جنازے کی چار پائی کے ایک پائے کو مضبوطی سے تھامے بیٹھا دیکھ کر میرا کلیجہ چھلنی ہوا جاتا تھا، میں اُس کی ساس فقط منگنی کی حد تک تھی،ابھی بیٹی کو اُس کے حوالے نہیں کیا تھا،منگیتر سے اتنی محبت کوئی کیسے کر سکتا ہے،لیکن کر سکتا ہے کیوں کہ میری بیٹی اس قدر خوبصورت اور مزاج پرور تھی کہ اُس سے کوئی بھی محبت کر سکتا تھا۔
جنازہ اُٹھانے کے لیے جب عزیز آگے بڑھے تو ہماری چیخوں سے آسمان پر لزرہ طاری ہو گیا ، جنازہ اُٹھانے والے بھی رو رہے تھے اور بیٹی کو ہمیشہ کے لیے جُدا کرنے والے بہن بھائی ،پاس پڑوس والے بھی ماتم کُناں تھے۔ میں تو ماں تھی ،میرا رونا چیخنا اور دہائیاں دینا تو بنتا تھا لیکن یہ لڑکا جس سے میری بیٹی کی فقط نسبت ٹھہری تھی بِلک بِلک کر رورہا تھا ،اس کی آواز بیٹھ گئی تھی، ہچکیاں لے لے کر روتا تھا اور آنسو تھے کہ دریا کی صورت بہے جاتے تھے۔
مجھ سے رہا نہ گیا ،میں اُٹھ کر شہزاد کے پاس گئی اور اُسے لگے لگا کر رونے لگی ۔وہ مجھ سے یوں لپٹ گیا جیسے شدید ڈر کے خوف سے بچہ ماں کے سینے سے چِپک جاتا ہے۔ میں نے کہا: شہزاد ،بس کر، جویریہ چلی گئی ہے اور اب وہ لوٹ کر نہیں آئے گی،اگر ہم سب مل کر برس ہا برس روتے رہیں اور رب تعالیٰ کو اپنا سب کچھ دے کر اُسے پل بھر کے لیے واپس لانے کی التجا کریں پھر بھی وہ نہیں آئے گی۔
موت کا ذائقہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے، موت سے کس کو رُستگاری ہے /آج وہ کل ہماری باری ہے۔ صبر کرو اور ہمیں سہارا دو کہ ہم تو بیٹی کے جائے ہیں ،تم اِس طرح پھوٹ پھوٹ کر روؤ گئے تو ہمارا بھی ہاؤ چھوٹ جائے گا اورخود پر ضبط باقی نہ رہے گا۔ شہزاد کو مسلسل روتا دیکھ کر میں کسی طرح ضبط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس کےبعد مجھے نہیں پتہ کہ کیا ؟وا۔ مجھے جب ہوش آیا تو پتہ چلا ،جویریہ کو رات کی تاریکی میں قبر کے شگاف میں اُتار دیا گیا ہے۔
میں کیا کر سکتی تھی، ایک عورت کو روتا دیکھ کر اس کا رونا معمولی سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ مت رو،صبر کر، اللہ کے بندو! جوان بیٹی اچانک ریت کی طرح ہاتھوں سے پِھسل جائے تو انسان چاہتا ہے کہ کسی طرح جان نکل جائے اور جانے والے کے ساتھ چلا جائے لیکن موت بے رحم اور سفاک ہے، یہ تنہا دیکھ کر وار کرتی ہے،یہ نہیں دیکھتی کہ جس پھول کو میں شاخ سے جُدا کر رہی ہوں ،وہ شاخ سبز رہ پائے گی یا نہیں،اسے تو بس اپنے شکار سے غرض ہے ،اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گھروں کے گھر اُجڑ جائیں،جب سے دُنیا آباد ہوئی ہے موت کا رقص جاری ہے۔
جویریہ کی منگنی کیے چھے ماہ ہو چکے تھے، ایک ہفتہ بعد اُس کی بارات آنے والی تھی، مارا مار جوڑے سِل رہے تھے اور ٹِک رہے تھے، جویریہ اپنی شادی کو لے کر بہت خوش تھی، اسے شہزاد اور اِس کے گھر والے بہت پسند تھے، چند دنوں میں جویریہ نے اپنے سُسرال والوں میں اتنا پیار بڑھا لیا تھاکہ سبھی اِس کے نرمل مزاج کے گُن گاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم جویریہ کو بہو بنا کر جب گھر لائیں گے تو ہمارا گھر باغ و بہار ہو جائے گا۔
کسی کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ساتھ یہ انہونی ہو جائے گی ۔ موت بھی کیسی انجانی موت تھی کہ کسی کو اس کے مرنے کی مطلق توقع نہ تھی۔ شام سے سلائی مشین پر بیٹھی اپنے دہیج کے جوڑے سِی رہی تھی، دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا،میں نے کہا :جویریہ، کچھ کھا لو، بھوکے پیٹ مشین چلانے سے تم بیما ر پڑ جاؤ گی۔ ہمارے گھر میں چند دن کی مہمان ہو، ہم نہیں چاہتے آپ کے سسرال والے ہمیں کہیں کہ ہماری بہو کو دُبلا پتلا کر ڈالا ہے ہم تو اسے موٹی بلی دیکھ کر پسند کیے تھے ،بلی بھی ریشم ایسے بالوں اور سرمئی آنکھوں والی جسے دیکھ کر بار بار دیکھنے اور پیار جتلانے کو جی چاہیے۔
جویریہ نے جواباً کہا: اماں،مسکا نہ لگاؤ ،مجھے کام کرنے دو،میں نے آج رات بچے ہوئے جوڑے سی ڈالنے ہیں تاکہ صبح اُٹھ کر بقیہ کام نمٹا لوں۔ جویریہ کی عادت تھی کہ جس کام کی دُھن سوار ہو جائے ،اُسے پورا کر کے چھوڑتی تھی ، وہ رات دیر تلک کپڑے سِلائی کرتی رہی، رات کو بھی اِس نے کچھ نہیں کھایا تھا، اگلی صبح خالی پیٹ پھر سلائی مشین پر بیٹھ گئی،میں نے ڈانٹا کہ تمہیں بھوک کیوں نہیں لگ رہی، جویریہ کہنے لگی:اماں ، پتہ نہیں آج کل مجھے بھوک نہیں لگتی، ماریہ نے چھیڑتے ہوئے کہا:اماں! پسند کی شادی ہوتو بھوک کہاں لگتی ہے ، سسرال والے التفات کی نگاہ سے دیکھتے ہوں تو بندہ بغیر کھائے اٹکھیلیاں کرتا ہے اور پُھدکتا پھرتا ہے۔
جویریہ نے شرارت بھری نگاہ سے ماریہ کو چُپ رہنے کا اشارہ کیا ،ہم تینوں باہم کِھل کھلا کر ہنس پڑیں، بے اختیار ہنستا دیکھ کر جویریہ کے ابا نے ہمیں ڈانٹا کہ صبح سویرے کس بات پر ہنسا جارہا ہے،مجھے ناشتہ کرنا ہے ،کام سے دیر ہورہی ہے۔ جویریہ اپنے کام میں مگن ہو گئی اور ہم بھی اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ دس بجے کے قریب چھوٹی بیٹی کے سسرال والے شہر جاتے ہوئے ہمارے گھر چلے آئے، منع کرنے کے باوجود ان کے لیے کوکاکولا بوتل منگوائی گئی، وہ بمشکل پانچ دس منٹ بیٹھے اور رخصت ہوگئے۔
جویریہ مسلسل سلائی کرتی رہی، دوپہر ہونے کو آئی تو میں ڈانٹ کر کہا :جویریہ کچھ کھا لو،تم نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا، بیٹی، بھوکے پیٹ کام کرنا اچھی بات نہیں ہے، بھوک نہیں لگتی پھر بھی کچھ تو کھاؤ تاکہ پیٹ کی آنتیں قل ہو واللہ پڑھ کر ہمیں نہ دُشنام دیں۔ جویریہ نے کہا :امی ،مجھے بوتل پینی ہے، بھیا سے کہہ کر منگوا دو،میں نے کہا : اچھا میں ابھی منگواتی ہوں، حمزہ باہر کہیں کام سے گیا ہوا تھا، میں نے کہا ،ابھی جومہمان آئے تھے،ان کے لیے جو بوتل منگوائی تھی، اُس میں ایک گلاس کے قریب بچ گئی ہے تم وہ پی لو، جویریہ اُٹھ کر کچن میں گئی اور بوتل ڈھونڈے لگی۔
کچن میں شادی کے انتظام کے سلسلے میں آنے والے مہمانوں کی وجہ سے کئی بوتلیں جمع ہو گئی تھیں جن میں برتن صاف کرنے سے لے کر صفائی کرنے والا زہریلا کاسٹر بھی پڑا ہوا تھا۔ صبح سے بجلی کبھی آتی اور کبھی جاتی رہی، سولر والا بلب خراب ہو گیا تھا جسے شادی کی تیاریوں میں ٹھیک کروانے کی نوبت نہ آئی تھی۔ جویریہ نے مجھے کچن سے آواز دی کہ بوتل نہیں مِل رہی،بھیا سے کہو کہ وہ مجھے دُکان سے منگوا دیں،میں نے کہا یہیں کہیں پڑی ہو گئی ، میں یہیں رکھ کر آئی تھی۔
میرا یہ کہنا تھا کہ بجلی چلی گئی، دومنٹ بعد بجلی پھر آگئی۔ جویریہ کچن سے واپس آکر سلائی مشین پر بیٹھ گئی اور کپڑے سینے لگی۔ میں نے کہا:جویریہ ،بوتل مل گئی،کہنے لگی،جی امی کچن میں بوتلوں کا ڈھیرپڑا ہوا ہے انھیں اُٹھوا دیں تا کہ جگہ خالی ہو ج،ائے پتہ نہیں آپ نے کیا کچھ کچن میں رکھ چھوڑا ہے،بندہ مطلب کی چیز ڈھونڈتا رہ جاتا ہے، ابھی اُس کا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ جویریہ کو قے آئی ، میرا کلیجہ دھک سے ہو گیا، میں نے کہا:جویریہ کیا ہوا تمہیں؟ بتاؤ مجھے کیا ہوا تمہیں؟ وہ کچھ بولنے کی کوشش میں تھی کہ ایک اور قے آئی اور یہ کہتے ہوئے بے ہوش ہو گئی کہ بوتل میں کچھ تھا ۔۔۔۔
میں سمجھ گئی کہ اس نے اندھیرے میں کہیں کوکاکولا کی بوتل سمجھ کر زہریلا کاسٹر کے گھونٹ پی لیے ہیں۔ہائے میں مر گئی،میں لُٹ گئی، میرے رونے کی آواز سُن کر حمزہ ،بشارت اور جویریہ دوڑ کر کمرے میں آئے،جویریہ کو بے ہوش پا کر گھبرا گئے،میں نےبشارت سے کہا: جلدی کرو،اسے ہسپتال پہنچاؤ،اس نے بوتل کی جگہ کچھ اور ہی پی لیا ہے، اسے کسی طرح ہسپتال پہنچاؤ ،میری بیٹی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے،اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے،یہ تو کسی کی امانت ہے ،ہائے اللہ ،ہمارے رونے دھونے کی آواز سُن کر گلے محلے والے جمع ہوگئے ۔
جویریہ کو آن کی آن میں شہر کے مرکزی ہسپتال دوڑا کر لے گئے، ڈاکٹرز نے جویریہ کے معدہ کو صاف کیا، دو گھنٹے بعد جویریہ کو جب ہوش آیا تو ہماری جان میں جان آئی۔ میں نے جویریہ کے سسرال والوں کو فون کروایا دیا تھا اور بیٹیوں کو بھی کر دیا تھا کہ فوراً پہنچو ،جویریہ نے بوتل کی جگہ اندھیرے میں زہریلا کاسٹر بھی لیا ہے اور اب ہسپتال میں ہے۔
سبھی آناً فاناً ہسپتال پہنچ گئے، جویریہ کے ہوش میں آنے سے ہمارے چہرے کِھل اُٹھے، جویریہ نے کہا : امی میں ٹھیک ہوں،مجھے کچھ نہیں ہوا، آپ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں،چلو گھر چلتے ہیں،میں ٹھیک ہوں ، جویریہ باتیں کرنے لگی اور ہم ہنسنے مسکرانے لگے ، جویریہ نے مجھ سے کہا :اماں!میری ٹانگوں میں چیونٹیاں دوڑ رہی ہیں ،مجھ سے اپنی ٹانگیں سمیٹی نہیں جارہیں،انھیں ذرا دبا دو، کچھ دیر بعد کہنے لگی : مجھے پانی پلاؤ، ڈاکٹر نے کہا تھا ،اسے آئس کریم کھلانی ہے،ابھی پانی نہیں دینا، حمزہ دوڑ کر آئس کریم لے آیا اور میں نے پیار سے چمچ چمچ آئس کریم کِھلا دی اور کہا کہ اب تم نے وقت پر کھانا کھانا ہے، بھوکا رہنے کی وجہ سے یہ زہر لڑنے سے تمہاری یہ حالت ہوئی کہ ہماری تو جان ہی نکل گئی تھی کہ بیٹی کو اگلے ہفتے رُخصت کرنا ہے اور یہ کیا ہوگیا ۔
جویریہ نے کہا: امی مجھے قے آرہی ہے، یہ کہنا تھا کہ اُسے ایک قے آئی اور اُس کی آنکھیں گھومنے لگی او رسر نیچے لٹک گیا اور بازو چارپائی پر لٹک گئے، جویریہ جویریہ کہتے وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگئی۔ کہرام مچ گیا اور ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ قیامت ہم پر ٹوٹ پڑی ہے کہ پورا عالم اس المناک سانحہ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ ہم کیا کر سکتے تھے،روتے پیٹتے ،چیختے چلاتے ہسپتال والوں کو ایک لاکھ تیس ہزار کا بِل دے کر اربوں کھربوں سے نہ لی جانے والی بیٹی کو گنوا کر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ میرے اکلوتے بھائی نے یہ المناک خبر سُنی تو سبھی رشتہ دار کو فرداً فرداً فون کر کے بتا دیا کہ جویریہ نے زہریلی دوائی پی لی ہے اور وہ ہستپال میں ہے جو آنا چاہتا ہے فوراً آجائے۔
شام کے چھے بجے جویریہ کا جسدِ خاکی لے کر ہم گھر پہنچے۔ مجھے تو کچھ ہوش نہ تھا کہ کیا ہوا رہا ہے، کبھی بے ہوشی ہوتی کبھی ہوش میں آتی،روتی کُرلاتی اور دہائیاں دیتی۔ بشارت نے میرے بھائی کی مشاورت سے رات آٹھ بجے جناز ہ کا وقت طے کرلیا، سبھی رشتے دار گھروں سے جنازے میں شرکت کے لیے نکل چکے تھے، کسی کو منہ دیکھنا نصیب ہوا اور کوئی محرو م ہی رہا۔
جنازہ کی تدفین سےلے کر رسمِ قُل تک مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا کہ جویریہ کو کیا ہوا ہے۔ میں اپنے دُکھ میں غرق تھی، رسمِ قُل کے بعد جب ہوش طبیعت سنبھلی تو میں نے بشارت سے پوچھا کہ جویریہ کی وفات کی وجہ رشتے داروں کو کیا بتائی گئی ہے۔ وہ خاموش رہا اور میرے سوال کا جواب نہ دیا، کہنے لگا ،اللہ کی جو رضا ہے خواہی نہ خواہی اُسے ماننا ہے، ہم کیا کر سکتے ہیں ، ہماری بیٹی چلی گئی ،اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔
میں نے اصرار کیا کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں شادی کے عین موقع پر جوان بیٹی کی اچانک وفات سے کئی جھوٹی خبریں اور افواہیں اُڑتی ہیں،کہیں میری بیٹی ان افواہوں کی نذر تو نہیں ہوگئی۔ بشارت کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگا کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب ہم کس کس کو صفائیاں دیں کہ ہماری بیٹی نے غلطی سے بوتل کی جگہ زہریلی دوائی پی لی تھی اور معدہ صاف کرنے کے بعد شدید کمزوری کی وجہ سے اُسے ہارٹ اٹیک آیا اور وہ چل بسی جسے ڈاکٹروں نے بھی تصدیق کیا ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے، سبھی کو یہی کہتے سُنا کہ دو نوں بہنیں آپس میں لڑ پڑیں اور جویریہ نے زہر یلی دوائی پی کر خودکشی کر لی ۔
یہ سُن کر میں نے سر پیٹ لیا کہ بشارت، یہ کیا ہوگیا،ہم مر کیوں نہیں گئے، یہ افواہ کس نے پھیلائی ہے حالاں کہ تم جانتے ہو کہ ہماری بیٹی میں کوئی عیب نہیں تھا ،اُس کی تو پسند سے یہ رشتہ طے ہوا تھا، اُس کے سسرال والے بھی خوش تھے اور وہ لڑکا بھی جویریہ کو بہت چاہنے لگا تھا، بہانے بہانے سے گھر آتا تھا اور جویریہ سے ہنسی مذاق کی باتیں کرتا تھا۔ تم نے شہزاد کو دیکھا تھا کیسے جویریہ کے جنارے کی چارپائی کے پائے کو پکڑ کر دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔ تین دن ہوگئے ،وہ لڑکا جویریہ کی قبر پر بیٹھا ہوا ہے ،جویریہ کے غم نے اُسے توڑ کر رکھ دیا ہے ۔
مجھے یہ بتاؤ کہ رشتہ داروں کو یہ جھوٹی اور من گھڑت بات آخر کس نے بتائی ہے؟ بشار ت نے کہا،تمہارے بھائی اور بھابھی نے سبھی رشتہ داروں اور شریک برادری کو یہ بتلا یا ہے کہ جویریہ نے زہریلی دوائی پی لی ہے ۔ میں اپنا سر پیٹنے لگی اور بشارت بھی رونے لگا، میرے بھائی نے مجھ سے کس جنم کا بدلہ لیا ہے؟میری بیٹی پر جھوٹی تہمت لگا کر اُس پاک دامن فرشتہ سیرت معصوم جگر کے ٹکرے کی قبر کو کالا کر ڈالا ہے۔ یہ تہمت اب قیامت تک نہیں دُھلے گی خواہ ہم دُنیا والوں کو قرآن اُٹھا اُٹھا کر قسمیں دے کر یقین دلائیں کہ ہماری بیٹی نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا کہ اُسے یوں اپنی جان لینا پڑی۔
یہ تو اتفاقاً ایک انہونی ہو گئی ہے جس کی مطلق کسی کو اُمید او رتوقع نہ تھی۔ بشارت نے کہا،صبر کرو،اب کچھ نہیں ہو سکتا، یہ اللہ کی رضا ہے ،جانے والی چلی گئی اور ہم بے قصور موردِ الزام ٹھہر گئے۔ زمانہ بڑا سفاک ہے ، لوگ نہیں مانے گے کہ اصل موت کی وجہ کیا ہے ۔ میں اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر رہی مر رہی ہوں ، بیٹی کی موت پر غمزدہ ہوں ،بیٹی کی موت کا صدمہ تو رفتہ رفتہ بھول جائے گا لیکن خونی رشتوں کے لگائے ہوئے زہریلے نشتروں کی ٹیس کبھی نہ جائے گی۔ خون کیسے سفید ہو جاتے ہیں۔ بہن بھائی اس قدر سفاک اور درندہ صفت کیوں بن جاتے ہیں کی اپنی جائی سے بڑھ کر عزیز بھانجی کو رُسوا کرنے میں آخری حد کو عبور کر لیا۔ یہ کیسا بھائی ہے ، یہ کیسا سماج ہے ، یہ کیسا بے حسِ معاشرہ ہے جہاں تحقیق کیے بغیر کسی کی اُچھالی ہوئی بات پر یقین کر لیا جاتا ہے۔
میں اپنی بیٹی سے قیامت تک شرمندہ رہو ں گی اور کبھی خود کو معاف نہیں کر سکوں گی کہ میری غفلت کی وجہ سے یہ تہمت اُس کے سر گئی ۔ کسی کی بیٹی چلی جاتی ہے اور کسی کو بدلہ لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ رشتوں کی پوتر پوشاک میں لپٹے رشتوں کے قاتل ایک دن رب کے حضور پیش کیے جائیں گے، رب تعالیٰ جانتا ہے اور بے شک وہ تہمت لگانے والوں کو درد ناک عذاب دینے کا وعدہ کیے ہوئے ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں