اشاعرہ کون تھے؟- زبیر حفیظ

اشاعرہ مسلمانوں کے کیتھولک تھے، مگر یہ اسلامی کیتھولک “پروٹسٹنٹ معتزلہ”کے ردِعمل میں وجود میں آئے۔ اشاعرہ ایک فکری ردِعمل تھا جو بعدازاں ایک بہت بڑے مکتبہ فکر کی شکل اختیار کر گیا۔

یونانی فلسفے کے ترجمے نے مسلم دماغوں میں کھلبلی مچا دی تھی۔ بیت الحکمہ سے افلاطون اور ارسطو نکل کر مسلم دماغوں کو جھنجھوڑنے لگے۔ عربی مزاج عملی تھا اس میں فلسفیانہ گہرائی نہیں تھی، تراجم کی اس فلسفیانہ یلغار نے فکری موشگافیوں سے نابلد مسلم دماغوں میں بے چینی پیدا کر دی تھی۔ یونانی فلسفے نے مسلمانوں میں بہرحال مفکرین کا ایسا گروہ تو پیدا کر دیا جو منطق اور عقیدے دونوں کشتیوں کا سوار تھا، اسے سقراط اور افلاطون بھی متاثر کرتے اور عقائد بھی اس کے دماغ کو خیرہ کرتے۔ وہ مذہب کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور نہ ہی فلسفے کو۔

عقیدے اور فلسفے کے درمیان پُل کا کام کیا علم الکلام نے۔ جو مذہب کا دفاع منطق کے میدان میں کرتا۔ متکلمین کو منطق کا ایسا چسکا پڑا کہ وہ منطق و عقل کو ہی دین سمجھ بیٹھے اور ماخذات دین سے تھوڑا بدکنے لگے۔ مذہب اور فلسفے کے اسی فرینڈلی فائر کا نتیجہ معتزلہ کی شکل میں نکلا۔

معتزلہ ریشنل اپروچ کے داعی تھے، وہ عقل سے ہی مذہبی گتھیاں سلجھاتے، منطق ان کا قرآن تھی اور علم الکلام ان کی سنت۔ فلسفہ بذات خود عجمی مزاج سے مطابقت رکھتا تھا اور چونکہ عباسیوں کے ہاں امویوں کے برعکس عربیت نہیں عجمیت پائی جاتی تھی۔ اس لئے عباسیوں کے دور میں معتزلہ کو ریاستی سرپرستی خوب ملی۔ ممتاز سکالر فضل الرحمن اپنی کتاب my beliefs on action میں ایک دلچسپ بات لکھتے ہیں ۔

“معتزلہ بعض اوقات استدلال کو وحی پر بھی فوقیت دے دیتے تھے”۔

مگر معتزلہ کے منطقی اسلام کے خلاف بھی ایک آٹو پائلٹ تحریک چل رہی تھی، یہ لوگ مذہب کو منطق سے زیادہ عقیدے کا مسئلہ سمجھتے، اور عقائد کو بس مانا جاتا ہے، یہ لوگ قرآن اور پھر حدیث کو ماخذات دین سمجھتے، عقل کے بجائے وحی کو ترجیح دیتے، اس کی ابتداء محدّثین نے کی جو حدیث کی کتابیں لکھ کر وحی خفی کا مواد تیار کر رہے تھے۔ اب دو انتہائیں وجود میں آگئیں ایک عقلیت پسندی کی انتہا تھی، جس کی لگامیں معتزلہ کے ہاتھ میں تھیں اور دوسری راسخ العقیدگی کی، جس کی نکیل تھامنے کے لیے اس سمے کوئی منظم مکتبہ فکر نہیں اٹھا تھا۔ مگر پھر اس خلا کو پورا کیا ایک سابق معتزلی نے۔

ابوالحسن اشعری نے معتزلہ کی گھاٹ کا پانی پیا تھا، اس کے دو استاد بھی معتزلہ سے تھے، وہ ان کے ہتھیاروں سے خوب واقف تھا اس لئے ابوالحسن اشعری معتزلہ کو ان کے ہی رنگ میں ٹکرے۔ امام اشعری نے کتابی اور منطقی اسلام کے بیچ کا درمیانی راستہ بڑی ہی صفائی سے نکالا، اس کی تعبیر دین میں راسخُ العقیدگی بھی تھی اور عقلیت کا ہلکا سا تڑکہ بھی، اسی لیے ابن تیمہ نے اشعریہ پر طنز کرنے ہوئے لکھتے ہیں۔ “یونانی مسلئے کا یونانی حل”۔

مگر اشاعرہ میں پھر بھی راسخُ العقیدگی کا عنصر زیادہ تھا، وہ قرآن و حدیث پر زیادہ زور دیتے، وحی کو عقل و منطق پر فوقیت دیتے، جبرو قدر میں جبر کے قائل تھے، ان کے نزدیک معتزلہ کے برعکس انسان اپنے اعمال میں آزاد نہیں بلکہ تقدیر کا پابند ہے، جو کچھ بھی انسان کرتا ہے چاہے اچھا ہو یا بُرا، وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اسی دور میں ایک اور مکتبہ فکر ماتریدیہ بھی پر پُرزے نکال رہا تھا، ماتریدی بنیادی طور پر ہومیو پیتھک اشعری تھے، ان پر کتابی سے زیادہ منطقی رنگ تھا ،اس لیے یہ حدیث سے زیادہ فقہ کو ترجیح دیتے، عام طور ماتریدیہ اور اشعریہ کو ایک سکے کے دو رُخ سمجھا جاتا ہے، مگر ان میں کافی اختلاف بھی تھے، جیسے جبر و قدر کے مسئلے کو لیجیے، ماتریدیہ کے نزدیک جو کچھ انسان اچھا یا بُرا کرتا ہے وہ خدا کی اجازت سے کرتا ہے نہ کہ رضامندی سے، جبکہ اشعری کہتے تھے کہ انسان کی اچھائی اور برائی سب خدا کی رضامندی اور اجازت سے ہی ہیں۔

ایک اور اختلاف خدا کی صفات کا تھا۔ ماتریدی کہتے کہ جو کچھ خدا تخلیق کرتا ہے وہ زمان و مکان میں تخلیق کرتا ہے جبکہ اشاعرہ کا کہنا تھا کہ نہیں خدا اس بات پر قادر ہے وہ زمان و مکان سے ماورا ہو کر تخلیق کر سکے۔

جب قرآن کے مخلوق ہونے کی بحث شروع ہوئی تھی تو معتزلہ نے کہا تھا قرآن مخلوق ہے، جب کہ اشعریہ کا کہنا تھا نہیں کلام مجید صفت الٰہی ہے اور صفت کو خالق سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اشعاعرہ کا بنیادی اختلاف معتزلہ اس معاملے میں ذات اور صفات کی قبیل کا تھا۔

مگر مجموعی طور پر اشاعرہ کا اختلاف دین کے ماخذات میں منطق کی ملاوٹ کرنے کا تھا۔ معتزلہ نے روشن خیالی کی ایک فضا تیار کر دی تھی، یونانی اور دیگر عجمی فلسفوں کے آنے سے معاشرے میں ایک تنوع پیدا ہوگیا تھا، یہ ہی وہ تنوع تھا جس نے لوگوں کو عقائد کی اونچی فصیلوں سے بلند ہو کر سوچنا سکھایا جس سے معاشرے میں سائنسی سوچ کی ابتدا ہوئی، ابن سینا جیسے سائنسدان پیدا ہونے لگے۔ معتزلہ کے ہاتھ جب ریاستی طاقت آئی تو وہ بھی منطقی آمریت پر تُل گئے، جس نے اختلاف کیا اس کا حشر امام احمد بن حنبل کی طرح ہوا مگر جب عباسیوں کو لگا کہ قدر کا نظریہ یعنی کہ انسان اپنے حالات کا ذمہ دار  خود ہے یہ سوچ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتی ہے تو انھوں نے اشعریہ کو سپانسر کرنا شروع کیا۔

خلیفہ المتوکل کی صورت میں اشعریہ کو گاڈ فادر ملا۔ اشعریہ میں فکری ورائٹی معتزلہ اور ماتریدیہ سے زیادہ تھی، امام اشعری نے اعتزال اور راسخ العقیدگی دونوں کا گھونٹ پیا تھا اس لیے ان میں توازن زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ استدلال اور دینی متن دونوں کو برابر لے کر چلتے اپنی کتاب الفصول فی الاصول میں لکھتے ہیں۔

“منطق کو کتابی متن کی پیروی کرنی چاہیے”۔

امام اشعری کو ان کے جانشین بہت ہی تگڑے ملے، امام الجونیی، امام البقیلانی، امام غزالی، فخرالدین رازی جیسے بڑے ناموں کی ایک فہرست ہے جنہوں نے اشعریہ کو سنی اسلام کا سب سے بڑا مکتبہ فکر بنا دیا، ان میں سے ہر ایک امام کا اپنا رنگ تھا، الجوینی اور رازی جہاں اشعریت کا دفاع منطق و فلسفے سے کرتے وہاں امام البقیلانی اشعریہ کو کتابی متن کی بیساکھیاں فراہم کرتے اور وہیں امام غزالی تصوف اور فلسفے کو ملا کر ایک نیا ہی فارمولہ تیار کر رہے تھے۔

غزالی میں تصوف، فلسفے اور راسخ العقیدگی تینوں اکٹھے جمع ہو گئے تھے، غزالی کو سمجھ آ نہیں رہی تھی کہ وہ کس کے پیچھے چلے، تو غزالی نے فلسفے کا اوور کوٹ، راسغ العقیدگی کے بوٹ پہن کر تصوف کے پیچھے چلنا شروع کر دیا، جس کا انجام احیا العلوم الدین اور تہافت الفلاسفہ کی صورت میں نکلا۔ غزالی تصوف کے غلبے میں استدلال کی نفی کرنے لگے، ان کے نزدیک خدا کو انسانی عقل نہیں سمجھ سکتی اس کے لیے بس عقیدے کا ہی سہارا چاہیے، غزالی نے منطق کے بجائے عقیدہ پرستی کی بنیاد ڈالی، تصوف کا مزاج ہی ایسا ہے، تصوف میں شیطان کے بعد عقل کو ہی سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا ہے کیونکہ طریقت کی “شریعت” ہی ایسی ترتیب دی گئی ہے اسے عقل ہضم ہی نہیں کر پاتی۔

مگر یہ کہنا کہ اشاعرہ نے عقل پرستی کے جو کواڑ بند کیے اسی کی وجہ سے مسلمانوں میں سائنسی زوال شروع ہوا اور غزالی کو اس کا مورد الزام ٹھہرانا کہ اس کے افکار کا سائنسی زوال میں کردار تھا یہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ سب سے پہلے غزالی پر یہ الزام جرمنی کے ایک مستشرق Eduard sachau نے لگایا۔ اس نے کہا اگر غزالی نہ ہوتا تو مسلمانوں میں نیوٹن، گلیلو کئی صدیاں پہلے ہی پیدا ہو چکے ہوتے۔

میں ہمیشہ کہتا ہوں عروج و زوال کی صرف ایک وجہ نہیں ہوتی، جہان مسلمانوں کا سائنسی عروج ایک پیچیدہ عمل کے تحت ہوا تھا ،وہیں سائنس زوال کو اشعریہ اور غزالی کے متھے مارنا انصاف نہیں، قوموں کے زوال میں نظریاتی سے زیادہ مادی وجوہات ہوتی ہیں۔ غزالی کا دور وہ دور تھا جس میں عباسی خلافت کا سورج غروب ہونے کی تیاری کر رہا تھا، ریاست کو اپنے سروائیول کی فکر لگی تھی بجائے اس کے وہ سائنسی دماغوں کو سپانسر کرتی، جس کا نتیجہ سیاسی انتشار کے ساتھ سائنسی انتشار کی صورت میں نکلا۔

غزالی کے بعد رہی سہی کسر منگولوں کی یلغار نے پوری کر دی، تاتاریوں نے پوری مسلم دنیا کو الٹ کرکے رکھ دیا، ایسے افراتفری کے دور میں سائنسی زوال تو آنا ہی تھا، منگولوں کے بعد کی زخم خوردہ مسلم دنیا کو روحانی مرہم کی تلاش تھی وہ مرہم تصوف کی صورت میں ملا، تصوف نے تباہی کے دور میں عروج پایا، رومی اور ابن عربی اسی دور کی پیدوار تھے، تصوف کے مقبول عام ہونے نے بھی استدلالی سوچ کا راستہ روکا۔ ان سب محرکات سے کنارہ کرکے غزالی کے سر سارا الزام منڈھ  دینا سوائے سطحی علم کے کچھ اور نہیں۔ نہیں تو غزالی دو سو سال قبل اس سے بھی بڑے راسخ العقیدہ اور استدلال کے دشمن محدثین کی ایک پوری کھیپ تھی۔ پھر ان کے  ہوتے ہوئے ابن سینا، البیونی جیسے دماغ کیسے پیدا ہو گئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہر حال اشاعرہ اب بھی ایک dominating مکتبہ فکرکے سنی اسلام میں، لوگوں کا ہجوم آرتھوڈکسی پسند کرتا ہے عقلیت پسندی چند دماغوں کا کام ہوتا ہے اس لیے معتزلہ کھڈے لائن لگ گئے اور آرتھوڈکسی جیت گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply