نوٹ ( کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ہیگل کے حوالے سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ہیگل مثالی فلسفی تھے یا کہ مادی؟ تو ایک دوست کے اسرار پر یہ ایک چھوٹا سا مکالمہ آپ سب کی خدمت میں پیش ہے ۔ یہ ایک فرضی مکالمہ ہے کوئی دوست اس کو ذاتی طور پر نہ لے خاص طور پر میرے فلسفہ پڑھنے والے بھائی)
ہراکلیٹس ہراک :
منور حسین صاحب، آپ جتنی بھی کوشش کریں، ہیگل کو ایک مادی فلسفی ثابت نہیں کر سکتے۔ اگر آپ نے ہیگل کی Phenomenology of Spirit کو پڑھا ہے، تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک مثالی فلسفی تھے۔ ان کا پورا فلسفہ “مطلق روح” اور “مطلق خیال” کے گرد گھومتا ہے۔ وہ دنیا کو روحانی اور خیالی تصورات کے زاویے سے دیکھتے تھے، نہ کہ مادے کے۔ جیسے کہ انہوں نے Phenomenology of Spirit میں لکھا:
“جو کچھ حقیقی ہے، وہ خیال میں موجود ہے، اور مادہ اس خیال کا محض ایک عکس ہے۔”
(Hegel, Phenomenology of Spirit, pg. 10)
یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ ہیگل مادی حقائق کے بجائے خیالی اور روحانی حقیقت کو فوقیت دیتے ہیں۔
منور حسین (اعتراض کرتے ہوئے):
آپ کی یہ دلیلیں مجھے متاثر نہیں کرتیں، ہراکلیٹس صاحب! میں لینن کی Philosophical Notebooks سے اقتباسات پیش کروں گا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیگل دراصل ایک مادی فلسفی تھے۔ لینن نے لکھا:
“ہیگل کا فلسفہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے قریب ہے۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ حقیقت مادے میں ہے اور مادہ ہی وہ اصل حقیقت ہے جو جدلیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ترقی کرتا ہے۔”
(Lenin, Philosophical Notebooks, pg. 177)
یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ ہیگل کا فلسفہ مادی تھا، اور انہوں نے تضاد اور تبدیلی کے ذریعے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی، جیسے مارکس نے کیا۔ مزید یہ کہ ہیگل خود بھی تضادات کے ذریعے دنیا کی حرکت کو تسلیم کرتے تھے۔ ان کا اقتباس دیکھیے:
“وجود اور عدم کے درمیان تضاد سے ہی سب کچھ پیدا ہوتا ہے؛ یہ وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعے ہر شے اپنے وجود میں آتی ہے۔”
(Hegel, Science of Logic, Vol. I, pg. 123)
یہاں ہیگل کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ تضاد اور جدلیاتی عمل کو مادی دنیا کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، جیسے کہ مارکسسٹ فلسفے میں کیا گیا۔
ہراکلیٹس ہراک :
آپ تضاد اور جدلیات کا حوالہ دے رہے ہیں، لیکن ہیگل نے تضادات کو خیالی اور روحانی سطح پر دیکھا، نہ کہ صرف مادی سطح پر۔ اگر آپ تاریخ کو دیکھیں، تو ہیگل نے تاریخ کو ایک جدلیاتی عمل کے طور پر بیان کیا، جس میں مادی حالات کا عمل بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ خیال مطلق روح اور خیالات پر مبنی تھا، نہ کہ مادے پر۔
ہیگل Lectures on the Philosophy of History میں لکھتے ہیں:
“تاریخ ایک مسلسل جدلیاتی عمل ہے، جہاں ہر حقیقت خود کو مظہر کرتی ہے اور نئی حقیقت میں بدلتی ہے۔”
(Hegel, Lectures on the Philosophy of History, pg. 58)
یہاں ہیگل تاریخ کو جدلیاتی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن ان کا فلسفہ خیالی اور روحانی حقیقت پر مرکوز ہے۔
منور حسین (جوابی اعتراض کرتے ہوئے):
آپ فلسفے کو پیچیدہ بنا رہے ہیں، ہراکلیٹس صاحب! لینن نے کہا تھا کہ فلسفے کا مقصد دنیا کو بدلنا ہے، اور وہ ہیگل کو جدلیاتی مادیت کی بنیاد پر پڑھتے تھے۔ لینن نے ہیگل کو اس زاویے سے دیکھا کہ مادی تضادات سماجی ارتقا کا باعث بنتے ہیں۔
ہیگل نے خود بھی قدرت اور مادی دنیا کی حرکت اور ترقی کو تسلیم کیا:
“قدرت اور مادی دنیا میں بھی ترقی اور تبدیلی کا وہی اصول کام کرتا ہے جو روحانی دنیا میں ہے؛ ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے اور تضادات کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔”
(Hegel, Encyclopaedia of the Philosophical Sciences, Part II, pg. 211)
کیا یہ اقتباس مادی فلسفے کی طرف اشارہ نہیں کرتا؟
ہراکلیٹس ہراک :
یہاں آپ ایک اہم نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہیگل کی قدرتی دنیا اور مادی تبدیلی کی وضاحت دراصل ان کے مطلق خیالی فلسفے کا حصہ ہے، جہاں مادی دنیا محض خیالی حقیقت کا عکس ہے۔ ہیگل کا مرکزی نظریہ ہمیشہ روحانی اور مثالی رہا ہے۔ یہاں میں ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں:
“مطلق حقیقت ایک خیال ہے، اور ہر مادہ اسی خیال کی مظہر ہے۔”
(Hegel, Science of Logic, Vol. I, pg. 25)
ہیگل کی مادی دنیا کی حرکت دراصل ان کے خیالی اور روحانی فلسفے کا ہی حصہ ہے، نہ کہ ایک حقیقی مادی فلسفہ۔
منور حسین (غصے میں):
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لینن نے ہیگل کو غلط سمجھا؟ لینن ایک عظیم انقلابی تھے! فلسفے میں ان کی گہرائی کو آپ جیسے لوگوں نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔ میں ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں:
“ہیگل کا فلسفہ مادی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے، اور وہ مادی تضادات کے ذریعے سماجی ارتقا کو اہمیت دیتے ہیں۔”
(Lenin, Philosophical Notebooks, pg. 185)
کیا یہ اقتباس مادی فلسفے کی طرف اشارہ نہیں کرتا؟ اور آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مارکس نے ہیگل کے خیالات کو مادی فلسفے میں تبدیل کیا؟ پھر ہیگل اور مارکس میں فرق کیا تھا؟
ہراکلیٹس ہراک (پرسکون انداز میں):
منور حسین صاحب، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ لینن کے خیالات غیر اہم ہیں، لیکن فلسفیانہ طور پر، ہیگل کو مادی فلسفی کہنا ان کی اصل تحریروں کے ساتھ انصاف نہیں۔ اگر آپ Science of Logic اور Phenomenology of Spirit کو غور سے پڑھیں، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہیگل کا فلسفہ خیالی اور روحانی حقیقت پر مبنی ہے۔
مارکس اور ہیگل میں واضح فرق یہ ہے کہ ہیگل کا فلسفہ مثالی اور روحانی تھا، جبکہ مارکس نے اسے مادی تضادات پر مبنی فلسفے میں تبدیل کیا۔ مارکس نے خود کہا تھا:
“میں ہیگل کو سر کے بل سے پاؤں کے بل کھڑا کرتا ہوں۔”
(Karl Marx, Capital, Vol. I, pg. 102)
اگر ہیگل اور مارکس دونوں مادی فلسفی ہوتے، تو مارکس کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
منور حسین (غصے سے):
یہ سب فلسفیانہ بکواس ہے! مارکس اور ہیگل میں کوئی بڑا فرق نہیں، سوائے اس کے کہ مارکس نے اسے زیادہ عملی بنا دیا۔ بس اتنا فرق ہے! آپ فضول میں باتیں گھما رہے ہیں۔
ہراکلیٹس ہراک (مسکراتے ہوئے):
منور صاحب، یہ “بس اتنا” نہیں، بلکہ بہت بڑا فرق تھا۔ ہیگل کا فلسفہ مثالی تھا، جس میں روح اور خیال کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ مارکس نے تو اس فلسفے کی بنیاد پر ایک نیا نظریہ بنایا۔ ہیگل کا فلسفہ مادے کے بجائے خیال پر مبنی تھا، جبکہ مارکس نے مادی جدلیات کو اپنایا اور کہا کہ مادی تضادات سماجی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔
منور حسین (گالیاں دیتے ہوئے):
آپ سب بکواس کر رہے ہیں! مجھے آپ کی فلسفیانہ باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں! آپ کے یہ شیلنگ، فشٹے، اور ٹیلر سب جاہل ہیں۔ ان سب کے فلسفے نے دنیا میں کچھ نہیں بدلا! لینن نے سچ کہا تھا، اور آپ سب غلط ہیں!
ہراکلیٹس ہراک :
آپ کی جذباتی حالت کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ آپ فلسفے کی اصل گہرائی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہیگل کا فلسفہ خیالی اور روحانی حقیقتوں پر مبنی تھا، اور آپ اس کی پیچیدگی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ اگر آپ واقعی فلسفے کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنی ضد چھوڑ کر ہیگل، کانٹ، اور شیلنگ جیسے فلسفیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
منور حسین (غصے میں):
یہ سب فلسفیانہ بکواس ہے! میں ہی صرف ہیگل کو ٹھیک سمجھا ہوں میرے نزدیک کسی فلسفی کی کوئی حثیت نہیں ہے ۔
ہراکلیٹس ہراک (مسکراتے ہوئے):
آپ کے خیال میں اگر ہیگل مادی فلسفی تھے، تو پھر وہ فلسفی جیسے برٹرینڈ رسل اور کارل پوپر درست کہتے تھے، جب وہ ہیگل کے فلسفے کو مبہم اور غیر منطقی قرار دیتے تھے۔ ( نوٹ یہ صرف حوالے کے طور پر پیش کر رہا ہوں)
برٹرینڈ رسل نے لکھا:
“ہیگل کا فلسفہ غیر واضح اور متضاد ہے، اور اس کا حقیقی معنی سمجھنا مشکل ہے۔”
(Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, pg. 746)
اور کارل پوپر نے ہیگل کے فلسفے کو تنقید کا نشانہ بنایا:
“ہیگل کا فلسفہ ایک قسم کی لغوی خیالیات ہے، جس کا کوئی عملی اطلاق نہیں۔”
(Karl Popper, The Open Society and Its Enemies, pg. 257)
یہ فلسفی ہیگل کے مبہم خیالات کو اس لیے تنقید کا نشانہ بناتے تھے کیونکہ ان کے خیالات کو دونوں، مادی اور مثالی زاویے سے پڑھا جا سکتا تھا، لیکن اصل میں ہیگل کا فلسفہ مثالی ہی تھا۔
منور حسین (غصے شدید غصے میں گالیاں دیتے ہوئے )
میں کسی رسل اور پاپر کو فلسفی نہیں مانتا یہ سب جاہل تھے مجھے ان سب سے زیادہ جانتا ہوں ہیگل کو آپ یوں سمجھ لیں کہ ہیگل کی روح میرے اندر سرایت کر چکی بے ۔
ہراکلیٹس ہراک (مسکراتے ہوئے):
اچھا تو پھر آپ کا “جیوانی کروچے” اور “پیٹر سنگر” کے بارے کیا خیال ہے کیا یہ دونوں بھی جاہل ہیں ؟ میں ان دونوں کے اقتباس پیش کر دیتا ہوں جہاں انہوں نے ہیگل کو مادی نہیں بلکہ آئیڈیالسٹ فلسفی کہا ہے ۔
ہیگل کا فلسفہ مثالی ہے؛ وہ مطلق روح کی فوقیت کو تسلیم کرتا ہے۔”
(Giovanni Croce, What is Living and What is Dead in Hegelian Philosophy, pg. 85)
ہیگل کا فلسفہ خیالات کی برتری کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ مادے کی۔”
(Peter Singer, Hegel: A Very Short Introduction, pg. 63)
اب بھی آپ کو کچھ کہنا ہے یا پھر اگر آپ خود ہیگل ہے تو میں آپ کی بات مان لیتا ہوں ؟
منور حسین (غصے شدید غصے میں گالیاں دیتے ہوئے )
آپ خود بھی جاہل ہیں اور یہ جتنے فلسفیوں کے آپ نے نام لئے یہ سب بھی جاہل ہیں اور بکواس کرتے ہیں میں آپ سے کوئی مکالمہ نہیں کرنا چاہتا ۔
اختتامی نوٹ :
میرا مقصد کسی کو نیچا دکھانا نہیں تھا بلکہ ایک مکالمے کی فضا قائم کرنا تھا جہاں پر اگر ہمارا اختلاف ہو بھی جائے تو ہم تہذیب اور شائستگی سے بات کر سکیں اور کسی ایک فلسفی کی محبت میں اتنا پاگل نہ ہو جائیں کہ مکالمے کا باب ہی بند کر دیں ۔اس کے بعد بھی کسی دوست نے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہے کہ ہیگل ایک مادی فلسفی تھا تو یہ اس کی مرضی ہے اور حق ہے ۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں