”ستر سال میں میری گردن کبھی نہیں جھکی
اور نہ میں نے کبھی ہاتھ پھیلایا ہے، گورا سرکار بھی میرے گھٹنوں پر ہاتھ لگاتی تھی(فضل بخش نے حقے کی نے منہ سے نکالتے ہوئے کہا) اب گردن میں اکڑ اتنی ہے کہ خدا کے سامنے بھی نہیں جھکتی“
کچھ بناوٹی اور کچھ پچھتاوے کے آنسو فضل بخش کی آنکھوں میں تیرنے لگے
”چوہدری فضل بخش میں تو کہتا ہوں کہ چھوٹے چوہدری کو مدرسے ڈال دے، اللہ بخشے چاچا امام بخش جب حج کر کے واپس آئے تھے تو کہتے تھے
جسے قرآن منہ زبانی یاد ہو، اللہ اسکی سات نسلوں کو بخش دیتا ہے“ رحمتے نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
”رحمتو تو چپ کر، جا چلم میں آگ ڈال، اب لوگ کیا کہیں گے کہ چوہدری فضل بخش کا پتر مولوی بن رہا ہے،شریکوں میں ناک کٹوانی ہے“
رحمتے کو مزید بولنے کی مجال نہ تھی، وہ چپ اٹھا اور چلم پر آگ رکھنے لگا۔
لیکن اسکی بات چوہدری فضل بخش کے دل میں بیٹھ گئی تھی۔
دس سال کی عمر، سفید رنگ اور نرم چمڑی والا احمد خان جسے سب چھوٹا چوہدری کہتے تھے
گوکہ سارا دن نوکر اسکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے لیکن احمد خان تھا کہ بات کرنے کی بھی ہمت نہ کر پاتا تھا اور نہ کسی کو حکم دے پاتا
اپنے ابا چوہدری فضل بخش کو دیکھتا تو سانس کہیں حلق میں ہی اٹک جاتی
اگلے ہفتے، منگل والے دن چوہدری گھر آیا اور چودھرانی کے پاس بیٹھتے ہوئے احمد خان کو بھی بلا لیا
”کرماں والیے صبح بدھ ہے، پیر نورالدین کہتے تھے کہ ہر نیک کام اسی دن کو کرتے ہیں کیونکہ بدھ کو ہی سدھ ہوتا ہے
تو اسکے کپڑے باندھ دے، کل صبح ہی رحمتو اسے شہر کی اک بڑی مسجد میں چھوڑ آئے گا“
احمد خان اسی طرح دبکا کھڑا تھا
”پتر دھیان سے قرآن کو پڑھنا، تو پڑھ گیا تو میں بھی بخشا جاؤں گا، نہیں تو شریکوں اور ان کمی کمینوں کے ساتھ دوزخ میں ہی جلتا رہوں گا“
بدھ کی رات گزر گئی مگر احمد خان کی آنکھ نہ لگی، ککڑ نے بانگ دی تو رحمتو بھی ٹانگہ لے کر چوہدری کے گھر آ گیا۔۔
چودھرانی نے اپنے ہاتھوں سے احمد خان کو نہلایا نوکرانیوں نے کپڑے باندھ دئیے، اور گٹھڑی میں گڑ اور چاول بھی رکھ دئیے، اک پتیلی دیسی گھی کی بھی۔
ٹانگے پر بٹھاتے ہوئے چودھرانی نے روتے ہوئے احمد خان کو سینے سے لگا لیا
چودھرانی احمد خان کو یوں بھیجنے کے حق میں نہ تھی
لیکن کسے جرات تھی جو چوہدری فضل بخش کے سامنے آنکھ اٹھا سکے۔
کھلے کپڑے، لمبی داڑھیوں والے بے ہنگم سے چہرے جن کے منہ سے ایسی بو آتی تھی کہ جیسے ان کے پیٹ میں کوئی مردار ہو جسے گرجھیں کھا رہی ہوں
احمد خان خود کو ان لوگوں میں پا کر پہلے سے زیادہ سہم گیا تھا اسکے سامنے یہاں کسی کی گردن نہیں جھکتی تھی اور نہ کوئی ہاتھ باندھتا تھا
مجال ہے جو اسے کسی نے یہاں چھوٹا چوہدری کہا ہو
رحمتو نے اک بڑے مولوی صاحب کے کانوں میں کچھ کھسر پھسر کی اور گاؤں واپس چلا گیا
رحمتو کے جانے کے بعد احمد خان کو ایسے لگا جیسے یہ دیواریں اسے نگل لیں گی اور یہ مینار اس پر گر پڑیں گے۔
دوپہر کو برآمدے میں دستر خواں بچھا دیا گیا، دال کا اک پتیلا اور باس چھوڑتی روٹیاں
جنہیں منہ لگانا تو درکنار دیکھنے سے بھی ابکائیاں آنے لگتی تھیں
احمد خان کو اماں کا گڑ اور چاول یاد آ گئے لیکن جب اس نے دیکھا تو اس کی گٹھڑی سے سوائے کپڑوں کے سب غائب تھا
شائد وہ کسی بڑی داڑھی والے کے پیٹ کی جہنم کو سرد کرنے کے کام آ گئے تھے۔
تین ہفتے گزر گئے، اک دو بار رحمتے نے چکر لگایا لیکن احمد خان کو اسکے اندر کی آگ اسے بھسم کر رہی تھی
پچھلی رات وہ جب سونے کے لئے لیٹا تو اسکی کراہ نکل گئی، نماز کی جماعت میں شامل نہ ہونے پر لگنے والے ڈنڈے اس قدر سفاک تھے کہ اس سے سیدھا لیٹا نہ گیا۔
رات کو اچانک جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اک بدہئیت مولوی اس کے پاس لیٹ کر اس کی رانوں پر ہاتھ پھیر رہا ہے
احمد خان نے چیخنا چاہا تو اسنے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا، ہاتھ اتنا زور سے دبا کہ اس کی سانس بند ہونے لگی
پھر اچانک کسی نے چراغ کو پھونک دیا اور وہ بدہئیت وجود پرچھائی میں بدلا اور غائب ہو گیا۔
احمد خان کے منہ سے چیخ نکلی، بڑے مولوی صاحب بھی آ گئے اور باقی بچے بھی جاگ اٹھے
احمد خان تھر تھر کانپ رہا تھا اور اس میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ بتا پاتا کہ وہ کس آفت سے بچا ہے۔
بڑے مولوی صاحب نے حکم دیا کہ احمد خان کا بستر انکے کمرے میں لگا دیا جائے
اگلی صبح سارے لڑکے احمد خان کو عجیب نظروں سے دیکھتے اسے دیکھ کر ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے
اگلی رات احمد خان جب سونے لگا تو مولوی صاحب نے حکمانہ انداز میں کہا کہ ”میرے پاؤں دباؤ“
احمد نے ہمیشہ نوکروں کو دیکھا تھا جو چوہدری فضل بخش کے پاؤں دباتے تھے۔
احمد کے نازک ہاتھ مولوی صاحب کے پاؤں پر پر کانپ رہے تھے
مولوی صاحب نے احمد کو ہاتھ سے پکڑا اور لحاف میں کھینچ لیا۔۔۔۔چراغ پہلے سے ہی بجھا ہوا تھا
اگلی صبح جب مسجد میں اذان ہوئی اور مولوی صاحب نے غسل کے لئے صابن اٹھایا تو احمد خان اپنے بستر پر نہیں تھا، بستر کی چادر پر کچھ خون کے نشان تھے۔
نوکرانیوں نے دودھ میں متھنی ڈالی، ککڑ نے بانگ دی تو چودھرانی کی بھی آنکھ کھل گئی
کھٹ کھٹ دروازہ کھٹکا جیسے کوئی پتھر مار رہا ہو
اک نوکرانی نے دروازہ کھولا تو دروازے پہ کھڑا احمد خان دھڑام سے نیچے گر گیا، نوکرانی کی چیخ پر چودھرانی بھاگتی ہوئی آئی
احمد خان بے ہوش پڑا تھا اور اسکی شلوار خون سے لت پت تھی
کسی نے چوہدری فضل بخش کو بھی جگا دیا تھا
جیسے ہی چوہدری فضل بخش ،احمد خان کے قریب گیا تو چودھرانی اس پر جھپٹ پڑی
وہ فضل بخش کی بیوی نہ تھی بلکہ اک ماں تھی جس کے ہاتھوں میں چوہدری فضل بخش کا گریبان تھا
”تم نے اپنی جنت کے لئے میرے بیٹے کی زندگی کو جہنم بنا دیا“
چوہدری فضل بخش گردن جھکائے کھڑا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں