بیزاری کیوں ہوتی ہے؟-ڈاکٹر مجاہد مرزا

میرا مقصد،بیزاری، اکتاہٹ جسے آج کل “بوریت” یا “بور ہونا” کہا جاتا ہے، کے طبّی اسباب بیان کرنا نہیں بلکہ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے عمومی عوامل سے متعلق بحث شروع کرنا ہے۔

عام طور پر جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو بے چینی ہونے لگتی ہے۔ بے چینی اکتاہٹ کا پہلا مظہر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ بے چینی کا باقاعدہ اظہار بھی ہوتا ہو، یہ محض بے کل ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب زندگی اتنی مصروف ہو چکی ہو تو کوئی بیکار کیسے رہ سکتا ہے؟ کام تو بہت زیادہ ہوتے ہیں جو کیے جا سکتے ہیں۔

تو اصل بات کیا یوں تو نہیں کہ جب کچھ بھی نہ کرنے پر طبیعت مائل ہو تو وہی درحقیقت اکتاہٹ کی علامت ہے؟ اکتاہٹ بے کیف ہونے کے ساتھ ساتھ اضمحلال اور کسی بھی مخصوص کام کے کرنے سے ذہنی گریز سے بھی معمور ہو سکتی ہے۔ چلیے اُکتاہٹ خود کو کسی پر کسی بھی طرح ظاہر کرتی ہو لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہ ہوتی کیوں ہے؟

مثال کے طور پر گھر کے بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں، گھر دار خاتون ٹی وی کے پروگرام دیکھے جا رہی ہے۔ محسوس کرتی ہے کہ اسے ان پروگراموں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مگر پھر بھی دیکھے جا رہی ہے کیونکہ گھر کے کام کرنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا۔

عورت کی مثال سے کہیں نسائیت پسند ناراض نہ ہوں، میں اپنی مثال دے دیتا ہوں کہ میں کئی روز سے “فیس بک” کھولتا ہوں، بند کر دیتا ہوں، پھر کھولتا ہوں۔ اگرچہ کچھ بھی دلچسپ نہیں مگر میں ایسا کیے جاتا ہوں۔ ویسے تو میں نے کمپیوٹر “مضمون” لکھنے کے لیے کھولا تھا لیکن لکھنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا۔

کیا وہی لکھ دوں جو سب لکھتے ہیں یعنی حکومت کی نا اہلی، فوج کے اہل ہونے کا پرچار، ایم کیو ایم کی پریشانیاں، پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنی پریشانی کا جارحیت کی شکل میں اظہار اور نہ ہی میں وسعت اللہ خان ہوں کہ ہر بات کو طنز نگاری سے مترشح کروں۔ یہ تو سب بہانے ہیں لکھنے کو دل ہی نہیں کر رہا کیونکہ اکتاہٹ ہے۔

اکتاہٹ کی ایک بڑی عمومی وجہ کسی بھی کام کا ویسا ہی ہونا ہے جیسے وہ مسلسل ہوتا ہے یعنی تنوّع سے عاری۔ کسی کام کے یکسانیت پر مبنی ہونے یعنی تنوع سے عاری ہونے کی بھی تو کوئی وجہ ہوگی تو وہ اس کام کی جہتوں میں تنوع کا فقدان ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر سیاست کو لے لیں۔ اگر 67سال سے ایک ہی طرح کے اعمال ہو رہے ہوں، ایک ہی طرح کی گفتگو کی جا رہی ہو اور ایک ہی طرح کے بیان دیے جا رہے ہوں البتہ وقتاً فوقتاً بیان دینے والے بدل جاتے ہوں یا وہ بیان جو پہلے ادھر والے دیتے تھے اب اِدھر والے دینے لگ جائیں اور ادھر والے اُدھر والوں کے سابق بیانوں جیسے بیان دینے لگ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست کی جہات ویسی کی ویسی ہیں جیسے ہوتی تھیں۔

یہ مثال سیاست کے علاوہ کسی بھی عمل پر لاگو کی جا سکتی ہے، مگر چلیے ہم سیاست کی ہی بات کرتے ہیں۔ چند روز پیشتر بلاول بھٹو زرداری نے بیان دیا کہ اب “سرمایہ دارانہ” نظام نہیں چلے گا۔ اس بیان کا مطلب کیا تھا، کیا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب ایک بار پھر ان کی “پارٹی” اقتدار میں آئے گی تو وہ سرمایہ دارانہ نطام ختم کر دے گی اور سوشلسٹ نطام رائج کر دے گی۔ ہے نہ بیکار بات، بلاول کی تو اوقات ہی کیا ہے، جیریمی کوربن جیسے کہنہ مشق سوشلسٹ رہنما نے بھی یہ نہیں کہا کہ “اب برطانیہ میں سرمایہ دارانہ نظام نہیں چلے گا”۔ جب ہمارے سیاستدان معروضی حالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایسے مبہم یا تجریدی بیان دینے لگیں تو کیا اکتاہٹ نہیں ہوگی؟

اکتانے کا ایک اور سبب تفریح کے مواقع نہ ہونا یا مواقع ہونے پر وسائل نہ ہونا، یا مواقع ہونا، وسائل بھی ہونا پر وقت نہ ملنا، یا وقت بھی ملتا ہو تب بھی ان کی جانب مائل نہ ہونا ہو سکتا ہے۔ تفریح کے مواقع درحقیقت تعیش کے مواقع ہی نہیں ہوتے بس تفریح ہوتی ہے جیسے کسی تفریحی مقام پر جانا یا کسی دوسرے ملک چلے جانا۔ مگر ان دونوں صورتوں میں بھی آپ اُکتا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دوسرے ملک یا تفریحی مقام پر موسمی حالات ناسازگار ہو جائیں یا آپ کو ہمراہی نہ ملے یا ملے تو وہ آپ سے ہم مزاج نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ تعیش بھی تفریح ہوتی ہے، اس میں بھی بے چینی ہو سکتی ہے جیسے آپ کی طبیعت ہی راغب نہ ہو یا آپ کا عقیدہ آڑے آتا ہو۔

اکتاہٹ کی ایک وجہ آپ کے کیے کا صلہ نہ ملنا بھی ہو سکتی ہے۔ صلہ معاوضہ بھی ہو سکتا ہے اور نتیجہ بھی۔ معاوضہ مناسب مل جائے اور کام نتیجہ خیز نہ ہو تو کچھ عرصے کے بعد اکتاہٹ ہونے لگے گی۔ معاوضہ نہ بھی ملتا ہو لیکن نتیجہ برآمد ہوتا ہو تو آپ نہ صرف وہی کام کیے جائیں گے بلکہ اس میں تنوع پیدا کرنے کے ڈھنگ بھی تلاش کریں گے۔ پر اگر معاوضہ تو ملتا ہی نہ ہو لیکن نتیجہ بھی صفر رہے یا آپ کی امید سے کمتر رہے تو اکتاہٹ آپ کو آ گھیرے گی۔ ایسے میں آپ یا تو وہ کام کرنا ہی چھوڑ دیں گے یا کم از  کم متبادل ضرور تلاش کرنا شروع کر دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور کیا وجوہ ہوتی ہیں یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں، کیونکہ ایسا تو بالکل نہیں ہوتا کہ کسی پر اکتاہٹ طاری ہی نہ ہو۔ سب اکتا جاتے ہیں، وجوہ البتہ متضاد یا مختلف ہو سکتی ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply