گزشتہ شب عدنان سے ملاقات بہت زبردست رہی۔ صبح ہوٹل بکنگ میں ناشتے کا آپشن گو کہ شامل تھا مگر کنیڈے آنے کی ‘وجۂ پھیرا’ میں سرفہرست جب تھے ہی کھابے تو پھیکے مغربی پکوانوں کو جھنڈی کرائی گئی۔ چنانچہ نیند پوری کرنے اور سفری تکان اُتارنے بلکہ یوں کہیے کہ آج کے دِن کے لیے تازہ دم ہونے کو ترجیح دی گئی۔ نیم گرم پانی سے شاور لینے اور ہلکے پھلکے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ کے ساتھ آرام دہ سنیکرز (جاگرز) پہن کر راقم بالائی منزل سے لِفٹ پکڑ کر براستہ لابی ایریا ہوٹل پارکنگ لاٹ میں کھڑی ایس یو وی کو مرکزی داخلی دروازے پہ لے آیا۔ جب تک اہلیہ بچوں کی تیاری اور ننھے عمر (عرف باس بےبی) اور عبداللّٰہ و امیمہ کے مابین چِھڑی بےمہار لفظی مہابھارت کے دوران سیز فائر کرواتیں، میں نے عدنان کو ٹیکسٹ میسج میں چند ناشتہ پوائنٹ اور فائن ڈائننگ ریستورانوں کی تجاویز طلب کرنے میں مغز ماری جاری رکھی۔ مزید کوئی دس سے پندرہ منٹ بعد ماتھے پہ ہاتھ رکھی اہلیہ بچوں سمیت ہوٹل استقبالیہ دروازے سے نمودار ہوئیں اور گاڑی میں بیٹھتے ہی شکایت لگائی کہ ان ٹِڈوں کے آرگومنٹس تو ختم کروائیں پلیز۔ ۔میرا تو سِر کھا لیا ہے اِن سب نے مِل کر۔
پوچھا کیا ہوا؟
بولیں: عمر کہہ رہا ہے کہ میں امیمہ اور عبداللّٰہ دونوں سے زیادہ سمارٹ اور انٹیلیجنٹ ہوں، اور یہ دونوں بڑے اُسے خود کو زیادہ جینئس بتا بتا کر چِڑا رہے ہیں۔ اب سچوئیشن یہ ہے کہ اُس نے رَو رو کر آسمان سر پہ اُٹھا لیا ہے کہ جینئس میں ہوں اور یہ دونوں بڑے اُس کو تنگ کرنے سے باز نہیں آ رہے۔
میں نے کاموشی پر اکتفا کیا ۔
بولیں: کیا ہممم مم؟ ہینڈل کریں اِن دونوں بڑوں کو۔
پھر سے ذرا لمبا ہنگورہ بھر کہا: ہممم ممم م م م م م۔۔
بولیں: کیا ہمم مم لگا رکھی ہے، آپ دیکھتے ہیں یا پھر۔ ۔
میں نے دونوں بڑوں کو پانچ پانچ سیکنڈ کی گھوری کرائی اور وہ سمجھ گئے کہ اب انہیں کیا کرنا ہے۔
اب کی بار ایس یو وی میں تین لوگوں کی طوالت خیز اکٹھی آواز آئی: ہم م م م م م م م ممم م م م۔۔۔!!!
اور اہلیہ افوہ کہتی ہوئی منہ بسور کر رہ گئیں۔
عمر جو اب تک گھیں گھیں کرکے رو رہا تھا وہ بھی اچانک ہنسنے لگ گیا۔ چناچہ اب کی بار میں نے ون ٹو تھری کہا تو عمر سمیت گاڑی میں چار لوگوں کی اکٹھی آواز۔۔ہم م م م م م مممم۔۔!!! اور پھر فلک شگاف کھکھلاتے ہوئے قہقہے گونجنے لگے۔
آپ سب نے مِل کر بس ماؤں کا ہی سِر کھانا ہوتا ہے؟ ہے ناں؟
اور اب کی بار اہلیہ سمیت سب کار باسیوں نے کھلکھلاتے ہوئے بیک زبان زور دار نعرۂ “ہم م مممم مم” لگایا اور ایس یو وی عدنان کے تجویز کردہ “چائے پراٹھا” نامی ناشتہ پوائنٹ کی جانب رواں دواں ہو گئی۔
نیو مارکیٹ سے مسی ساگا شہر کا سفر کوئی پنتالیس میل (72 کلومیٹر) کی دوری پہ واقع تھا۔ آج بروز ہفتہ GTA کی سٹرکیں قدرے کم مصروف نظر آئیں۔ راستے میں کئی کاروباری مراکز اور بلند و بالا عمارتوں کے سامنے امریکہ، سعودیہ، متحدہ عرب عمارات اور تُرکی کی طرح جابجا کینیڈا کا قومی پرچم بھی نمایاں طور پر لہراتا نظر آیا۔ اہلیہ سے گفتگو کے دوران یہ موضوع چِھڑ گیا تو بدقسمتی سے وطنِ عزیز پاکستان میں سیاسی، لسانی پارٹیوں کے جھنڈے، بالخصوص یاداشت سے حذف نہ ہونے والے لائل پور کے آٹھ بازاروں کا تقابلی ذکر ہوگیا۔ اور میں کہے بغیر نہ رہ سکا کہ وہاں ہر تنگ گلی اور داخلی راہ داری پہ نجانے کیوں کسی نہ کسی صدر، نائب صدر، چئیرمین انجمن ڈھمکاں، سرپرستِ اعلیٰ فلاں، جنرل سیکریٹری پرے مراں ، پراپیگنڈا سیکریٹری انجمنِ تاجرانِ اُرے مراں سمیت سنہری مارکیٹ، ارشد مارکیٹ، وکیلاں آلی گلی وغیرہ وغیرہ اور مزید وغیرہ وغیرہ کے باہر بورڈوں پہ منحوس صورت موٹی بوتھیوں والے پینافلیکس کسی ریل کار کی بوگیوں کے طرح تَھوک کے حساب سے لگے نظر آتے ہیں۔ یعنی ہر گلی کا الگ ہی چوہدری ہے جو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی ریاست کا مدارالمہام بن کر نکڑ پہ چھوٹا سا تخت سجا کر بیٹھا ہوا ہے۔ چوہدراہٹ کی تقسیم در تقسیم کو گلی محلے جیسے نچلے درجے سے لے کر شہری، صوبائی اور قومی لیول تک یوں پِٹتے دیکھنا ہو تو وطنِ عزیز سے بڑھ کر کوئی مثال ذہن میں نہیں آتی۔ قومی پرچم یکجہتی کی نفسیاتی علامت ہوتے ہیں اگر ہر سرکاری و نجی و کاروباری و ذاتی پراپرٹی پہ آج سے صرف اور صرف پاکستان کا پرچم لہراتا نظر آجائے تو یقیناً معاشرے میں بکھرے طاقت کے توازن میں استحکام پیدا کرنا کوئی مشکل بات نہیں کہ کچھ علامتی استعارے بطور بانڈنگ فیکٹرعوامی ہجوم کو قومی شناخت سے جوڑنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
چائے پراٹھا کی پارکنگ لاٹ سے ہی گرم مصالحوں کی تیز بُو نے پہلی چھینک لانے میں موثر کردار ادا کیا۔ مِسی ساگا میں واقع اِس ریستوران کے باہر انتظار کرتی فیملیز بلامبالغہ جُھنڈ کی صورت کھڑی تھیں۔ ایکسکیوز می کہہ کہہ کر جبڑوں میں درد کرواتے ہوئے کئی زیرِ پیٹ کُھجاتے دیسی انکلوں کو پچھاڑ کر دیستوران استقبالیہ پہ کھڑے نوجوان سے اپنی باری کا پوچھا تو جوان بولا آپ کو اندر بیٹھنے کے لیے تو ابھی کافی انتظار کرنا پڑے گا مگر باہر ایک فیملی فری ہو رہی ہے تو میں ٹیبل صاف کروا دیتا ہوں۔ میں باہر بیٹھنے سے اجتناب کرنا چاہ رہا تھا کیوں کہ وہ میز بالکل چھوٹے سے داخلی دروازے کے بالکل آگے دھری ہوئی تھی مگر چاروناچار یہاں بیٹھنے میں ہی عافیت سمجھی گئی کہ ایک گھنٹہ انتظار کرنا فی الوقت ہرگز قابلِ قبول نہ تھا۔ لیکن اب اُس کی قیمت یہ ادا کرنی پڑی کہ ٹوتھ پِک سے دہن کو بِنا ڈھانپے خلال بلکہ کُھدائی کرتے چاچے اور زبان کو سامنے والے دانتوں سے چپکا کر “چُس چُس” کی بےہودہ آوازیں اور ڈکار مارتے اَنکلوں اور “ہِڑ ہِڑ ہا ہا” کرتی آنٹیوں سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ یہاں بھی سبھی سرونگ سٹاف سِکھ نوجوانوں اور کروڑ کروڑ کر چڑھتے پنجابی لہجہ بولنے والی سردارنیوں پہ مشتمل تھا جو یقیناً پارٹ ٹائم سٹوڈنٹ اور فُل ٹائم نوکری کر رہے تھے۔ گزشتہ قسط میں عدنان بتا رہا تھا کہ کنیڈین وزیراعظم جس کی پونے ننانوے فی صد کابینہ کسی نہ درجے میں انڈین یا ہندوستانی لابئنگ کے زیرِ اثر ہے، جلد ایک قانون پاس کر رہی ہے جس کے مطابق سٹوڈنٹس بھی عام کنیڈین شہری کی طرح بیس گھنٹے فی ہفتہ کی بجائے قانونی طور پر چالیس گھنٹے فی ہفتہ کام کر سکیں گے۔ جس کی وجہ سے مقامی کنیڈین باشندوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ظاہر ہے کاروباری آجروں کو سستی، ڈرپوک اور کامی لیبر وافر میں دست یاب ہو گی جبکہ دوسری جانب مقامی لوگوں کی لگی لگائی ملازمت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
خیر! راقم نے نہاری، اہلیہ اور بچوں نے حلوہ پوری کی ٹرے نما “تھالی” آرڈر کی جس میں اچار، سرکہ ملے پیاز، دہی و سبز و سرخ چٹنیاں اور کوئی شوربہ وغیرہ شامل تھا۔ ہماری دو ٹریز کے ساتھ دو پوریاں آئی تھیں سو چند اضافی پوریاں اور نہاری کے لیے نان کا کہا گیا۔ تھکا ماندہ سست و نلیق پانڈہ سروس سٹاف “کم جوان دی موت” کا اشتہار بوتھیوں پہ سجائے اضافی پوریاں لانے تک ٹرے کا سازو سامان ٹھنڈا کروا چکا تھا اور رہی سہی کسر اوپن ائیر ماحول میں چلتی پارکنگ لاٹ سے چلتی بادِ سموم نے پوری کر دی۔ اونٹ کی پشت پہ آخری تنکا اُن کے دو عدد سردار بھائی جو یقینا کچن سٹاف ممبر تھے، ریستوران کے مرکزی داخلی دروازےسے بغلِ آدم جتنا بدبودار کوڑے دان باقاعدہ سبھی گاہکوں کے سامنے سے گھسیٹتے ہوئے عقبی جانب لے جاتے پائے گے۔ اور اس صورت حال میں مجھے امان اللّٰہ مرحوم کامیڈین کا جٹّوں پہ مبنی لطیفہ یاد آ گیا۔ جب مرحوم سٹیج ڈرامے کے کسی دوسرے آرٹسٹ کی جانب اشارہ کرکے بولے: یہ پانچ بھائی بقر عید پہ کوئی دو گھنٹے لگا کر ویہڑا بمشکل گھسیٹتے ہوئے گھر کی چھت پہ چڑھا رہے تھے، پوچھا ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو سبھی بیک زباں ہو کر بولے، پائین! چھُری اُتے پئی جے۔
(بھائی جان! چھُری اوپر چھت پہ پڑی ہے۔۔۔اِس لیے)
بس سردار بھائیوں کی عقل پہ مجھے سر دست وہی سچوئیشن یاد آ گئی کہ سالے! چاہتے تو ریستوران کے عقبی دروازے سے بھی کوڑے دان لے جا سکتے تھے مگر انہوں نے مین دروازے سے لے جانا زیادہ مناسب سمجھا۔
میرے نزدیک باہر ڈائننگ کرنا دراصل part of having good time ایکٹیوٹی ہوتی ہے اور اِسی سبب سروس کوالٹی، ambiance وغیرہ کو میں زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ چنانچہ کھانے میں اگر انیس بائیس ہو بھی جائے تو اُس کی معافی مل سکتی ہے مگر میں اپنے فیملی ٹائم کی وَاٹ لگانے کی اجازت کسی کو بھی ہرگز ہرگز نہیں دے سکتا اور بطور کسی حد تک educated customer میں جوابی گولہ بارود اپنی پٹاری میں ہمیشہ تیار رکھتا ہوں۔ بھئی! آپ گھر سے نکلے، تیار ہوئے، سفر کیا اور سپیشلی ٹیبل ریزور کروائی، وہاں نشست افروز ہوئے، لیکن اگر آپ کو اچھی سروس اور لطیف ماحول میں کھانا ہی نہیں مل رہا تو بینڈ بجانی تو بنتی ہے۔ اہلیہ کہتی ہیں کہ آپ بہت بےرحم Food reviewer ہیں لیکن میرے مطابق یہ ایمان دارانہ رائے کا دوسرا نام ہے۔ تھرمس والی چائے نے قدرے آسرا کروایا مگر اوور آل اِس ناشتہ پوائنٹ کا تجربہ فارغ ہی رہا۔ چناچہ گھٹیا سروس پہ بِنا ٹِپ شامل کیے بِل ادا کرکے اپنے امریکی کینیڈین کولیگ کے تجویز کردہ چند مقامات میں سے Eaton Mall کی جانب ایس یو وی موڑ دی۔
ویز میپ اپلیکیشن میں حد رفتار کلومیٹر کی بجائے امریکی میلوں میں شو ہو رہی تھی تو آسانی رہی۔ ٹورنٹو ڈاؤن ٹاؤن کے دِل میں واقع ایٹن مال المعروف ایٹن سینٹر کی پارکنگ میں پہنچتے تک ٹورنٹو شہر کی قدیم تاریخی عمارات کے ساتھ فلک بوس انفراسٹرکچر کا امتزاج اور ہر ٹریفک سگنل کے سُرخ ہوتے ہی زیبرا کراسنگ پہ سیاحین و مقامی گوروں کے ہم راہ دیسی عوام غول در غول سڑک پار کرتی نظر آئی۔ ایٹن سینٹر کی کئی منزلہ پارکنگ کے مرکزی ستون کے اردگرد بل کھاتی سنگل لین سے ہوتے ہوئے چوتھے فلور تک ایس یو وی کا انجن غراتا رہا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ پارکنگ بالکل ایلویٹر (لِفٹ) کے ساتھ مل گئی جس پہ سوار ہوتے ہی مال کے پہلے فلور پہ مشہور و معروف پیتل کی Canadian Goose (ہَنس یا مرغابی کی ایک قسم جو کینیڈا میں بکثرت پائی جاتی ہے) مال کی چھت سے لٹکی نظر آئیں جیسے وہ غول در غول نقل مکانی کرتی ہوئی سرد موسم سے کسی گرم خطے کی طرف جا رہی ہوں۔ دراصل اِنہی بطخ نما مرغابیوں یعنی Canadian Goose کے نام سے منسوب مشہور اور مہنگی برینڈ کی گرم جیکٹوں کا سٹور بھی وہیں موجود ہے جس کی ایک جیکٹ کی کم از کم قیمت کوئی آٹھ نو سو کینیڈئین ڈالر سے شروع ہو کر دو سے اڑھائی ہزار ڈالرز تک جاتی ہے۔ ان جیکٹس کی خاصیت اِن میں مبینہ طور پر مذکورہ مرغابی کے پروں کی بھرائی ہے جو مقامی منفی 30 ڈگری نقطہ انجماد جیسی یخ بستہ موسمی صورت حال میں بھی پہننے والے کے جسم کو گرم رکھتی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ یہ جیکٹس اور اِن پہ چسپاں کنیڈئین گوُز لوگو مہنگی پوشاک اوڑھنے کے سٹیٹس سمِبل جیسا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں کئی سیاحوں کو چاقو یا پستول کے زور پہ اپنی اِن مہنگی جیکٹوں سے مبینہ طور پر محروم بھی ہونا پڑا جو بعد ازاں فیس بُک مارکیٹ پلیس یا craigslist جیسی دیگر ویب سائٹوں پہ سستے داموں بکتی نظر آئیں۔ سچ پوچھیے تو میرا دِل واقعتاً ایک جیکٹ پہ آیا ہوا تھا مگر نجانے کیوں لیتا لیتا رہ گیا جس میں زیادہ قصور اہلیہ کی تیز نگاہوں کا تھا کیوں کہ ایسے مواقع پہ نجانے کیوں انہیں فضول خرچی کا درس یاد آ جاتا ہے۔
ایٹن مال مجھے کوئی ایسا خاص نہیں لبھایا کیوں کہ شاید امریکہ میں اِس سے کہیں زیادہ ہائی اینڈ یا اَپ سکیل مالز دیکھ چکا ہوں۔ سو مقصد صبح کے تُنّے ہوئے پراٹھوں، نہاری اور پوریوں پہ مشتمل کیلوریز کو مٹر گشت کرتے ہوئے گٹھانا تھا۔ ایٹن مال کا ایک سِرا سڑک کی دوسری جانب موجود بلڈنگ میں بھی تھا جسے شیشے کے ٹنل نما شفاف پُل سے جوڑا گیا تھا۔ پُل سے دوسرے حصے کی جانب جاتے ہوئے دور کہیں پولیس کی بیسیوں پٹرولنگ کاریں نیلی و سُرخ بتیاں آن کیے کھڑی نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پہ علم ہوا کہ وہاں فل سط ی ن کا پرچم اٹھائے ہزاروں مظاہرین بینر اور پَلے کارڈز اُٹھائے نعرے بازیوں میں مصروفِ عمل تھے۔ یہاں میں اپنی ایک قدرے غیر معروف رائے ایک سوال کی صورت اظہار کرنا چاہوں گا، اور وہ یہ کہ اِن ایسے کئی مظاہرین کو امریکہ کینیڈا، یورپ اور دیگر کئی غیر اسلامی ممالک نے آزادئ اظہارِ رائے کے بنیادی انسانی حق کے تحت اپنی سرزمین پر کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ مگر انہیں کسی بھی مسلم مُلک میں یوں پولیس کی حفاظت میں ناکے لگا کر ایسا کرنے پر سیدھی ہتھ کڑیاں لگ سکتیں ہیں۔ اوپر سے یہی مظاہرین اپنے مقامی ممالک میں یورپ، امریکہ و کینیڈا کو ازلی سازشی و اپنا دشمن سمجھ کر رَج پُج کر گالیاں بھی دیتے ہیں۔۔۔کیوں؟ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اِن تمام تر مغربی ممالک میں اِن جنگ زدہ یا تناؤ والے علاقوں کے تارکین تو ایک طرف رہے، ترقی پذیر ممالک کے باشندے بھی ویزہ ملنے کی آس میں یورپ، امریکہ و کینیڈا کے خواب دیکھتے ہیں۔۔۔۔کیوں؟ پھر یہاں آ کر مقامی ثقافت میں رچنے بسنے اور اپنا سِکل سیٹ بہتر کرکے اعلیٰ کاروباری و ملازمتی آپشنز کی بجائے یہ احبابان ہمیشہ آسان راستہ یعنی مزدوری، ٹیکسی یا گرے کالر نوکریوں میں ہی سرکھپائی کیوں کرتے ہیں؟ بہرحال یہ ایک غیر معروف رائے ہے اور میرا مقصد قطعاً کسی طبقے کی دِل آزاری ہرگز نہیں۔
ایٹن مال میں چلتے چلتے کافی اور ٹھنڈے کی طلب ہوئی تو نزدیکی سٹاربکس کا رُخ کیا جہاں سے اپنے لیے ٹھنڈی ٹھار Chai Latte جب کہ اہلیہ کے لیے انناس اور ڈریگن فروٹ ڈرنک اور بیٹی کے لیے Cappuccino کا ”مَدرے سائز” کا کپ آرڈر کیا۔ مزید گھومنے پھرنے کے بعد حاجت ہوئی تو مال کے ریسٹ رومز جنہیں کنیڈے والے “واش روم” کہتے ہیں کا رُخ کیا گیا۔ الحمدللّٰہ مجھے لائل پور ارشد مارکیٹ کے مدرسے والی تنگ و تاریک گلی سے ملحقہ پبلک واش رومز کی یاد آ گئی۔ کچھ رنگوں، ذائقوں یا خوش بوؤں کی طرح بدبو بھی انسانی یادداشت کا اٹل و اَٹوٹ حصہ بن جاتی ہیں۔ ایٹن مال کے بَو مار واش رومز میں پیشاب و فینائیل کے “ناسیں پاڑ” بھبھوکوں نے مُوڈ کی ماں بہن بھائی باپ دادا دادی و نانا نانی سبھی ایک کر دئیے۔ یقین مانیے صفائی کی ناگفتہ بہ صورت حال پہ بس یہی سوچ پایا کہ کینیڈا پتا نہیں کِن لعین چَوّلَوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔
مال میں ڈیڑھ دو میل کی بےوجہ واک کے بعد اب وہاں سے نکلنے والی کی اور باہر آکر مشہورِ زمانہ CN TOWER کے زیرِ سایہ ہاربر ایریا والی روڈ پہ ایک پرائم پارکنگ لوکیشن سے نکلتی کار کی جگہ فوراً “مَل مارنے” والی کی۔ ایس یو وی پارک کرتے ہی سی-این ٹاور کے بالمقابل چند یادگاری فیملی تصاویر عکس بند کی گئیں۔ شمالی امریکہ میں صاف پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک “لیک اونٹاریو” کے کنارے ایستادہ CN Tower سن 1960ء میں آنے والے صنعتی و عماراتی عروج کے سبب وجود میں آیا جب ٹورنٹو میٹروپولیٹن ایریا میں ریڈیو اور ٹی وی کے نشریاتی سگنلز کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے کسی بلند وبالا انفراسٹرکچر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 6 فروری 1973ء کو Canadian National کراؤن کارپوریشن نے جو ملک کا سب سے بڑا ریلوے نیٹ ورک بھی چلاتی تھی، سی این ٹاور کی تعمیر شروع کی اور مارچ 1975ء میں اولگا نامی ہیلی کاپٹر نے تمام شہر کا چکر لگانے کے بعد 39 حصوں کو جوڑ کر بنایا گیا دیو قامت ریڈیو انٹینا تاج پوشی کرتے ہوئے سی-این ٹاور کے ماتھے پہ سجایا دیا۔ اور یوں 26 جون 1976ء کی افتتاحی تقریب میں CN tower کا ریکارڈ کرۂ ارض پر بطور 553 میٹر بلند ترین عماراتی سٹرکچر سَن 2009ء تک قائم رہا جسے بعد ازاں دبئی کے برج خلیفہ نے اپنے نام کر لیا۔
اونٹاریو جھیل کنارے امریکی شہر شکاگو کی مشی گن جھیل کی طرز پہ میلوں لمبا والنگ ٹریک بھی موجود تھا جس کے ساتھ جگہ جگہ مختصر سا سفید ریت والا کھاڑی نما ساحل بھی ہے۔ کئی قلیل تعداد میں گورے پریمی جوڑے اور بےتحاشا سردار و انڈین ساڑھیوں اور ململ کی سفید گوٹا کناری والی دھوتیوں میں ملبوس انکل آنٹیاں بھی چہل قدمی کرتے ملے۔ فضا میں گٹار، وائلن، ڈرم اور ماؤتھ آرگن کی دھنیں بکھیرتا ایک میوزک بینڈ بیگ پائپر کی طرح چلا جا رہا تھا جس کا پیچھا کرتے چند منچلے جوڑے اور فیملیز اپنے بچوں کے ہم راہ محوِ رقص تھے، بالخصوص چھوٹے بچے تو بہت ہی کیوٹ لگ رہے تھے۔ “اَنّھا کی چاہے، دو اکھّاں” کے مِصداق راقم بھی بچوں سمیت اونٹاریو جھیل کے ہلکورے لیتے ساز و سوز میں ماحول کو خوابیدہ بناتے خوب صورت لوگوں کے ہم راہ کوئی دو میل تک خراماں خراماں چلتا گیا۔ گولڈن آور یعنی آفتابی کرنوں کا شام ڈھلے مچلتی لہروں میں غسلِ لینے کا وقت آن پہنچا تو معلوم ہوا کہ اب واپس کار پارکنگ تک بھی دو میل پیدل ہی چل کر جانا ہے، سو اُلٹے پیری بچوں کے ساتھ واپس چلنا شروع کیا۔ بچوں کو واش روم جانے کی حاجت ہوئی تو قریبی فارمیسی سٹور کی امریکی چین میں پبلک ریسٹ روم استعمال کرنے کو رُکے مگر یہ کیا، وہاں پہ مامور دیسی سردار عملے نے لاک لگا کر اُسے بند کر رکھا تھا۔ پوچھنے پہ لوگوں نے بتایا کہ عوامی استعمال کے سبب کام چور عملہ شام تک دوبارہ صفائی سے بچنے کے لیے تالہ لگا کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے۔ ماشاءاللّٰہ! یہ برصغیری اَلَل ٹَپ کھچیں جہاں بھی گئیں اپنا آپ دکھانے سے باز نہیں آتیں اور کینیڈا تو اب باقاعدہ اِس کھچ پُنیں کی مجسم مثال بن چکا ہے۔ اپنے ہی بچوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اُنہیں نمبر ٹو کو روکنے اور ایک دوسرے سے باتیں میں مشغول ہونے کی تاکید کی گئی اور چند فرلانگ پہ کھڑی ایس-یو-وی میں بِٹھا کر عدنان کے تجویز کردہ ایک سٹیک ہاؤس کا پتا ویز میپ ایپلیکشن میں ڈال دیا۔
بلیک سٹون سٹیک ہاؤس کی پارکنگ لاٹ میں گاڑی کی بریک لگائی اور بچوں کو کسی بھی طرح بھگا کر ریستوران کے واش رومز تک کیسے پہنچایا یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ قصہ مختصر کہ دورانِ سفر الحمدللّٰہ کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔ ریستوران میں بھی سرونگ سٹاف سبھی انڈین نوجوان طالب علم ہی تھے جن پہ ایک پَکّی عمر کا “سیانا کاں” منشی ٹائپ ہیڈ سرور متعین تھا۔ آئی پیڈ تھامے استقبالیہ ہیڈ سرور کو میز ریزرویشن کی درخواست فون پر ہی کر دی گئی تھی سو شکر ہے کہ پانچ سات منٹ کے انتظار کے بعد ہماری باری آ گئی۔ عبداللّٰہ اور راقم نے نیویارک رِب آئی سٹیک آرڈر کی جب کہ بیٹی اور اہلیہ نے برگر اور ننھے عمر نے ہمیشہ کی طرح فرنچ فرائز کا حکم جاری کیا۔ کچھ گھڑیاں انتظار کے بعد نہایت دہکتے اسودی پتھر پہ گوشت اور روغن سے بھری تھرتھراتی، مچلتی، چہکتی بھاپ اُڑاتی بیف سٹیک کے درشن کیا ہوئے، معلوم پڑا کہ جنت اگر کہیں ہے تو بس یہیں ہے۔ خواتین و حضرات! کالے پتھر کو ہائی ٹمریچر پہ خوب پَخا کر میڈیم رئیر سٹیک کو اُس پہ دھر کر آپ کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ آپ اُسے پتھر کی سِل سے اُتار کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیجئے اور حسب ضرورت تیز دھار چھری سے پارچہ پارچہ کیجئے اور کانٹا چبھو کر کاٹے گیے پیس کو واپس اُس کالے پَتھر کی دہکتی سِل پہ رکھ کر حسب ذائقہ مزید گَلا کر زینتِ دہن اور زیبِ شکم بناتے چلے جائیے۔
واللّٰہ! مکرر کہوں گا! جنت اگر کہیں تھی تو بس وہیں تھی۔
سٹیک بنانا ایک آرٹ ہے کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو گوشت خراب کرنے پہ وہی سزا ملنی چاہیے جو مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تاج محل بنانے والے مہندس و اَختر شناسوں کو دی تھی۔ اور میرا بس چلے تو اچھی سٹیک بنانے والے شیف کو شاہی خلعت کا حق دار قرار دے دوں۔ وہاں سے نکلے تو ایس-یو-وی کا ایندھن ٹینک امریکی گیلنوں کی بجائے کنیڈئین لیٹروں میں فُل کروایا۔ سستی گیسولین کی عادت امریکہ نے اس قدر پختہ کر چھوڑی تھی کہ کینیڈا آ کر نجانے کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار نگاہیں ڈالروں کے بڑھتے آنکڑوں کی جانب اٹھتی چلی جاتی تھیں۔ اس کے بعد سیدھا ہوٹل کی راہ لی اور کمرے میں پہنچتے ہی ڈھیلا ڈھالا ٹراؤزر شارٹس سے بدل کر خواب و خیال میں خود کو شاہ جہانی دربار کا خازن بننے سے روک نہیں پایا اور چند ایک خلعتیں اور شاہی انعام و اکرام بلیک سٹون سٹیک ہاؤس کو دے ڈالیں۔
خواتین و حضرات! کنیڈے کی تمام تر برائیاں ایک طرف مگر آج کی شام بلیک سٹون سٹیک ہاؤس کے نام رہی۔ سچ کہوں تو اب مجھے کینیڈا سے کوئی شکایت کوئی شکوہ باقی نہ رہا تھا۔ نیویارک رِب آئی سٹیک کے کناروں سے اتارا گیا مکھن نما روغن جسم و روح میں ایک ہی نعرہ بلند کیے ہوئے تھا۔
جئے کینیڈا!
جئے بلیک سٹون سٹیک ہاؤس!
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں