی جہت دریافت کرنا پڑتی ہے؟
کچھ ایسی نعمتیں بھی ہیں جو حقیقت میں فرحت آمیز ہیں لیکن مصدر کے کھو جانے سے یہ نعمتیں اب تکلیف کا باعث ہیں۔
امریکی نفسیات دان جیمز ہیلمن نے بڑی دلچسپ نشان دہی کی ہے کہ انسان کے ساتھ سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہوئی کہ اس نے حسن و خوبصورتی کو فنا کر ڈالا ، ان کے نزدیک وہ بے شمار کیفیات جنہیں نصاب کے مطابق نفسیاتی بیماریاں تصور کیا جاتا ہے، درحقیقت خوبصورتی کی سرکوبی کا نتیجہ ہیں، کیونکہ خوبصورتی ایک مخصوص جمالیاتی ردعمل کو جنم دیتی ہے ، یہ جمالیاتی ردعمل ہر جاندار کی بنیادی جبلتوں میں سے ہے، خوبصورتی کے کھو جانے سے انسان اس جبلت سے ہاتھ دھو بیٹھا، جس سے کئی پیچیدگیوں نے جنم لیا، ہیلمن کا عجیب دعویٰ یہ ہے کہ نفسیات دان اپنے مریض کو دیکھتے وقت ہر ایک چیز پہ توجہ دے گا بجز اس کے کہ اس مریض کے رہن سہن، لباس و زندگی کے دوسرے عوامل میں خوبصورتی کے اضافے کی کوشش کرے کیونکہ حسن و خوبصورتی کی اہمیت شعور سے کسی سڑے ہوئے پھل کی طرح گر گئی ہے، حالانکہ مریض کا علاج اسی خوبصورتی میں اضافے سے منسلک ہے کہ اس کے جمالیاتی ردِعمل کی جبلت دوبارہ سے زندہ ہو سکے، اس مریض کیلئے یہی نسخہ نئے سرے سے اَنا اور یونان کو دریافت کرنا ہے ۔
کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک طرف جہاں شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر تحفتاً پھول دیئے جاتے ہیں ، وہیں دوسری طرف بقول شخصے
” کچھ پھول تو ہوتے ہیں مزاروں کیلئے بھی “
پھول کا تحفہ اگر خوشی کی علامت ہے تو میت اور قبر پر پھول چڑھانے کی کیا منطق ہوئی؟
پھول جہاں خوشی کی علامت ہے وہیں زندگی کی علامت بھی ہے، قبر اور میت پر پھول کا تحفہ دراصل مُردے کو زندگی کی کمک بھیجنے کی رسم ہے، یعنی خوشی اور غم کی متضاد کیفیات میں پھول کے معنی کیفیت کے مطابق بدل جاتے ہیں، ویسے غیر جانبدار بند پہ پھول خوبصورتی کی علامت ہے۔
یہی معاملہ خود خوبصورتی کے ساتھ ہے کہ خوبصورتی بھی دو متضاد عناصر کو جنم دیتی ہے، لطف اور خوف ، خوبصورتی کے نشے میں شعور دھند کی زد میں آ سکتا ہے اور یہ دھند خوف کا موجب ہے، خوبصورتی کے ساتھ جہاں لطف کا عنصر لازم ہے، وہیں خوف بھی موجود ہے کہ خوبصورتی سے لطف اٹھاتے فرد کہیں لڑکھڑا نہ جائے، گناہ کی وادی میں نہ چلا جائے، یہ وہی پرانی جائز اور ناجائز کی بحث ہے، اس کشمکش میں فرد لطف میں بھی خوفزدہ رہتا ہے اور خوف میں لطف تلاشنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا، نتیجے میں خوبصورتی کا وجود کہیں نیچے دب جاتا ہے ۔
” خوبصورتی کو لتاڑنا دوسرے الفاظ میں خوف کو لتاڑنا بھی ہے “
انسان نے اپنے تعارف کو باپ دادا تک محدود کر دیا ہے، یہ بات اجتماعی لاشعور کے خلاف ہے کہ انسانوں کے اجتماعی لاشعور میں ارتقاء کی تمام منزلیں اپنے اوصاف رکھتی ہیں، گویا کہ تمام جاندار کہیں نہ کہیں انسان سے جڑے ہیں، کسی ایک نوع کے ناپید ہونے سے انسانی وجود کا کوئی حصہ گم ہو جاتا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ جناب نوح کو کشتی میں ہر جاندار کے جوڑے کو سوار کرنا پڑگیا، کتنے فضول ، زہریلے اور بے معنی جاندار موجود ہیں جن سے جان چھڑائی جا سکتی تھی، لیکن نہیں، کیونکہ یہ سب کسی پہلو سے انسان سے ضرور جڑے ہیں ۔ اسی لئے ہم دوسرے انسانوں کو ان کی خصوصیات کے مطابق بعض اوقات جانوروں سے تشبیہ دیتے ہیں، جیسے شیر، کتا، گدھا ، اُلو وغیرہ ۔
یونانیوں کا ہر تصور خوبصورتی سے ابھرتا ہے اور خوبصورتی سے جڑا ہے، حرم ہو یا مئےخانہ، حسن کی دیوی آفرودیت کا بت یا اس کا تصور وہاں ضرور موجود ہوگا جو جمالیاتی ردِعمل کی جبلت پہ گرہن نہیں لگنے دیتا، کوسموس کا مطلب بھی خوبصورتی ہے، یہاں سے کاسمیٹکس کا لفظ بنا ہے، یعنی ہر رنگ اور ہر انگ میں خوبصورتی کی تلاش ، پھر اس سے محظوظ ہونا یونانیوں کا خاصہ تھا، اَنا اگر بھٹکنے لگ جائے تو سمجھ جائیں کہ شعور اردگرد کی خوبصورتی کا عادی ہو چکا ہے، عادی ہونے سے تجسس اور لطف جاتے رہتے ہیں، اس لئے اَنا کو نئے رنگ میں رنگنے یعنی نئی سمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ عادی ہونے کی بنیادی وجہ پہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ لازم ضرورت کے فلسفے نے کسی ایسے احساس کو جنم دیا ہے جس نے خوبصورتی کو بدشکل بنا دیا ہے، کسی محقق کا قول ہے کہ
” جمال کبھی بھی ضرورت کو برداشت نہیں کرتا “۔
خوبصورت ترین جنگل کے وسط میں درختوں اور پھولوں کی خوشبو اور فطرت کے نظاروں سے فرد لطف اندوز ہو سکتا ہے، لیکن پھر ضرورت آن پڑتی ہے کہ اسی جنگل کے عین وسط میں سے نئی سڑک بنانے کیلئے جنگل کو کاٹا جا رہا ہے، یہاں اب جمال اور ضرورت ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں، ضرورتوں پہ دھیان چونکہ زیادہ ہے تو جمال کو یتیم کر دیا گیا ۔
لیکن موضوع کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ ضرورت اور لوازم کے بوجھ تلے اس دبی خوبصورتی کو کیسے بحال کیا جائے؟
اس بارے ہسپانوی فلسفی اور ادیب جارج سنتیانا کی رائے کے مطابق اس دنیا میں ہمارے اردگرد جتنے بھی آبجیکٹس موجود ہیں وہ سب اپنے اندر خوبصورتی لئے ہوئے ہیں اور ہر آبجیکٹ کی تمنا یہی ہے کہ اس کی خوبصورتی کو بے نقاب کیا جائے، وہ مخصوص نگاہ کے متلاشی ہوتے ہیں اور یہ نگاہ آپ کی بھی ہو سکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ آپ میں جمالیاتی ردعمل کی جبلت موجود ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں