ایک پرندہ میرے آشیانے پہ آیا اور درخت کی ایک باریک سی ٹہنی پہ اس نے چند سانسیں لیں اور اڑ گیا۔ قریب میں پسندیدہ ترین درخت کی گولائی والی ٹہنی پہ لمبے ناخنوں کی مدد سے پنجے جمانے لگا۔ یہ جھولے لینا بھی جانتا ہے۔اس کی لمبی چونچ ہے۔ تتریالا بل کھاتا جسم بُلک رہا تھا۔ قلابازی لے رہا تھا۔ پتوں سے چپک گیا۔ اس کی دم خاصی لمبی ہے۔ پروں کو بھی آرام نہیں ہے۔ گنے چُنے رنگ تو نمایاں ہیں البتہ خاصا رنگین معلوم ہوتا ہے اور نوعیت کے اعتبار سے اس کے رنگ لا تحصوھا کے مانند گنتی میں بھی نہیں آرہے۔
درخت کی ہڈی پہ تیرنا بھی جانتا ہے۔ رینگ بھی سکتا ہے۔ کبڈی بھی کھیل رہا تھا۔ چھلانگیں لگاتے بھی دیکھا ہے۔ آنکھوں کی چمک بھی دیکھی گئی ہے۔ اسے چین بالکل نہیں تھا۔ اپنی تمام تر کوششوں کاوشوں کے باوجود اسے بہت غور سے نہیں دیکھ سکا لیکن سرعت انگیزی سے کام لیتے ہوئے اس کی تصویر کشی کر سکا ہوں ،البتہ اس کی انفرادیت اور اس کی مخصوص نوع اور بے مثلی اور انوکھا پن اور یکتائی اور نرالے رنگ اور خوشبو دور سے محسوس ہو رہی ہے۔ جاتے ہوئے سرگوشی کر گیا ہے۔ آواز مدھم تھی۔ سنائی نہیں دی! اسے محسوس ہوا تو خوبصورت آواز میں ببانگ دہل کہنے لگا: پھر آؤں گا! اس کے جانے کے بعد چند سطرین سُر میں سنائی دیں جو کہہ رہی تھیں: ہلکے اجالوں میں ہلکے اندھیروں میں جو ایک راز ہے/ کیوں کھو گیا ہے کیا ہو گیا ہے کہ وہ ناراض ہے! اے رات اتنا بتا تجھ کو تو ہو گا پتہ: یہ ہے گمراہوں کا راستہ، مسکانیں جھوٹی ہیں، پہچانیں جھوٹی ہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں