مرد مزدور مسافر/عبدالرحیم خان

شام کا وقت ہے ٹریفک زیادہ ہوسکتی ہے، سوچ کر جلد گھر سے نکل آیا، چیک اِن ہوچکا ہے، ویٹننگ ایریا میں بیٹھا ہوں۔ آس پاس میں بہتیرے لوگ میرے ہی جیسے فلائٹ بورڈ کے انتظار میں ہیں۔  کچھ اونگھ رہے ہیں، چند ایک اپنے اپنے لیپ ٹاپ و موبائل میں لگے ہیں، کئی  ایک ویڈیو کال پر اپنی فیملیز کو ایئرپورٹ اور گلاس کے دوسری طرف کھڑی فلائٹس دکھا رہے ہیں۔ میری بالکل بغل والی کرسی پر بیٹھا ایک ادھیڑ عمر شخص اودھی میں غالباً اپنی بیوی سے بات کر رہا ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے بعض لوگ مصری یا سیرین سمجھ لیتے ہیں، شاید اسے بھی ایسا ہی کچھ مغالطہ ہوا ہو اور اسی لئے بنا تردد میرے پاس میں بیٹھا باتیں کر رہا ہو۔ ۔ بالکل پاس ہونے کیوجہ سے آواز کافی حد تک کلیئر اور سمجھنے لائق ہے  ۔بہت ساری اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے درمیان کچھ یوں بھی اس نے کہا۔ ۔ “تھک گئے ہیں  اب، اب مہنت مجوری والا کام نائی ہوئی پاوت ہے، شوگروا کے ناتے اور جلدی تھک جائت ہن، لڑکوے ابہن کونو لائک نائی بھئے ہیں نائی  تو من کرت ہے کہ اب ایک آدھ سال ماں فِنش آی جائی”۔  اس کی باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا ہوں، نہ جانے کیا کیا دماغ میں چلنے لگا ہے، دل کیا کہ اس سے میں بھی اودھی میں کچھ بات کروں، ٹائم پاس کروں، پھر سوچا کہیں اسے یہ جان کر خجالت محسوس نہ ہو کہ میں اسکی پوری گفتگو سمجھ رہا تھا، سو ہمت نہیں ہو پائی ۔۔۔ بالآخر ابھی ایک کافی لے کر آگیا ہوں، سوچ رہا ہوں کچھ لکھوں ۔۔ ۔ پھر طے نہیں کر پارہا ہوں کہ کیا لکھوں، کس پر لکھوں۔  مزدور پر، مسافر پر یا پھر مرد مزدور مسافر پر؟۔

اس بات کا بھی خوف لاحق ہے کہ کی   ایک بار مردوں پر لکھنے سے میرے پڑھنے والے مجھے زن مخالف کی فہرست میں نہ ڈال دیں۔ جبکہ میرا بنیادی عقیدہ ہے کہ عورت ہمیشہ سے مرد سے اس حوالے سے بہتر رہی ہے کہ اسے جنم دینے کا شرف حاصل ہے، امراء و ملوک کے علاوہ اس نے ایسے مزدور مردوں کو بھی اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے جو اپنے گھر پریوار کی خاطر چالیس ڈگری دھوپ میں دن بھر عرق ریزی کرنے کے بعد رات کو مسافرت کے کسی صحرا میں تھکن اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔

ابھی کل ہی تو کہیں پڑھا تھا قصہ ایک بنگلہ دیشی کا، پینتیس سال سے زیادہ ملیشیا میں گزار دیا مزدوری میں، تین میں سے ایک بیٹا گورنمنٹ آفیسر دوسرا ڈاکٹر اور تیسرا انجینئر ہوچکا ہے، اکہتر سال کی عمر میں اب وہ بنگلہ دیش واپسی کر رہا ہے، اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے بیوی بچوں کو وہ پہلی بار دیکھے گا۔  بات ملیشیا کی کیوں کرنا، پچھلے ہی مہینے کا تو معاملہ ہے۔ پرانے گھر کو چھوڑ کر نئی  جگہ شفٹ ہوا تو بلڈنگ گیٹ ہی پر ایک ٹھیک ٹھاک نوجوان نے کہا “صاحب! آپ کی بھی گاڑی دھو  دیا کروں؟، ہفتے میں دو بار دھوؤں گا، مہینے کا اتنا دے دیجئے گا”  ۔

آج پھر سے پندرہ سال پہلے کے بوڑھے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور بھی نہ جانے کیسے یاد آگئے، جن کی ٹیکسی میں ان دنوں میں آفس جایا آیا کرتا تھا۔ ایک روز ایک ٹریفک سگنل پر کسی مقامی لونڈے کی بدتمیزی کے بعد ان کا مجھ سے کہنا تھا کہ “بیٹا! تیس سال سے زیادہ ہوگیا ہے یہاں ٹیکسی چلاتے ہوئے، اب تو کم ہوگیا ہے پہلے میں نے بڑی بڑی بدتمیزیاں دیکھی اور برداشت کی ہیں، ان سب کے باوجود سوچتا ہوں کہ اگر میرے ایک کے گالی کھا لینے سے میرے بیوی بچوں والدہ پر مشتمل آٹھ دس لوگوں کا پریوار اپنے ملک میں خوشحال زندگی گزار رہا ہے تو کیا حرج ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

خالی بیٹھا ہوں، بہت پہلے ٹھنڈی ہوچکی کافی اب ختم ہونے کو بھی ہے ۔ طے نہیں کر پارہا ہوں کہ میرے بغل میں بیٹھا اودھی، ملیشیا سے گھرواپسی کرنے والا اکہتر سالہ بنگلہ دیشی، چند روپیوں میں دوسروں کی گاڑیاں دھونے پر مجبور نوجوان، سالہا سال سے گالیاں و بدتمیزیاں برداشت کرنے والا بوڑھا پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اور ان جیسے ان گنت لوگ ۔ ۔ کیا ہیں؟۔  سب کی شکلیں الگ ہیں، سب کی مزدوریوں کی نوعیتیں مختلف ہیں، سب کی عمریں اور نیشنلٹیز بھی جداگانہ ہیں۔   کامن ہے سب میں تو بس ایک چیز۔ ۔ سب کے سب مرد ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply