• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ’’بے علمی، بد علمی سے بدرجہا بہتر ہے‘‘/ڈاکٹراظہر وحید

’’بے علمی، بد علمی سے بدرجہا بہتر ہے‘‘/ڈاکٹراظہر وحید

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ قول اقوال کی دنیا میں دانائی کا شاہکار ہے۔ اس پر جتنا غور کیا جائے، معانی کی نت نئی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اس کی تفہیم تک پہنچنے کے لیے لازم ہے کہ علم کی تعریف کی جائے، جہل کا احاطہ کیا جائے، اس کے بعد ہی بے علم اور بدعلم ہونے کے مفہوم تک رسائی ممکن ہے۔

عجب بات ہے، علم اور عالم کو جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ علم وہ صفت ہے جو اپنے موصوف کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ جہاں علم ہے، وہیں عالم ہے، اور جہاں تک عالِم ہے، وہاں تک علم کا عالَم ہے۔ اگر یہاں ذرا سا توقف کر لیا جائے، قیام کر لیا جائے، تو یہ نکتہ وا ہو سکتا ہے۔ علم ایک ذاتی صفت ہے … یہ ذات کی خاص ذاتی صفت ہے۔ حقیقت کے آئینے میں دیکھیں تو ذات اور صفات کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ذات سے صفات تک پہنچے والا ذات اور صفات میں یکتائی پائے گا، صفات سے ذات تک پہنچنے والا اس جستجو میں اپنے شعور کو زخمی کر سکتا ہے۔ وہ خود کو دائرہ ِ صفات تک محدود کر لے گا اور ذات کی خوشبو سے بے بہرہ رہ جائیگا۔

مخلوق کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ علم وہ صفت ہے جو غیر عالم کو عالم سے متعلق کرتی ہے۔ گویا علم کسی ذات سے تعلق کے ساتھ وابستہ ہے۔ ذات سے ذات تک سفر علم کی روشنی میں ہو گا … جذبہ، عقیدت، محبت اس راہ میں معاون ہوں گے۔ علم ایک راز ہے … جسے ملتا ہے، اُسے ہمراز کر دیتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہاں علم سے مراد تعلیم نہیں، انفارمیشن کی ترسیل نہیں۔ یہ سب چیزیں ٹیکنالوجی کی شکل ہیں، جسے آج کل کمپیوٹر انسان سے کہیں بہتر اور زیادہ تیز رفتاری سے سر انجام دے رہا ہے۔ کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت، اے آئی، (AI) آج کل تصوف پر مضامین اور نظمیں بھی لکھ رہی ہے۔ ہمارے ایک دوست عادل فاروق انگلش کے بہت باکمال لکھاری اور شاعر ہیں، بین الاقوامی انعامات بھی حاصل کر چکے ہیں، ایک دن میرے پاس بڑی پریشانی میں آئے، کہنے لگے کہ دیکھیں، یہ کیسی نظم ہے؟ میں نے کہا، حسبِ معمول بہت کمال کی شاعری ہے، تصوف کے بہت سے نکات کا احاطہ کرتی ہے۔ مسکراتے ہوئے بتانے لگے کہ یہ نظم میں نے نہیں لکھی، اے آئی نے لکھی ہے، میں نے اسے کمانڈ دی تھی کہ مجھے تصوف کے موضوع پر ایک نظم لکھ کر دو، جس میں فلاں اور فلاں نکات ایڈریس کیے جائیں۔ میرے کمپیوٹر نے چند سیکنڈ میں دو صفحات پر مشتمل یہ نظم لکھ کر دے دی۔ یہی ’’واردات‘‘ نیوزی لینڈ میں چلہ کش مہتاب قمر کے ساتھ ہوئی، اس نے اے آئی کو حکم دیا کہ تصورِ لامکاں کے موضوع پر تصوف کی روشنی میں ایک مضمون لکھو، اور اس میں سب حوالے بھی درج کرو۔ چند سیکنڈوں میں کمپیوٹر نے رومی، غزالی، ابنِ عربی، سلطان باہو اور شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتب کے حوالہ جات کے ساتھ ایک بہت ہی خوب مضمون لکھ مارا …

مضمون لکھوانے والا حیران پریشان، حیرت میں گم! وہ کہنے لگا، کہ آپ کہہ رہے ہیں، میں پینتیس برس سے ’’کشف المحجوب‘‘ پڑھ رہا ہوں، میرا کمپیوٹر پینتیس سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ’’کشف المحجوب‘‘ کا خلاصہ تیار کر لیتا ہے، اس میں موجود اہم نکات کی سمری نکال دیتا ہے۔ اب آپ کیا پڑھ رہے ہیں، اور میرا کمپیوٹر کیا پڑھ رہا ہے۔ پھر وہ خود ہی کہنے لگا، یوں لگتا ہے، کتاب کے ساتھ ساتھ جب تک صاحبِ کتاب کے ساتھ تعلق قائم نہ ہو، علم منتقل نہیں ہوتا۔ کتاب سے کتاب تک انفارمیشن کی منتقلی کا عمل، علم نہیں کہلاتا۔ کتابوں کے تراجم اور تلخیص تیار کرنا بھی علم نہیں۔ علم تو علم دینے والی ذات سے منسلک اور منضبط ہونے کا نام ہے۔ یہی اہم نکتہ ہے، جب تک بات بیت نہ جائے، بات اپنی نہیں ہوتی، اور جو بات اپنی نہ ہو، بیان ہو کر بھی اپنی نہیں بنتی۔ کشف المحجوب لکھنے والے، کیمیائے سعادت سے دنیا کو بہرہ ور کرنے والے، مثنوی لکھنے اور لکھوانے والے، یہ سب لوگ اپنا علم قلم بند کر رہے تھے، وہ اس میں سے گزر رہے تھے، وہ اپنی واردات بیان کر رہے تھے۔ اُن کے لیے وہ علم تھا۔ اُن کا کا لکھا ہوا علم ہمارے لیے تعلیم ہے۔

علم ایک نزولی واردات ہے، جو قلب پر نازل ہوتی ہے اور اسے منقلب کر دیتی ہے۔ علم جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو اُس سے اُس کا جہل دور کر دیتا ہے۔ علم نور ہے، جہل بشریت! گویا علم وہ آسمانی تنزیل ہے، جو بشریت کے پردوں کو چاک کرتی ہے۔ علم … عدل ہے۔ جہالت … ظلم اور ظلمت ہے۔ صاحبِ علم … علم کا صاحب جب کسی کو ہمراز کرنا چاہتا ہے، اپنی معرفت عطا کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے نورِ علم سے کچھ عطا کر دیتا ہے۔ یہاں علم اور خیال یک جان اور یک زبان ہونے لگتے ہیں۔ دراصل ہم خیال ہونا، ہم راز ہونا ہے۔ علم خیال کی صورت میں آتا ہے … جو خیال سے متمسک ہو جائیں، ان کا خیال عین علم ہوتا ہے۔ تعلیم کی کوئی ایک مخصوص جہت ہوتی ہے، علم ہمہ جہت ہوتا ہے۔ ایک شعبے کی تعلیم حاصل کرنے والا باقی شعبوں سے جاہل رہ جاتا ہے۔ علم کے لیے ہمہ جہت بینائی ہے۔ تعلیم روشنی ہے، علم نور ہے۔ روشنی کسی وجود کو بس ایک سمت سے روشن کرتی ہے۔ نور … وجود کو اندر سے باہر تک پُر نور کر دیتا ہے۔

علم ذات کی ایک خاص ذاتی صفت ہے۔ یہاں تک کہ بعض عارفین ِ حق، ذاتِ حق کو ’’العلم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں خود کو ’’العلیم‘‘ اور ’’علّام‘‘ کہا ہے۔ علم کی ابتدا ہے نہ انتہا، یہ بے حد ہے، بلکہ اَن حد ہے، زمان و مکاں میں کوئی چیز اس کا احاطہ نہیں کر سکتی، یہ ہر شئے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ علم بے حد و حساب ہے، یہ ایک دشتِ بے اماں ہے۔ مخلوق کو اس کی طرف کوئی راہ نہیں، جو اپنے طور اس میں عازمِ سفر ہوتا ہے، ہلاک ہو جاتا ہے۔ وہ ذات علیم بھی ہے اور حلیم بھی۔ چنانچہ اِس لامتناہی دشت میں ایک شہر علم آباد کیا گیا … جو علم کی تلاش میں سرگرداں مخلوق کے لیے سر تا پا عافیت، رحمت و رافت ہے … ہدایتِ کامل ہے۔ اس شہرِ علمؐ سے روگرداں جہالت میں پڑا رہ جاتا ہے، اس کا باغی اور بے ادب جاہل، بلکہ ابو جاہل کہلاتا ہے۔ ہر شہر کا ایک دروازہ ہوتا ہے، چنانچہ اس شہر کا بھی ایک دروازہ ہے، علم کے شہر کا دروازہ باب العلمؓ ہے۔ العلم کا ہمراز صاحبِ قاب قوسین شہرِ علمؐ ہے، اور شہرِ علمؐ کا ہم راز، لحمک لحمی، جسمک جسمی، روحک روحی صاحبِ نہج البلاغہ باب العلمؓ ہے۔ یہ صدر دروازہ اور اس کے ذیلی دروازے … سب کے سب جنت کی طرف کھلتے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے ’’علم جنت کے راستوں کا نشان ہے ؟ ‘‘

علم کا طالب، ذاتِ نبیؐ کا طالب ہو گا، علی ولیؓ کا طالب ہو گا، حسنؓ اور حسینؓ کے نقوشِ پا کو معیارِ مطلق تسلیم کرے گا۔ یہی طالبِ علم ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ جب طالبِ علم، علم کی تلاش میں نکلتا ہے تو فرشتے اس کے راستے میں پَر بچھاتے ہیں۔ اس راستے کے علاوہ سب راستے کچھ بھی ہو سکتے ہیں، صراطِ مستقیم نہیں ہو سکتے۔ باب العلمؓ کا فرما ن ہے کہ جو شخص کسی چیز کا علم نہیں رکھتا، اُس کا دشمن ہو جاتا ہے۔ دشمنِ علم، دشمنِ دین ہوتا ہے۔ بد علم صاحبِ علم سے بغض او ر بغاوت کی حالت میں ہوتا ہے۔ بد علم … ہادی کے بجائے مضل سے رہنمائی لیتا ہے۔ بدعلمی ظاہر پرستی کا شاخسانہ ہے۔ علمِ حقیقی ظاہر سے باطن تک پہنچنے کا راستہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

علم نشانِ منزل ہے، اگر کوئی نشان نہیں دیکھ پاتا تو وہ بے علم ہے، لیکن اگر کوئی غلط نشان کی طرف چل نکلتا ہے تو وہ گم راہ ہے، ایسا گمراہ جو خود کو راہ پر سمجھ رہا ہے۔ جو شخص نشانِ منزل نہ ہونے کی وجہ سے ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے، اِمکان موجود ہے کہ وہ کبھی نشان دیکھ پائے گا اور سوئے منزل روانہ ہو جائے گا، لیکن جو شخص اُلٹ نشان کی طرف چل پڑا ہے، اس کا سفر میں ہر قدم اُسے منزل سے دور لے جائے گا۔ منزل کا نام اللہ ہے …ع
اوڑک کام اللہ دے نال

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply