دنیا بے رحمی اور بے حسی کی نظر ہو جائے کا مطلب یہی ہے کہ انسانوں نے اتنی زندگیاں گزار لیں لیکن ابھی تک یہ بندوبست نہ کر پائے یا شعور ترقی و ارتقائی مراحل کامیابی سے طے کرنے کی بجائے اتنی تنزلیوں میں بھٹک رہا ہے کہ آنے والی زندگیوں کے لیے بہترین ماحول بنانا تو درکنار انھیں کچھ بہتر زندگی ہی میسر آ پائے بھی مشکل نہیں ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ انسان بچپن جوانی کے بعد بڑھاپے تک پہنچتا ہے تب تک دو تین نسلیں جنم لینے کے بعد پاؤں پہ کھڑے ہونے کی سکیم پر غور کر رہی ہوتی ہیں لیکن سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار شعوری پستیوں میں پڑ جاتی ہیں۔
دنیا بے حسی اور مفادات کی چکی میں پس رہی ہے۔ تقسیم در تقسیم نے انسانوں کو اشرف المخلوقات سے اسفل السافلین میں تبدیل کر دیا ہے۔ احتساب صرف کمزور کا ہوتا ہے اور کمزور ہی بھاری قیمت ادا کرتا ہے گویا جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
دنیا کو تقسیم کیا گیا اور یہ اصول وضع کیا گیا کہ اگر کامیاب ہونا ہے تو مقابلہ کیا جائے اور اس مقابلے میں ‘تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ’ پیروں تلے روند دیا جائے اور اسی دوڑ میں کئی کئی نسلیں بھٹکتی پھر رہی ہیں اور کامیابی کو محض چند ٹکڑوں کے حصول سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پہ انسانوں نے یہ سیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ انسانیت تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم کی رو سے تمام تر اختلافات کے باوجود بھی کئی کئی ایکائیوں اور یکسانیت پہ بھی قائم ہو سکتی ہے اور یہ اختلافات وقتاً فوقتاً نسل در نسل کانٹوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں چونکہ ایک نسل کی جہالت دوسرے نسل کا طور طریقہ اور فخر بن جاتا ہے۔
جنگ کا سب سے بڑا نقصان ہی یہی ہے کہ پہلی نسل کی انائیں نئی نسل کو کھا جاتی ہیں اور یوں یہ سفر جاری رہتا ہے اور نسلیں اس سفر میں سفر کرتی رہتی ہیں اور جانتی تک نہیں ہیں کہ دراصل کیا وجوہات ہیں اور تب تک نئی نسلیں دنیا میں قدم رکھ لیتی ہیں لیکن قدم جمانے کی کوششوں کے بیچ ایک نئی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں