داستان شہاب/سیّد مہدی بخاری

قدرت اللہ شہاب مرحوم پر جب الزامات لگے کہ انہوں نے بطور پرنسپل سیکرٹری مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان مس فاطمہ جناح کی کردارکشی مہم میں اہم کردار ادا کیا اور اس زمانے میں یہ بات زبان زد عام ہو گئی کہ ایوب خان نہیں بولتا اس میں قدرت اللہ شہاب بولتا ہے۔ سید محمد جعفری نے تو یہاں تک کہہ دیا
یہ سوال و جواب کیا کہنا
صدرِ عالی جناب کیا کہنا
کیا لکھایا ہے کیا پڑھایا ہے
قدرت اللہ شہاب کیا کہنا
تب جواب میں قدرت اللہ شہاب مرحوم نے اپنی صفائی میں 1200 صفحات پر مبنی شہاب نامہ جیسی ضخیم کتاب لکھ دی۔ اس میں انہوں نے دعائیں، وظیفے اور “نائنٹی” نامی غیر مرئی مخلوق کا ذکر کر کے اپنی نیکی، پاکدامنی و سچائی پر مہر بھی ثبت کر دی۔اس زمانے میں پوری PK فلم ریلیز کر دی تھی کہ اب مجھے کچھ کہہ کے دکھائیو۔ اللہ بخشے اپنے زمانے کے صوفی بیوروکریٹ اور ویژنری آدمی تھے۔ ،جب عامر خاکوانی بھیا نے شہاب نامہ کو بیسٹ کتاب قرار دیا تو مجھے یاد آ گئی۔

شہاب نامہ سے آپ کی اردو بہتر ہو سکتی ہے۔ پڑھنی چاہیے۔ آنجہانی گورے کا ایک خوبصورت قول ہے۔ ” اس سے نہ ڈور جس نے بہت سی کتابیں پڑھی ہوں مگر اس شخص سے ضرور ڈرو جس نے ایک ہی کتاب پڑھی ہو وہ بھی اسے مقدس جان کر”۔ بس مقدس جان کر اور صرف اسے ہی نہ پڑھیں۔

ہمارے ہاں ہر بیوروکریٹ ریٹائرڈ ہونے کے بعد انتہائی اعلی اخلاقیات کا منارہ، راست گو، محب وطن، اور دین کا مبلغ نکلتا ہے۔ اپنی اپنی کتابی صفائیاں بھی چھپواتے ہیں۔ سب ہی تو نیک گزرے۔ ادھر بد کون ہے ؟ ہے کوئی یہاں نکما ؟ کوئی بد دیانت ؟ کوئی مالی و اخلاقی کرپٹ ؟۔ وطن عزیز کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ تبھی تو وطن خوشحال ہے اور معاشرہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔
یہاں، جہاں میں بستا ہوں وہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کی ناموس کا رکھوالا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے بابے، اپنے اپنے صوفی وہ بھی تھرڈ کلاس جعلی صوفی، اپنے اپنے مولوی کی ہر حرکت کا دفاع کرنا اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے۔ جن کو کچھ نہیں ملتا وہ اپنے سیاسی لیڈر کی ناموس پر پہرہ دیتے ہیں۔

ہماری ایک پوری نسل رجعت پسند بنائی گئی ہے۔ ان کی جمالیاتی حس کو بڑی محنت سے تباہ کیا گیا ہے۔ نسیم حجازی قماش کے لوگوں کو چھاپا گیا اور ریاستی سطح پر پروموٹ کیا گیا۔قدرت اللہ شہاب اینڈ کمپنی یعنی اشفاق احمد، ممتاز مفتی،اور بعد ازاں بابا یحیی خان وغیرہ کو ریاست یعنی اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور یہ استعمال ہوتے رہے۔ ریاست نے ان کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے اکلوتے ذرائع ابلاغ کے فورمز کھل کر فراہم کیے اور میگزین و ادبی رسالوں میں کھل کر چھپوایا گیا تا کہ قوم کے بھیجہ میں “اللہ ہو اللہ ہو” ڈال کر ان کی سوچ کو اتنا رجعت پسند بنا دیا جائے کہ قوم اہم ملکی اموار پر نہ سوچے نہ احتجاج کرے۔ ریاست کے خلاف آواز اٹھانے کی ممانعت ، ہر حال میں صبر شکر کر کے ریاستی پالیسیوں پر آنکھیں بند کیئے رکھنے اور عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق بنانے کے باب میں کھل کر تبلیغ کی گئی اور خود ساختہ صوفی ازم کا پرچار کیا گیا۔

قدرت اللہ شہاب نے اشفاق احمد اور ممتاز مفتی سمیت اپنے حلقہ احباب کو جو ان کی ٹی سی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ریڈیو و دیگر محکموں میں سرکاری نوکریاں دیں۔ شہاب صاحب نے صدر ایوب خان سے قربت اور ذاتی مراسم کا فائدہ اٹھایا۔ صدر ایوب خان کے پرسنل سیکریٹری اور بعد ازاں پریس سیکریٹری رہے۔ اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ میں قدرت اللہ شہاب کا ڈنکا بجتا تھا۔ نوکری انہوں نے ابن انشا کو بھی دی اور انشا کو اپنے ہم خیال گروپ میں شامل کرنے اور اس سے اپنے مطلب کا کام لینے کی بھی کوشش کرتے رہے مگر انشا نے اس خاص گروپ سے ایک خاص فاصلہ رکھا اور ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے اپنے فن کو کسی کے زیر اثر لانے سے بچاتا رہا۔۔۔

بانو آپا نے راجہ گدھ لکھا تو اشفاق صاحب کو اس کے مواد پر اعتراض تھا چنانچہ انہوں نے راجہ گدھ کے مواد کی کافی کانٹ چھانٹ کی ۔ بانو آپا اچھی بیوی کی طرح بتاتی رہیں کہ اشفاق صاحب نے راجہ گدھ پر نظر ثانی کر کے اسے کامیاب ناول بنا دیا ورنہ شاید میں اتنا بہتر نہ لکھ سکتی پر درحقیقت اس ناول کے وہ باب کاٹے گئے جو انہوں نے پیچیدہ انسانی نفسیات و جنس کے باب میں کھل کر لکھے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بانو کو منٹو بننے کی اجازت نہیں ملی۔قدرت اللہ شہاب کے بنائے پلیٹ فارم “رائٹرز گلڈ” کو ریاستی سپورٹ دی گئی اور جو جو “رائٹرز گلڈ” کے حلقہ احباب میں نہیں آیا اسے ذلیل کیا گیا۔ وہ منٹو ہو، وہ جالب ہو، وہ احمد ندیم قاسمی ہو۔ کئی قابل لکھاری اس زمانے میں پست پشت ڈالے گئے اور ان کی خوب حوصلہ شکنی کی گئی۔ قوم کو بس چار “بابوں” یا “صوفیوں” کے پیچھے ہی لگایا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply