بے پناہ شادمانی کی مملکت/انعام کبیر

اروندھتی رائے کو پہلے ناول The God of small things ہی پر بکر پرائز مل گیا جس وجہ سے ان کی شہرت چار دانگ پھیل گئی۔ لیکن اس ناول کی اشاعت کے بعد طویل عرصے تک اروندھتی نے افسانوی حوالے سے کچھ نہیں لکھا۔ ان کی توجہ کا مرکز نہ صرف غیر افسانوی بلکہ غیر ادبی موضوعات بنے رہے۔ انہوں نے انڈیا کے ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوں کے بارے میں ایک مشہور مضمون The End of Imagination لکھا۔ انہوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پہ لکھا اور بولا، جس کی پاداش میں انہیں قید کرنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔ انہوں نے نربدا ندی پہ بننے والے ڈیم کی وجہ سے بے دخل کیے گئے آدی واسیوں کے بارے میں بے باکی سے حکومت کے خلاف لکھا۔ انہوں نے مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے بارے میں لکھا۔ گجرات کے فسادات پہ قلم فرسائی کی۔ انہوں نے افغانستان میں جاری امریکی بربریت پہ تفصیلی مضمون لکھے۔ یعنی ہر وہ واقعہ جس میں انسانیت کی تذلیل کی گئی اروندھتی رائے اس پہ خاموش نہیں رہیں اور ثابت کیا کہ ادیب کی ذمہ داری گرد و پیش کو نظر انداز کر کے محض ادب تخلیق کرنا نہیں بلکہ ان سب باتوں کے خلاف احتجاج کرنا اور عَلَمِ بغاوت بلند کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔

پہلے ناول کے تقریباً بیس سال بعد اروندھتی رائے نے The ministry of utmost Happiness لکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بیس سال کے عرصے میں اروندھتی نے جتنے مضامین لکھے اور جتنے موضوعات پہ کتابیں تحریر کیں وہ تمام چیزیں اروندھتی کے آنے والے ناول کے لیے راہ ہموار کر رہی تھیں۔ یا یوں کہیے کہ یہ تمام سیاسی، تاریخی، جغرافیائی اور انسانی مسائل اروندھتی رائے کے آنے والے ناول کا موضوع بننے والے تھے۔ محولہ بالا موضوعات جن پہ اروندھتی نے الگ الگ تفصیلی مضامین لکھے ان میں سے بہت سے موضوعات ناول میں حسبِ ضرورت جزوی و کلی طور پر در آئے ہیں۔

اس ناول میں اروندھتی نے پاک و ہند میں پچھلی تین چار دہائیوں میں ہونے والے تمام بڑے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ اس میں بھوپال میں 1984 میں یونین کاربائیڈ گیس کی لیکج سے متاثر ہونے والوں کا ذکر ہے۔ ہندوستان کے قدیم باشندے آدی واسیوں کی بے گھری کا معاملہ، بابری مسجد کا انہدام، ولی دکنی کے مزار کا انہدام، 9:11 کا واقعہ اور افغان مسائل، فساداتِ گجرات، بنگلہ دیش اور پاک آرمی کی چپکلش، سب سے بڑھ کر کشمیر میں جاری ظلم و بربریت اس ناول کے اہم موضوعات ہیں۔

ناول کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک خاتون تلوتما ہے اور دوسرا خواجہ سرا انجم۔۔ خواجہ سرا انجم کی پیدائش ہوئی تو اس کی ماں نے سب کو بتایا کہ اس کے ہاں بیٹا ہوا ہے چنانچہ اس کا نام آفتاب رکھا گیا۔ مگر جوں جوں آفتاب بڑا ہوا اسے اس کے ہم جنس اپنی طرف کھینچنے لگے اور وہ گھر چھوڑ کر “خواب گاہ” میں چلا گیا اور اپنا نام انجم رکھ لیا۔ خواب گاہ میں انجم کا کردار کہانی کار نے خوب نکھار کر بیان کیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ ناول کا بہترین حصّہ ہے۔

ایک دلخراش واقعے کی وجہ سے انجم خواب گاہ چھوڑ کر قبرستان میں منتقل ہو جاتی ہے اور وہیں ایک معمولی سا گھر بنا لیتی ہے جسے “جنت گیسٹ ہاؤس” کا نام دیتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ گیسٹ ہاؤس ہیجڑوں کا مرکز بن گیا۔ اسی عرصے میں ناول نگار نے بڑی چابک دستی سے بہت سے سیاسی معاملات پر کرداروں کے ذریعے بہترین تبصرے کیے ہیں۔ انجم کے کردار کے ذریعے اروندھتی نے جنس اور شناخت سے جڑی پیچیدگیوں اور معاشرے کی طرف سے مختلف انداز کے ردِ عمل کو موضوع بنایا ہے۔

یہاں ناول کی دوسری مرکزی کردار ایس تلوتما کا ظہور ہوتا ہے اور کہانی کا رخ رفتہ رفتہ وادئ کشمیر میں جاری بربریت کی طرف مڑ جاتا ہے۔ تلوتما کا کردار مسلسل جد و جہد کا آئینہ دار ہے۔ وہ کشمیریوں پہ ہونے والے ظلم اور نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ ناول کے اس حصے میں جہادی تنظیموں اور ملٹری فورسز کے ہاتھوں مقامی کشمیریوں کے استحصال کی ایک طویل داستان ہے۔ جس میں کئی قسم کی جزئیات ہیں۔

ناول میں ایک طرف دہلی میں انجم کا “جنت گیسٹ ہاؤس” ہے جس کے ارد گرد قبریں ہی قبریں ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کی جنت ہے جو مسلسل قبرستان میں بدلتی جا رہی ہے۔ اور ان دونوں جگہوں پہ بہت سے کردار اپنی شناخت اور بقا کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔

julia rana solicitors

ارجمند آرا ء صاحبہ نے اپنے دیگر تراجم کی طرح اس ترجمے میں بھی خوب جان ڈالی ہے۔ نہایت عمدہ اور شستہ اسلوب ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply