اسرائیل کے لیے ‘نارملائیزیشن ‘کا خواب پورا ہونے کے قریب ہو رہا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے اور پورا مشرق وسطیٰ ہی ‘نارملائزڈ’ زندگی اور ماحول سے دوری کے راستے کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے پہلے بھی سب اچھا نہیں تھا۔ اسی لیے 7 اکتوبر تک نوبت آئی۔ مگر 7 اکتوبر کے بعد جو پرت کھل رہے ہیں وہ بھی ابھی بہتری اور ‘نارملائزیشن’ کی چغلی نہیں کھاتے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے غالباً اسی ماہ کے شروع میں اپنے عوام اور یہودی ووٹروں کو خوشخبری سنائی تھی کہ 20 جنوری سے پہلے تک ایک اہم عرب ملک اسرائیل کے ساتھ ‘ نارملائزیشن ‘ کر لے گا۔ ان کے الفاظ کے مفہوم سے واضح تھا کہ بڑا امریکی و اسرائیلی سنگ میل صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں ہوتے ہوئے طے ہو جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور ان کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی اس ضرورت کے تحت کہ ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ان کی سیاسی و انتخابی مفاد کے لیے اہم ہے۔
تاہم بعد ازاں سعودی عرب کی طرف سے کم از کم دوبار اعلیٰ سطح سے اس بارے میں مملکت کا مؤقف پیش کیا گیا ہے جو اہم ہے ۔ بلا شبہ سعودی عرب سرد و گرم چشیدہ ہے۔ اس لیے اسے اپنی بات کہنے اور دوسرے کی سمجھنے میں کوئی دقت کیونکر ہو سکتی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے 9ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر کہا ‘سعودی عرب ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھے گا جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو اور ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس وقت تک مملکت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گی۔’
دوسرا بیان اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رواں برس اجلاس کے دوران سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے دیا ہے۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے ‘ہم ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے پابند ہیں۔’ دونوں بیان غیر معمولی ہیں۔
اب سات اکتوبر کی طرف دوبارہ دیکھیے۔ اس کو فلسطینی مزاحمت کار جس طرح بیان کرتے ہیں، وہ ایک اجتماعی فدائی مشن کی ہی کوئی شکل بنتی ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید امریکہ کا پانچ نومبر کو ہونے والا صدارتی انتخاب فلسطین کے دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے کے بجائے دفن کرنے کا سبب بن جاتا۔ جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہر صدارتی انتخاب سے پہلے امریکی صدر کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ امریکی عوام کو اندرونی طور پر اگر کوئی بڑا ریلیف اور بینیفٹ نہیں دے سکا تو کم از کم بیرون ملک اور خصوصاً مشرق وسطیٰ یا مسلم دنیا میں کوئی ایسی’ بڑی کامیابی ‘ضرور حاصل کر دکھائے جو ووٹروں کو متاثر کرنے کے علاوہ امریکی یہودی لابی کے اطمینان ، خوشی اور اعتماد کا باعث بن سکے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کوئی نئی جنگ شروع کرادے یا کوئی پرانی جنگ ختم کرنے میں کامیابی ثابت کرے۔ لیکن ایسی جنگ کے شروع کرانے کے معاملے میں بھی امریکہ کی مؤثر ترین یہودی لابی کی آشاؤں کو پورا کرنا لازمی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں 31 مئی کو جوبائیڈن جنگ بندی فارمولے کے تھیلے سے جو بلی باہر آئی ہے وہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اب نظر آتا ہے کہ یہ جنگ بندی کا ایک ایسا راستہ تھا جس کی منزل جنگ بندی نہیں بلکہ جنگ کو اسرائیل کے حوالے سے حتمی کامیابی و نتیجے کی طرف تیزی سے بڑھانا تھا۔ 31 مئی کے بعد کئی واقعات فلسطین، غزہ اور حماس کے حوالے سے اسی خواہش کی چغلی کھاتے نظر آتے ہیں۔ غالباََ اس نئی جنگی تیزی کی شروعات نصیرات آپریشن سے ہی ہوگئی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا نصیرات آپریشن کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھا تھا کہ یہ اکیلے اسرائیل کے لیے ممکن نہ ہو سکتا تھا۔ بلکہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں اسرائیل کو اپنے سب سے بڑے سرپرست اور اتحادی کی عملی مدد شامل تھی۔
اس جنگی تیزی میں ایک بڑا سنگ میل حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور سب سے اہم حماس رہنما اسماعیل ھنیہ کی تہران میں ہلاکت کو بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حماس پر بڑا حملہ نہیں تھا بلکہ تہران کے لیے بھی دھمکی آمیز واضح پیغام تھا۔
اسی روز بیروت میں حزب اللہ کے اہم کمانڈر فواد شکر کی اسرائیلی حملے میں ہلاکت ہوئی۔ بیروت میں اسرائیلی کارروائیوں کا آغاز کچھ ماہ پہلے ہو گیا تھا۔ جب حماس کے ایک رہنما صالح العاروری کو اسی بیروت میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
اب انتہا یہ ہے کہ بیروت کے اندر حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو اسرائیلی فوج نے بدترین بمباری کے بعد کامیابی سے نشانہ بنا لیا ہے۔ یہ انتہائی اہم ہدف حزب اللہ کے خلاف ہی اسرائیل کی بڑی کامیابی نہیں بلکہ ایران اور اس کے حمایت یافتہ سبھی گروپوں کے لیے غیر معمولی پیغام ہے۔
حسن نصراللہ کے اس قتل سے پہلے اسرائیل نے جس طرح ‘پیجر حملے’ ، ‘واکی ٹاکی حملے’ اور بمباری کی خوفناک مہم لبنان کے اندر تک کر کے دکھا دی تھی وہ اسرائیل کے عزائم کو سمجھنے کے لیے کافی تھا کہ اسرائیل کہاں تک جانا چاہتا ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ لبنانی حزب اللہ کے خلاف اتنی بڑی کامیابی کے لیے جاری کوششوں میں اسی روز امریکہ اور فرانس وغیرہ نے جنگ بندی کی تجویز دی۔ مزید یہ کہ اس کے فوری بعد بیروت پر حسن نصراللہ کے ہیڈکوارٹر تک تباہ کن بمباری کی واردات مکمل ہوگئی۔ یہاں تک کہ امریکی پینٹاگون کی ڈپٹی پریس سیکرٹری سبرینا سنگھ نے ایک بریفنگ میں لبنان پر شدید اسرائیلی بمباری کے عین موقع پر امریکہ و اسرائیلی وزرائے دفاع لائیڈ آسٹن اور یوو گیلنٹ کی باہم ٹیلیفونک گفتگو کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی بداعتمادی یا رابطے کا فقدان ہے۔ البتہ اسی موقع پر یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ اسرائیل جو کچھ لبنان میں کر رہا ہے اس میں امریکہ کے ملوث ہونے کے واضح تاثر کو زائل کیا جا سکے۔
یہ سب ہونا چاہیے تھا یا نہیں اس سوال سے ہٹ کر حقیقت یہ ہے کہ یہ ہوگیا ہے۔ اب سات اکتوبر 2024 محض چند دن کے فاصلے پر ہے جب غزہ میں اسرائیلی جنگ ایک پورا سال مکمل کر لے گی۔
اس موقع پر جس سوال کی تلاش کے لیے عالمی برادری سے زیادہ عرب دنیا ، مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کو سوچنا ہے وہ یہ کہ ممکنہ ابراہم معاہدے کی زنبیل سے جو کچھ نکلنے جا رہا ہے، اس کا وقت سے ہہلے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے کہ جس اسرائیل کا وزیراعظم یہ کہتا ہے کہ ‘اسرائیل کے ہاتھ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔’ اس کی ہر جگہ موجودگی کی صورت میں اس کی ہر جگہ رسائی کا عالم کیا ہوگا۔
خصوصاً جب اسے امریکی و مغربی ملکوں کا ‘الف سے ے’ تک تعاون ، حمایت اور مدد سب کچھ دستیاب ہو گا۔ کہ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس کی نظریاتی ، جغرافیائی اور معاشی حدود اس کے ہاں لامحدود ہیں اور جس کی اخلاقی حقوق و قیود اس کے عمل سے بے معنی تعلق رکھتی نظر آتی ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کے لیے بین الاقوامی قانون اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ جو بین الاقوامی معاہدات کی پابندی اور کنونشنز کی پرواہ نہ کرنے کی ایک لمبی روایت و تاریخ رکھتا ہے۔ جس کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ، اس کی قراردادوں سمیت بے وقعت اور حقیر ہے اور جس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کم از کم تین ویٹو پاورز رکھنے والے ملک غیرمعمولی قربت، یگانگت اور حمایت و سہارے کا ذریعہ ہیں۔
تینوں ملکوں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی ویٹو کی طاقت عملاً اسرائیل کی جیب میں رہتی ہے اور وہ ہر اس موقع پر اسرائیل کے ریسکیو کے لیے آموجود ہوتے ہیں جہاں انہیں اسرائیل کی پوزیشن کمزور نظر آتی ہے۔ ایک ایسا اسرائیل جو بین الاقوامی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف کی بھی پروا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مضبوط یہودی لابی اور میڈیا پر اس کا کنٹرول اسے مضبوط تر کرتا ہے۔ ایسے اسرائیل کے ساتھ کوئی عام ملک کس طرح ‘نارملائزڈ’ تعلقات کو برابری کی بنیاد ہر انجوائے کر سکتا ہے۔
اس لیے چیزوں کو جہاں سات اکتوبر 2023 سے پہلے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سب اچھا نہیں تھا جو بالآخر سات اکتوبر کے بڑے واقعے کا باعث بن گیا۔ وہیں سات اکتوبر 2024 کے بعد کے منظر نامے کو اس طرح دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان موجود بعض ‘بفر زون’ کی شکل میں مزاحمتی دھڑے فی الحال بظاہر کمزور ہو گئے ہیں۔ مین سٹریم عرب مملکتوں سے پہلے اسرائیل کے اردگرد موجود عرب ممالک کی حیثیت بھی اگرچہ ایک ‘بفر زون’ کی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہوا ہے کہ 1967 سے لے کر اب تک اس ‘بفر زونک’ عرب ریاستی جغرافیے کی حیثیت سیاسی، معاشی و فوجی ہر اعتبار سے کمزور ہوئی ہے۔ ان میں یمن، شام، لبنان، عراق سبھی شامل ہیں۔ جبکہ اردن کو اس موقع پر زیر بحث لانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کے پلڑے میں ساری کی ساری طاقت کا جھکاؤ چلا گیا ہے۔ اسرائیل کے لیے مزاحمتی قوت زیادہ منظم حالت میں نہیں تو غیر منظم حالت میں بہرحال موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گی۔ یہ غیر منظم مزاحمت بعض گوشوں اور پہلوؤں سے زیادہ خطرناک اور زیادہ پھیلی ہوئی بھی ہو سکتی ہے۔
اس کا زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ صرف اسرائیل کے لیے براہ راست ردعمل کا ذریعہ مختلف واقعات کی صورت میں نہیں بنتی رہے گی بلکہ اسرائیل کے پختہ و نیم پختہ حامیوں اور خاموش مددگاروں کے لیے بھی مستقلاً ایک خطرے کا تازیانہ ہوگی۔
اس سے پہلے کہ پانچ نومبر کے بعد تک اسرائیل کو پورا موقع دیے رکھنے کی حکمت عملی بروئے کار رہے، مشرق وسطیٰ کے ملکوں اور خاص طور پر بڑی مملکتوں کو اپنے لیے ابھرتے چیلنجوں کی روشنی میں ان تمام dots کو ملانے کی کوشش کرنی چاہیے جو معاشی، سیاسی، فوجی، جغرافیائی اور آبادی کے علاوہ تزویراتی اعتبار سے عرب و عجم میں مسلم دنیا کو میسر ہیں اور ان dots کے آپس میں ملنے سے ایک مضبوط شناخت پر مبنی دفاعی طاقت تشکیل پا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب، ایران، ترکیہ، پاکستان اور دیگر کئی ممالک بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں اندرون سے بھی چیلنج بڑھ سکتے ہیں اور بیرون سے بھی۔
یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ ایک مکمل ‘نارملائزڈ’ اور مطمئن اسرائیل اپنے آس پاس کو نارمل اور پرسکون رہنے دے۔ لہذا لازم ہے کہ مشرق وسطیٰ کی ہر سرکردہ مملکت اور ہر اہم شناخت دفاعی حکمت عملی کے طور پر ہی سہی اپنے آس پاس کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے اور یہ سمجھ لے کہ کچھ عرصے کے لیے اسرائیل اور ان کے درمیان مزاحمتی ‘بفر زون’ کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ یہ ‘بفر زون’ نما فصیل کافی کچھ اپنے اوپر سہتی رہی ہے۔ فی الحال یہ سہولت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو شاید میسر نہ رہے۔ تاہم یہ عدم دستیابی مستقل نہیں ہو سکتی۔
بشکریہ ا لعربیہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں