ڈاکٹر انور نسیم کا نام پہلی مرتبہ تب سنا تھا جب ہمارے استاد سید افتخار حسین شاہ نے انہیں ایک مکتوب لکھا تھا اور وہ شاہ صاحب نے اپنے شاگردوں کو پڑھ کر سنایا تھا ۔ کسی اخبار میں ڈاکٹر انور نسیم کا بیان چھپا تھا کہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد ) کو سائنس سٹی ڈکلئیر کیا جائے کہ وہاں زرعی یونیورسٹی اور زرعی تحقیق کے اعلیٰ ادارے اور بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کرنے کے لئے مددگار صنعت کار اور آڈیٹوریم موجود ہیں ۔ ہمارے شاہ جی نے ڈاکٹر انور نسیم کو یاد دلایا تھا کہ’ آپ 1957 میں باٹنی کے ایڈ ہاک لیکچرار کے طور پر ملتان آئے تھے تب خواجہ عبدالحمید پرنسپل تھے اور خواجہ خورشید احمد صدر شعبہ تھے ، اس شہر کے مخدوموں یا جاگیرداروں نے کبھی تحقیق کے نام پر اعانت کے لئے اپنی جیب کو زحمت نہیں دی مگر میں ایمرسن کالج میں پڑھنے والے شاگردوں اور پڑھانے والوں کی لیاقت سے واقف ہوں آپ ملتان کو سائنس سٹی بنانے کا مطالبہ کریں اور ملتان میں اپنے قیام کا قرض اتاریں’۔ سو بہت عرصے کے بعد جب میری انور نسیم صاحب سے زکریا یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں یہ خط و کتابت یاد دلائی ۔انہوں نے شاہ جی کا پوچھا ،میں نے بتایا کہ وہ ریٹائر منٹ کے بعد کافی دل گرفتہ ہو کر ملتان سے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا گھر فروخت کیا ہے ان کی دو بیٹیاں ملتان میں ہیں ( ایک ویمن کالج میں انگریزی کی استاد اور دوسری ڈاکٹر ) مگر وہ برمنگھم میں اپنے سرجن بیٹے ڈاکٹر شہزاد کے پاس چلے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر نسیم نے مجھے کہا کہ تم مجھے میرے پرانے ایمرسن کالج میں لے چلو ( چوک کچہری کے پاس تب ویمن کالج تھا اس عمارت میں اب ویمن یونیورسٹی ہے ) میں نے وہاں کی صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شگفتہ حسین سے کہا کہ میں آنا چاہتا ہوں، پرنسپل سے کہہ کے پردہ شردہ کرا دو ،اس نے بہت خوشی سے کہا کہ ہماری پرنسپل باٹنی کی ہی استاد ہیں، ممکن ہے وہ ڈاکٹر انور نسیم کی شاگرد ہوں ۔میں نے کہا کہ ڈاکٹر انور نسیم اس وقت بائیو ٹیکنالوجی کے ” بہت کچھ ” ہیں، آپ کے کالج کی لیب کو upgrade کرا دیں گے ۔
ایک دو اچھی استادوں کی بیرون ملک تربیت کا اہتمام کر دیں گے ۔ بہر طور جب میں انہیں لے گیا تو پرنسپل صاحبہ نے کچھ۔ سینئر استادوں کو بھی بلا لیا ۔ انور نسیم مرحوم نے کہا مجھے میری لیب میں لے چلیں ،جب وہاں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ میرے زمانے کی لیب نہیں ،پھر وہ آٹھ دس گز دائیں بائیں پھرے اور لائبریری میں ضم ایک عمارت کے سامنے رک کر کہا ‘ یہ میرے زمانے کی لیبارٹری ہے’ تب میں نے معمر پرنسپل صاحب کے چہرے پر ایک دمک دیکھی ،جیسے کسی جادوگر نے انہیں بچپن اور نوعمری کے دن لوٹا دئیے ہوں ۔انہوں نے بے ساختہ کہا ‘ڈاکٹر صاحب ! آپ نے درست نشاندہی کی، یہی میرے زمانہ طالب علمی کی لیب ہے’ ۔ اس کے بعد میں نے حسب عادت تقریر کی کہ ڈاکٹر انور نسیم آپ کی لیبارٹری اور سائنسی تحقیق کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں، اگر آپ ہمت کریں اور کچھ ریسرچ پروجیکٹ بنوائیں تو یہ کالج کل کلاں یونیورسٹی بھی بن سکتا ہے ۔یونیورسٹی کے نام پر سٹاف روم پر سکتہ طاری ہو گیا، تب میری سمجھ میں آیا کہ ” ٹیوشن باز” اور بھاری تنخواہ کے عوض دو پیریڈ پڑھا کے بھاگنے والے استاد کسی پوسٹ گریجویٹ کالج کو یونیورسٹی بنانے سے گھبراتے کیوں ہیں ؟
پھر ڈاکٹر صاحب کی بزرگی کے باوجود بہت دوستی ہو گئی، وہ زکریا یونیورسٹی کے سلیکشن بورڈ کے رکن ہو کر قاضی عبدالرحمٰن عابد اور ان کی استاد ڈاکٹر روبینہ ترین کے بھی بہت قریب ہو گئے، پھر جب میں مقتدرہ قومی زبان سے وابستہ ہوا، تو وہ میرے دفتر میں کم و بیش روزانہ سہ پہر کے بعد آتے اور گل افشانی گفتار کا مظاہرہ کرتے مگر ایک روز علی الصبح آئے اور خلاف معمول کہا” چائے پلواؤ یار “۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ڈاکٹر صاحب خیریت تو ہے ؟ انہوں نے قہقہہ لگا کے کہا ” آج صبح میں دفتر گیا تو میرے باس ( ڈاکٹر عطاء الرحمان ) کی طرف سے ایک مختصر نوٹ میری میز پر رکھا ہوا تھا ” your services are no more needed ”
جنرل مشرف سے ڈاکٹر صاحب کی قربت بلکہ قرابت تھی تو ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے مرغ باد نما کو ان کی ضرورت رہی، اس کے بعد اس طرح کا خط انہیں لکھا گیا ۔
ڈاکٹر صاحب نے دو شادیاں کی تھیں، ان پر مقالہ لکھنے والے طالب علم نے پوچھا کہ پہلی بیوی سے علیحدگی کا سبب کیا تھا ؟ انور نسیم صاحب نے جواب دیا ‘ ایسے تکلیف دہ معاملات کی ایک فریق کے پاس توجیہہ ہوتی ہے ،جو یک طرفہ ہوتی ہے ،اگر اس پہلو پر آپ نے کچھ لکھنا ہی ہے تو ان سے بھی پوچھیے اور میرے بچوں سے بھی ۔
ان کے بچپن میں ایک چھوٹا بھائی اور بہن فوت ہو گئے تھے، بس ان کی ایک ہی بہن ڈاکٹر روبینہ تھیں، جو نمل میں صدر شعبہ اردو تھیں ،اپنے رفقا اور شاگردوں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے ڈاکٹر صاحب کے احباب کے لئے سراپا شفقت ،اللہ ان کو سلامت رکھے۔
ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ان گنت باتیں ہیں، سیالکوٹ کی ، کینیڈا جانے کے بعد بھی میرا اور تمثال کا رابطہ رہا ،میں چاہتا تھا کہ وہ اپنی یادوں کو کھنگال کے کچھ نہ کچھ لکھتے رہیں۔ ابھی کل ہی مجھے ایمرسن کالج کے انگریزی کے استاد شیخ فروغ نوید ( ہاؤس 230، سٹریٹ 151 ڈی ۔12/4 اسلام آباد 03008548944) کا ایک لفافہ ملا ، جس میں ان کی وہ تحریر ہے جو فروغ نوید صاحب کینیڈا سے واپسی پر میرے لئے لکھوا کے لائے تھے ۔تب میں ایمرسن کالج کی تاریخ ترتیب دے رہا تھا ،جس کے لئے فروغ نوید صاحب نے بھی ملک الطاف علی کھوکھر نے لکھا اور ڈاکٹر انور نسیم نے بھی۔۔ رات میں نے بادیدہ نم یہ مضمون دوبارہ پڑھا وہ
1۔دینہ ( جہلم ) میں اپنی پیدائش پر فخر کرتے تھے جہاں کے ضمیر جعفری اور گلزار بھی ہیں
2۔اپنے والد کے بارے میں چھپاتے نہیں تھے جو اپنے وسائل کی وجہ سے پڑھ نہ سکے مگر پولیس میں بھرتی ہو گئے اور بعد میں ایک دو ہیڈ ماسٹروں نے داخلے کے لئے جب ڈاکٹر انور نسیم کی سفارش ماننے سے انکار کیا تو ان کے ابا جی کی وردی کام آ گئی۔
3 ۔انہوں نے اپنے علاقے کے سکول کے لئے اباجی کے نام پر اور ضمیر جعفری کے نام پر وظیفے بھی لگائے بچوں کے نام پر
4۔ میں جب سیالکوٹ کیمپس میں تھا تو انہوں نے وہاں کی لائبریری کے لئے ایک ایمرسو نین گوشہ کتب بھی قائم کیا ۔
5۔افسانے سے انہیں بہت رغبت تھی اور میرے ساتھ کینیڈا جا کر بحث کرتے تھے کہ افسانے کی روایت کے یاد گار سو افسانے شائع ہونے چاہئیں، بعد میں انہوں نے یہ پروجیکٹ ڈاکٹر شہناز شورو کے حوالے کیا
۔6 کل رات نمناک آنکھوں کے ساتھ یہ مضمون دوبارہ پڑھا افتخار تاری کے ساتھ ان کی دوستی سکول کے زمانہ طالب علمی میں ہوئی جس کا منشور تھا ایک گینگ بناؤ، اگر کوئی حملہ کرے سب اس پر ٹوٹ پڑو اور لڑکی کو چھیڑتے ہوئے پٹنے کی پرواہ نہ کرو
پھر مجھے اپنا بیٹا احمد تمثال یاد آیا جو ملتان کے ایک سکول میں پڑھ رہا تھا جب اس نے اپنے اسی طرح کے گروپ کا ذکر کیا کہ اس گروپ نے کسی استاد کے خلاف ہڑتال کا پروگرام بنایا ہے ، اس کی یہ بات سن کے میں بد حواس ہو گیا ۔کم و بیش اس کے سبھی استاد ملتان یونیورسٹی میں پڑھتے رہے تھے ۔میں نے اسے ڈانٹنے کی بجائے اس سے ” درخواست ” کی کہ وہ یہ ہڑتال ملتوی کردیں ،مجھے بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے میں متعلقہ استاد یا پرنسپل سے رابطہ کرکے اسے حل کرا دوں گا ۔تمثال نے کہا ” ابو جی میں آپ کی پیشکش آج ریسیس میں اپنے گروپ تک پہنچا دوں گا اگر انہوں نے اسے قبول کیا تو ٹھیک وگرنہ معذرت !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں