کچھ کہانیاں کبھی پرانی نہیں ہوتیں/ناصر عباس نیّر

’’عقیدہ آدمی کا ہوتا ہے، لاش کا نہیں‘‘ ، میں نے ۲۰۱۷ میں لکھی تھی جو ۲۰۱۸ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’راکھ سے لکھی گئی کتاب ‘‘ میں شامل ہوئی۔ اس کے کچھ اقتباسات پیش ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اس وطن عزیز میں جو کچھ ہوا، اسی سے ملتا جلتا، اس کہانی میں بھی ہوا ہے۔ دعا ہے کہ ہماری کہانیاں پرانی اور فرسودہ ہوجائیں، اور دنیا بدل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
عصر کا وقت تھا ۔نماز کے فوراً بعد خبر جنگل کی آگ سے بھی تیز ی سے بستی میں پھیلی ۔ سوائے دو لوگوں کے سب اشتعال میں آگئے۔ سب کا رخ قبرستان کی طرف تھاجو بستی سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔
چار اشخاص ایک قطار بنا کر کھڑے ہوگئے۔ ابھی آگے نہ جاؤ ، رکو۔ پہلے شیخ صاحب تقریر فرمائیں گے۔ وہ ان سب ہانپتے لوگوں سے کہہ رہے تھے جو ایک دوسرے سے پہلے پہنچنے کی کوشش میں تھے اور جن کے چہروں سے وہ ایمان افروزجلال نمایاں تھا ، جس سے یہ بستی والے چند سال پہلے تک خود واقف نہیں تھے۔
’’ہم نے مشکل سے اپنی بستی کو ان کے پلید وجود سے پاک کیا تھا۔ ہمارے بزرگ بڑے بھولے تھے ،انھیں یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ روئے زمین پر ان سے بڑھ کر کوئی وجود ناپاک نہیں۔ انھوں نے انھیں یہاںرہنے کی اجازت دیے رکھی،ان کے ساتھ میل جول رکھا۔انھیں اپنے گھروں میں آنے جانے، دکانوں سے سودا سلف خریدنے کی اجازت دیے رکھی۔اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ وہ خود کو ہم جیسا سمجھنے لگے۔اکڑ کر چلنے لگے۔
انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوادی۔ بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ ہمارے بڑے، بھولے تھے، یہ احمق نکلے۔عہدہ بڑ اہوتا ہے یا عقیدہ؟ آگے حساب عہدے کا ہوگا یا عقیدے کا؟ بھائیو،مت بھولو ،ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم لوگوں نے دنیا کی دولت ، طاقت ، عہدے ،اختیار کے لالچ میں آکر بد عقیدہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کیا کیا؟ ہم سب نے ،خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، ان سب کو اپنی بستی سے نکال دیا۔الحمد للہ ،ان کے گھروں کو آگ لگائی تاکہ ان کے وجود کی طرح نجس ملبے کا نشان بھی مٹ جائے۔ہم نے ان کے ٹھکانوں کی جگہ نئے گھر بنائے ، سوائے ایک گھر کے جسے عبرت کی خاطر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ان گھروں کی تقسیم پر ہم آپس میں لڑے،مقدمہ بازی بھی ہوئی۔یہ سب ان کی بد روحوں کے اثرات تھے کہ ہم میں اتفاق نہ ہوسکا۔ان کی دکانوں پر ہم میں جھگڑا ضرور ہوا، مگر خدا کا شکر ہے کہ دو جانوں کی قربانی کے بعد ہمیشہ کے لیے وہ جھگڑا ختم ہوگیا۔ اب وہاں اللہ کا گھر تعمیر کر دیا گیا ہے۔ان میں سے کچھ نے اپنا بد عقیدہ چھوڑ کر ہماری طرح صحیح العقیدہ ہونے کی پیش کش کی مگر ہم ان کے جھانسے میں نہیں آئے۔
ان کی ایک بڑی سازش کو ہم نے ناکام کیا۔ وہ اپنے چند لوگوں کو ہم میں شامل کرکے ،ہمارے عقیدے خراب کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے بروقت ان کی توبہ میں ان کی بد نیتی کو بھانپ لیا۔ لاریب ،خدا اپنے نیک بندوں کو گناہگاروں کی چالوں کو پہچاننے کی توفیق ارزاں فرماتا ہے۔ہم نے اب ان کی نئی چال کو بھی بھانپ لیا ہے۔ وہ ہمارے قبرستان میں اپنا مردہ دفن کرکے واپس بستی میں آنے کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔ اس سے زیادہ ان کے عقیدے کے غلط اور گمراہ ہونے کا ثبوت کیا ہوگا کہ انھوں نے رات کی تاریکی میں ہمارے قبرستان میں اپنے ایک پلید وجود کو دفن کیا۔ یہاں ہمارے بزرگوں کی نیک روحیں بستی ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں گے؟ آئو ، اس ناپاک وجود کو اس پاک مٹی سے نکال باہر کرو۔‘‘
شیخ صاحب کی تقریر ابھی جاری تھی کہ ایک بزرگ بولے۔’’ رات اور قبر سب عیب چھپاتی ہے، لیکن ایک بد عقیدہ وجود عیب تھوڑا ہے۔ پر ہم اسے کیسے نکالیں گے؟ اسے ہاتھ کیسے لگا سکتے ہیں؟‘‘
سب نے اس بزرگ کی تائید کی۔
’’اس کا بھی حل ہے‘‘۔ شیخ صاحب ترنت بولے۔’’ ہم اسے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ جوان لوگ کفن کو پکڑ کر کھینچیں گے۔بعد میں سات بار کلمہ شریف پڑھ کو خود کو پاک کر لیں گے‘‘۔
’’ہم اسے کہاں پھینکیں گے‘‘؟
’’کتوں کے آگے‘‘ ایک نوجوان جوش سے بولا۔
’’ہماری بستی کے کتے بھی ناپاک ہوجائیں گے‘‘۔ایک اور نوجوان زیادہ جوش سے بولا۔
اس پر قہقہہ پڑا۔
٭
اس کی جس کتاب کا جوصفحہ کھولتے ہیں، اس میں کفر ہی کفر ہے۔ ایک شیطان ہمارے درمیان موجود رہا ،اور ہم بے خبر رہے۔ اس کا دماغ آدمی کا تھا ہی نہیں۔اتنا کفر ایک شیطان کے ذہن ہی میں بھرا ہوا ہوسکتا ہے۔شیطان سے زیادہ ذہین کون ہوگا؟ ۔۔۔ذہین لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں ہوتا۔۔۔جو خود سوچتا ہے ،
وہ شر پھیلاتا ہے۔خلیفہ اور اس کے دربار میں موجود عالموں کے ہوتے ہوئے جو سوچتا ہے ، وہ شر پھیلاتا ہے۔ اس کے شر سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے سوچنے ہی نہ دیا جائے۔۔۔۔ سنا ہے ایک دور کے ملک میں ایسے آدمی ہیں جو اسی کی طرح کی باتیں کہتے ہیں۔آپ سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ یہ بھی وہیں سے آیا ہوگا یا اس نے وہاں کی سیر کی ہوگی،جبھی وہ ہم سے مختلف تھا۔ ہم نے غور کیا ہی نہیں کہ وہ کس کس سے ملتا تھا ،کہاں کہاں جاتا تھا۔ ہمارے خلیفہ نے بھی تو ظلم کیا ، سب کے لکھنے پڑھنے کا انتظام نہیں کیا۔ بس چار آدمی پڑھ لیے، باقی سب ان کی مجلس میں جا کر ان کی باتیں سن لیتے تھے۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں خلیفہ کے لیے یہی مناسب تھا۔ بس اپنا ایک خاص آدمی وہاں بٹھا دیا۔سب معلوم ہوگیا کہ عالم کیا سوچتے ہیں،عوام کس بات کی تائید ،کس کی تردید کرتے ہیں۔۔۔۔ اگر وہ چوک والا واقعہ نہ ہوتا تو اس کی حقیقت کا پتا کس کو چلنا تھا۔ویسے خلیفہ کی حکمت کی داد دینی چاہیے۔ اسے ایک عام سی بات سے ،اس شیطان کے ذہن میں چلنے والی خاص بات کا پتا چل گیا۔ خلیفہ اگر اشارے نہ سمجھ سکے تو اسے خلیفہ کون کہے اور کیسے وہ خلیفہ رہ سکے۔۔ابھی کل کی بات ہے ،میں نے اس کی ایک کتاب کہیں سے حاصل کی۔آپ ٹھیک فرماتے ہیں کفر کی طرف ہر آدمی کھنچتاہے۔۔مجھے معلوم تھا کہ اس کی سب کتابوں میں کفر کی باتیں ہیں، مگر میرا دل ۔۔۔یا شاید میرا ذہن ان کی طرف کھنچا۔۔شیطان کے فریب میں ہم ایسے ہی تو نہیں آتے۔۔۔۔اس کی کتاب میں ایک حکایت تھی۔ ’’ ایک کوے نے دوسرے کوے سے پوچھا، ہم سب کالے کیوں ہیں؟ دوسرے کوے نے کہا: تو ضرور کسی ایسے دیس سے ہوکر آیا ہے جہاں سفید کوے بستے ہیں۔ پہلا بولا: تجھے کیسے معلوم ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا: دوسروں کو دیکھے بغیر ہمیں اپنی اصل کا پتا نہیں چلتا۔ پہلے نے پوچھا، یہ علم تجھے کیسے حاصل ہوا؟ دوسرا بولا: میں اس دیس سے ہو کر آیا ہوںجہاں کے سب کوے سفید ہیں، مگر میں چپ رہا۔پہلا اس بات پر بھی چپ نہ رہ سکا۔پوچھا: تو اتنی بڑی بات جان کر کیسے چپ رہا؟ اس پر دوسرے کوے نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی پھر گویا ہوا: میں نے پہلے آدھی بات بتائی۔اب پوری بات سن۔ یہ سچ ہے دوسروں کو دیکھے بغیر ہمیں اپنی اصل کا پتا نہیں چلتااور یہ بھی سچ ہے کہ دوسروں کو دیکھ کرہم اپنی اصل پر شر مندہ بھی ہوتے ہیں، جیسے تو‘‘۔وہ ہمیں اپنی اصل پر شرمندہ کرتا تھا۔ایسے بد طینت شخص کی لاش کو قبر سے نکال کر ہم نے نیکی کا کام کیا۔خلیفہ کے حکم سے اس کی ساری کتابیں جمع کی جارہی ہیں۔ ان کے بارے میں جلد ہی فیصلہ ہوگا۔
٭
ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ آپ مجھ سے اس لاش کی منہ  مانگی قیمت وصول کرلیں۔
یہ تمھارا کیا لگتا ہے؟
کچھ نہیں، مگر بہت کچھ۔
تم اس بستی کے ہو ،ہم تمھاری سات نسلوں کو جانتے ہیں، تمھیں اس سے کیا ہمددری ہے؟
یہ آدمی نہیں لاش ہے۔ عقیدہ آدمی کا ہوتا ہے، لاش کا نہیں۔
تم گمراہ کررہے ہو، یہ لاش اسی آدمی کی ہے جو بد عقیدہ تھا ۔
ویسے تم اس کا کیا کرو گے؟
میں اسے کسی ہسپتال کو دے دوں گا ،جہاں طب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طالب علموں کا بھلا ہوگا۔
تم اگر اس بستی کے نہ ہوتے تو تمھیں اس قبر میں ا س کی جگہ دفن کردیتے، اسی وقت۔ شیخ صاحب گرجے۔ اس کے پلید وجود کو ہمارے ہم عقیدہ لوگ ہاتھ لگائیں گے؟ تم ہوش میں ہو؟
تم ایمان کے جس درجے پر اس وقت فائز ہو مجھے زندہ اس قبر میں گاڑ سکتے ہو، مان لیا۔ لیکن یاد رکھو ، تم اسی طرح کی قبر میں یہیں کہیں آئو گے۔
لیکن میں بد عقیدہ نہیں ہوں۔
اس کا فیصلہ تم نہیں ، خدا کرے گا۔
خد انے ہی ہمیں نیکی پھیلانے اور برائی روکنے کا حکم دیا ہے۔
ایک لاش کیا برائی پھیلا سکتی ہے؟
لاش ہے تو آدمی کی،جس کا عقیدہ۔۔۔۔؟
تمھیں معلوم ہے ،جس قبر پر تم کھڑے ہو کس کی ہے؟
کس کی ہے؟
ذرا قبر کی تختی پڑھو۔ یہ اسی کارشتہ دار ہے جو پچاس سال پہلے مرا۔ اور بھی قبریں یہاں ان کی ہیں۔
ہم سب کو نکال پھینکیں گے۔کچھ پرجوش جوان بولے۔
نکال پھینکو۔ اس سے بھی آسان حل ہے۔ ساری زمین کو بھی صحیح العقیدہ بنالو۔ وہ بد عقیدہ کو قبول ہی نہ کرے تمھاری طرح۔
یہ چار جماعتیں پڑھ کر پاگل ہوگیا ہے۔ بھائیو، نکالوا س لاش کو اور اس کی بستی کے کتوں کے آگے پھینک آئو۔
کچھ لوگ اس نوجوان کی طرف بڑھے۔ایک نے دھکا دیا۔ دوسروں نے اسے ٹھوکریں ماریں۔
ناصر عباس نیّر
۲۸ ستمبر ۲۰۲۴ء

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply