فی زمانہ مسلم معاشروں کو دانش ورانہ سطح پر بہت بڑے نقاد یا ناقدین کی ضرورت ہے ۔ ان کی تنقید ان معاشروں میں مسلمانوں کی انفرادی یا اجتماعی ذہنیت، ان میں پائے جانے والے گروہی مذہبی فہم ، ان کے ثقافتی اور سماجی رویوں ، نفسیاتی الجھنوں اور ان کے سیاسی رجحانات پر ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے اور اس طرح کی تنقید میں خود بھی کرتا ہوں ۔
مڈل ایسٹ میں پھیلتی ہوئی جو حالیہ جنگ ہے اس کی شروعات فلسطینی اسلامی تنظیم حماس کے تل ابیب میں ہو رہے ایک میوزیکل فیسٹیول پر حملے سے ہوئی اور تب سے میرا موقف یہ تھا کہ یہ بہت بڑی غلطی کی گئی ہے ۔
استعمار کے خلاف مزاحمت کا صرف ایک ہی طریقہ نہیں ہوا کرتا ۔ استعماری طاقت کو آج کے زمانے میں شکست سے دوچار کرنے کے لیے برتر علم اور برتر حکمت درکار ہے جس کی استعمار مخالف مزاحمتی تحریکوں میں شدید کمی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ جو 41 ہزار سے زائد لوگ ایک استعماری طاقت کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، مجھے ان کا درد بھی ہے اور ہر انسان جس میں رتی بھر بھی انسانیت ہو اسے یہ درد محسوس ہونا چاہیے۔
ایسے بھی لوگ ہیں جو مسلم معاشروں پر ہمہ جہتی تنقید میں ہمارے ساتھ تھے لیکن وہ ان 41 ہزار انسانوں کے قتل پر یا تو خاموش رہے یا ان میں سے چند تو باقاعدہ خوشیاں مناتے نظر آئے۔
ان میں سے اکثریت دیسی ملحدین کی ہے۔ ایسے ملحدین ایک نمبر دو نمبر نہیں، سیدھے سیدھے استعماری گماشتے اور معاون کار ہیں۔
جب کوئی سانحہ ہوتا ہے تو مذمت اسی کے ذمے داروں کی کی جاتی ہے، مگر مڈل ایسٹ کے قتل عام اور رہنماؤں کے قتل کی بات چھڑتی ہے تو ان دیسی ملحدین کے ہاں یہودیوں کے ساتھ عرب استعمار کے پھیلاؤ کے ادوار میں ہوئے سلوک کو لیکر اس طرح کے سانحات کا جواز تلاش کرنے کا رجحان طاقتور انداز میں سامنے آتا ہے ۔
جیسا کہ کئی ایک دیسی ملحدین کو بنوقریظہ کا مروڑ اٹھ رہا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اپنی ہی تہذیب اپنے ہی معاشرے، اپنے ہی لوگوں سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ان کے قتل عام کا بھی انھیں کوئی درد تک محسوس نہیں ہوتا۔
انھیں سیاسی مزاحمت سے کوئی دلچسپی نہیں اور ویسے بھی الحاد کی تحریک ایک دائیں بازو کی تحریک ہے جس کے ابّا حضور رچرڈ ڈاکنز خود کو کلچرل مسیحی بتا چکے ہیں۔ جنھیں کلیسا کے گھڑیال کی موسیقی تو مغربی اقدار کے مطابق لگتی ہے لیکن انھیں مسلم مساجد سے آنے والی اذان کی آواز مغربی اقدار کے منافی لگتی ہے ۔
پوری مسلم دنیا میں شعور اور سیاسی مزاحمت کی ایک تحریک چل رہی ہے، اس تحریک کو استعماری گماشتوں اور ان کے معاون کاروں سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں