مصنوعی ذہانت بمقابلہ دیسی ذہانت/سعدیہ بشیر

مصنوعی ذہانت کی طرح مصنوعی اقدار بھی دو طرح کی ہوتی ہیں، ہمارے ہاں اعلی مصنوعی اقدار کا ایک سیدھا سادہ سا فارمولا ہے۔ جسے جمع تفریق کی قطعی ضرورت نہیں اور اس کو استثنی کا نام دیا جاتا ہے۔ استثنی کوایک طرح سے ہم نے پارس پتھر کا درجہ دے رکھا ہے۔ استثنی نامی پارس پتھر نے جس جس کو جب جب بھی چھوا، اسے ایسا سونا بنا دیا، جس کی قیمت کسی دور میں کم نہیں ہو سکتی۔ ایسے “سونے” کو ہر گناہ، ہر لغزش، ہر غلطی دھونے اور اس سے رجوع کرنے کا موقع ملتا بھی ہے اور دلوایا بھی جاتا ہے۔

استثنی کا یہ پارس پتھر لوگوں کو خون خرابے اور قتل و غارت کی تلقین کرتا ہے۔ یہ تلقین بھی عام لوگوں کے آنسوؤں، آہوں اور دکھ درد کو ٹشو پیپرز بنا کر کی جاتی ہے اور اس کی مدد سے جتھا مضبوط کیا جاتا ہے۔ مصنوعی اقدار وہ منافقت ہے جو دوسروں کو غلام بنانے پر کام کرتی ہیں۔ وہ منافقت جو مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹے پر والی مکھیوں کو بھی لپیٹ لیتی ہے اور دیہاڑی دار مزدور سے لے کر بانجھ پن سے منسلک تمام پرزے گھستے گھستے مصنوعی اقدار کے دامن سے لپٹ جاتے ہیں۔

جون ایلیا نے انھی مصنوعی اقدار کے متعلق لکھا تھا کہ “میں اور میرا ہم زاد اس دور کے ایک غالب رحجان اور میلان کے باعث بہت ہمت شکن تشویش اور بہت مایوس کن خدشوں میں مبتلا ہیں۔ ہمارے اردگرد سانس لینے والے جاندار، ہماری تشویش اور خدشوں کو شاید وہم اور مالیخولیا خیال کریں لیکن ان کے کسی خیال سے ہمارے مسئلے اور معاملے کی سنگینی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بیسویں صدی کا یہ آخری عشرہ اپنے مزاج میں انتہائی وحشیانہ دور ثابت ہو رہا ہے۔ اس حقیقت کا ثبوت وہ نسلی، لسانی، سیاسی اور مذہبی تعصبات ہیں جو مشرق و مغرب کے اعصاب پر بری طرح طاری ہیں۔ اس صورت حال کے ذمہ دار مہذب انسانیت کے سر دھرے ہیں۔ ان ارجمند سر دھروں نے ذہنی توازن کھو دیا ہے اور بری طرح کھو دیا ہے”۔

اس کے نتیجے میں فکر و تدبر سے عاری مصنوعی پن نے جگہ گھیر رکھی ہے۔ دشمنی اہل ہنر میں منہ پہ چڑھنے والے ہی دلوں پر براجمان ہیں۔ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے اور برابر اس پر کام ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اے آئی وقت کی سب سے طاقتور ٹیکنالوجیز میں سے ایک ہے، لیکن اس کے پیش کردہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں پہلے اس کے خطرات کو کم کرنا چاہیے۔

امریکی کانگریس نے اپنی طرف سے اوپن اے آئی کے سی ای او، سیم آلٹ مین کو چیٹ جی پی ٹی کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے کے لیے طلب کیا۔ جس میں آلٹ مین نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ ان کی صنعت کو حکومت کے ذریعے کنٹرول کیا جائے کیونکہ اے آئی تیزی سے طاقتور، ہوتا جا رہا ہے۔

محقق کارلوس اگناسیو گوتیریز نے بتایا کہ اے آئی کے سامنے پیش آنے والے ایک بڑے چیلنج میں سے ایک یہ ہے کہ ماہرین کی کوئی ایسا ادارہ یا یونیورسٹی نہیں ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اسے کیسے ریگولیٹ کیا جائے۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا ہمیں غیر انسانی ذہنوں کو تیار کرنا چاہیے جو آخر کار ہم سے زیادہ ذہین ہوں، ہم سے آگے نکل جائیں، ہمیں بے روزگار اور غیرمتعلقہ کرکے ہماری جگہ لے لیں؟ انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا ہمیں اپنی تہذیب پر کنٹرول کھونے کا خطرہ مول لینا چاہیے؟ ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعی ذہانت کو قابو کرنے کے لیے دنیا کی طاقتور اقوام سنجیدہ ہیں لیکن ہمارے ترقی پذیر معاشرہ میں مصنوعی شعور اور مصنوعی اقدار کا “دیسی خود ساختہ “پھیلاؤ روکے سے روکنا مشکل ہے۔ عقل کل کے داعی ہر شعبہ زندگی میں یک طرفہ فیصلوں پر داد کے طالب ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ان فیصلوں کی تصاویر نہیں بنائی جا سکتی وگرنہ سمندر میں بھی پہاڑوں کا سلسلہ جاری کیا جا سکتا ہے اور ہاتھ ہلاتے لوگ دنیا کے کسی بھی خطہ سے اٹھا کر جلسہ گاہ میں بھرے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مصنوعی ذہانت کی کبھی اور کہیں بھی کمی نہیں رہی۔ یہ خود رو فصل ہر موسم اور ہر دور میں خوب پھلتی پھولتی ہے۔ یہ چراغ پھونکوں سے جلتے ہیں اور گھروں سے لے کر رشتے اور تعلقات میں دراڑ ڈالنی اور انھیں کمزور بنانے اور توڑنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت جتنا بھی طاقتور ہو جائے، انسانی دماغ کو جس قدر مشقت سے بچائے لیکن انسانی ذہن کا کینہ اور تعصب دور کرنا کسی طور اس کے بس میں نہیں۔ سالہا سال سے فکس کیے گئے اذہان مصنوعی ذہانت کی ترتیب پر نظر دوڑانے کے قائل نہیں۔ جگر مرادآبادی نے صحیح تشخیص کی ہے کہ

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

جون ایلیا کے الفاظ میں”اس عہد کے شائستہ اور شریف ذہنوں کا جو سب سے بڑا فرض ہے۔ وہ تعصبات کے عالمی رحجان کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ یہ جنگ بہ یک وقت شعور و جذبے کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ اگر یہ جنگ نہ کی گئی تو انسانیت کا تمام تر سرمایہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ انسان کی لاکھوں برس کی علمی، فنی اور تہذیبی کمائی نیست و نابود ہو کر رہ جائے گی اور یہ کہکشاؤں کا، کائنات کا شاید سب سے بڑا حادثہ، سب سے بڑا آخری المیہ ہوگا”۔

ہم نے اگلی صدی کا عشرہ طے کر لیا ہے لیکن شعور و تدبر سے عاری اذہان کی فصل بوتے چلے جا رہے ہیں۔ نقصان پہلے سے بڑھ چکا ہے۔ اخلاقی سرمائے کو دیمک لگ چکی ہے۔ کہکشاں پگھل رہی ہے اور انسان جل رہا ہے۔ خوشی اور اطمینان یہ ہے کہ پریم کوہلی اور صوفی منش تہذیب کے رکھوالے یہ آگ بجھانے میں سرگرداں ہیں۔ یہ روشنی پر امید ہے کہ انسانیت کی شمع روشن رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply