سوشل میڈیا پر ایک تحقیقی مقالہ شیئر کیا جا رہا ہے جس پر مختلف لوگ کمنٹس کر رہے ہیں کہ یہ غلط ہے، لیکن کیوں غلط ہے، اس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ سب نے اپنی کم علمی کے باعث اس تحقیقی مقالے کو شیئر کر کے ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے اندر مولوی کے ساتھ نفرت کو آشکارا کیا ہے۔ ایسے ایسے لوگوں نے بھی اسے شیئر کیا ہے جو تحقیق کی الف ب سے بھی نابلد ہیں۔ مجھے بھی پہلے تو ہنسی آئی، مگر جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ مقالہ میرے ایک محترم دوست ڈاکٹر احمد حسن کی زیر نگرانی تحریر کیا گیا ہے، جو اسلامیات میں ایک نام رکھتے ہیں اور ڈنمارک سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے وہاں کچھ عرصہ ملازمت بھی کر چکے ہیں ۔ اب وہ پاکستان میں بہترین موضوعات پر کام کر کے ریسرچ کا صحیح معنوں میں حق ادا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے بات کی اور پھر مکمل تحقیق کے بارے میں جاننا چاہا تو مجھے اس میں واقعی بہترین کام نظر آیا۔ جن لوگوں نے اپنی کم علمی کے باعث اسے تضحیک کا نشانہ بنایا ہے، ان کے لیے اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ امید ہے کہ یہ انہیں پسند آئے گا اور وہ اس تحقیق کی افادیت کو سمجھ سکیں گے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، چاہے وہ عقائد ہوں یا معاملات۔ اسلام نے جہاں عبادات کے احکام تفصیل سے دیے ہیں، وہاں تجارت کے اصول بھی واضح کیے ہیں تاکہ زندگی کے ہر معاملے کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جا سکے۔ تجارت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ نئے طریقے اور مسائل سامنے آتے رہتے ہیں، اور اسلام ان بدلتے حالات میں بھی انسانیت کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
موجودہ دور میں سبزی و فروٹ منڈیوں میں رائج معاملات پر شرعی اصولوں کا اطلاق ضروری ہے۔ اسلام آباد کی سبزی و فروٹ منڈیوں میں ہونے والے معاملات کو فقہ حنفی کی روشنی میں جانچنا اور ان کے مسائل کا شرعی حل فراہم کرنا اس مقالے کا مقصد ہے۔ نبی کریم ﷺ خود بازاروں میں جاتے اور تجارتی معاملات میں دیانت داری کی تلقین کرتے۔ ایک موقع پر جب آپ ﷺ نے گندم کے ڈھیر میں ملاوٹ دیکھی تو فرمایا: “جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں”۔
یہ مقالہ خاص طور پر اسلام آباد کی منڈیوں میں رائج اصطلاحات، ذمہ داریوں، اور وہاں ہونے والے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیتا ہے۔ تاجروں کو شرعی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے روزمرہ کے معاملات کو اسلام کے دائرے میں انجام دے سکیں۔
پاکستان کی سبزی و فروٹ منڈیاں ملکی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان منڈیوں میں روزانہ لاکھوں افراد خرید و فروخت میں حصّہ لیتے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں جو معاملات طے پاتے ہیں، وہ اکثر اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان منڈیوں میں رائج غیر شرعی معاملات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان مسائل کو اسلامی اصولوں کے مطابق حل کیا جا سکے۔
سبزی و فروٹ منڈیوں میں عمومی طور پر غیر منصفانہ تجارت دیکھی جاتی ہے۔ بہت سے تاجر زیادہ منافع کمانے کے لیے ایمانداری کو نظر انداز کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دھوکہ دہی، ناپ تول میں کمی، مصنوعی قلت پیدا کرنا، اور غیر ضروری طور پر قیمتوں کا اضافہ جیسے معاملات عام ہو چکے ہیں۔ حالانکہ قرآن و سنت میں دھوکہ دہی کی واضح ممانعت موجود ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے”۔
اسلام نے بیع و تجارت کے چند اصول وضع کیے ہیں جن کا مقصد خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ سبزی و فروٹ منڈیوں میں ایک عام مسئلہ غیر معیاری اشیاء کو فروخت کرنا ہے۔ تاجر اکثر خراب سبزیاں اور پھل فروخت کرتے ہیں اور ان کے عیب چھپا کر صحیح قیمت وصول کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق، بیچنے والے کو مال کی حقیقت اور اس کے نقائص ظاہر کرنے چاہئیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تاجر سچ بولیں اور عیب ظاہر کر دیں تو ان کی تجارت میں برکت ہوگی۔
منڈیوں میں مصنوعی قلت پیدا کرنے کا عمل بھی عام ہے، جس کے نتیجے میں قیمتیں اچانک بڑھا دی جاتی ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مصنوعی قلت پیدا کرنا یا احتکار (ذخیرہ اندوزی) سختی سے منع ہے، اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جس نے احتکار کیا، وہ گناہگار ہے”۔
ناپ تول میں کمی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “بڑی خرابی ہے ان لوگوں کی جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں”۔ تجارت میں ناپ تول کے پیمانے درست رکھنا اور پورا وزن دینا لازمی ہے۔ اس سے نہ صرف اللہ کی برکت حاصل ہوگی بلکہ منڈیوں میں رزق اور برکت میں بھی اضافہ ہوگا۔
ان مسائل کا حل اسلامی اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ دیانت داری اور سچائی کو اپنائیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو بھی منڈیوں کی نگرانی بہتر کرنی چاہیے اور قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے تاکہ ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشرتی ماحول قائم ہو سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں