” مابعد جدیدیت ” فلسفہ و تاریخ کے تناظر میں /منصور ساحل

“فن پاروں کی تخلیق کے لیے تنقید نئی راہوں اور نئی منزلوں کا تعین کرتے ہوئے ادب کی دنیا کو وسعت بخشتی ہے یہ وسعت تنقید کی مخصوص اصطلاحات کی بدولت ہوتی ہے” اس بابت ابو الاعجاز حفیظ صدیقی اپنی مشہور کتاب ادبی اصطلاحات کا تعارف ” کے آغاز میں یوں رقمطراز ہیں

“ہر علم اور فن کی طرح تنقید بھی اظہار اور ابلاغ کے لیے کچھ اصطلاحات کا سہارا لیتی ہے جس طرح ادب اور تنقید ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے اسی طرح ان اصطلاحات میں بھی وسعت آرہی ہے نئی اصطلاحات پیدا ہو رہی ہے اور ادب زندگی کی نئی وسعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے” (ص۔ 3)

“اصطلاح اصلی معنی و تفہیم کی بجائے کسی ڈسپلن کے مخصوص طریقہ کار یا وضاحت کا نام ہے کسی بھی علمی وضاحت کے لیے اصلاحات کا وجود ناگزیر ہے ۔ اصطلاح تکرار و ابہام سے بچنے کا دوسرا نام ہے ”

مابعد جدیدیت نے یقیناً ہر علم/آرٹ/ثقافت کو متاثر کیا کیونکہ مابعد جدیدیت کی لفظیات ، نظریات ، تفہیمات و ترسیلات نہایت مشکل و ادق ہونے کے ساتھ ساتھ مفہوم کی گہرائی کی متقاضی ہیں
اردو میں مذکور ہ بالا کتاب ان تمام پیچیدہ ، باریک و مبہم مباحث کی آسان تشریح ہے ۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی کی اس کتاب سے پہلے مابعد جدیدیت کے مباحث پر ” مابعد جدیدیت”: فلسفہ و تاریخ کے تناظر میں” بھی شائع ہوچکی ہے جو اردو زبان میں مابعد جدیدیت کی تفہیم و تشریح میں بنیاد کا کام کرتی ہے۔

اس کتاب کو اُردو زبان میں اپنے موضوع کے لحاظ سے اولیت بھی حاصل ہے ۔اس کتاب کی ترتیب مابعد جدیدیت کی انگریزی اصطلاحات کی الف بائی A to Z کے طرز پر ہے ساتھ ساتھ ان اصطلاحات کے اردو نام و آسان تشریحات بھی درج ہیں۔

اس کے علاؤہ مابعد جدیدیت کی اصطلاحات کی تصریح و تشریح کے لیے آسان مثالوں سے وضاحت اور ان کی اطلاقی جہات بھی سامنے لائی گئی ہیں

آخر میں مابعد جدیدیت کے علمبردار (جن میں رولاں بارتھ 1915۔1980، بادریلا 1929۔2009، ژاک دریدا 1930۔2004، رورٹی 1931۔ 2008، مشل فوکو 1926۔ 1984، کرسٹیوا 1941۔ ، لاکان 1901۔ 1981، لیوتار 1924۔ 1998، شامل ہیں ) کے نظریات و تصانیف پر مفصل بحث کی گئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

چند اصطلاحات کی وضاحت
1۔ ڈسکورس
فوکو کی تحریروں میں ڈسکورس سے مراد خود مکفی نظام فکر و عقائد یا وہ سماجی وسیاسی تفکر ہے جس کا اپنا ایک ضابطہ کار ہو بقول فوقو میڈیسن سے لے کر سیاست اور آرٹ حتی تک جنس ایسے موضوعات بھی ڈسکورس کی صورت اختیار کر چکے ہیں ایک مخصوص زمانی دورانیے کے تقاضوں اور رسوم و رواج کے حوالے سے مارکسزم بھی ایک ڈسکورس ہے
2۔ گلوبل لائزیشن
گلوبلائزیشن اس تاریخی عمل کو قرار دیا گیا جو دنیا کو ایک عالمی منڈی میں تبدیل کر رہا ہے قومی ریاستوں کا کردار روز بروز کم ہو رہا ہے ریاستوں کی طاقت سکڑ رہی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا عمل دخل بڑھ رہا ہے کثیر قومی کمپنیاں اپنے وسائل کو یکجا کر کے دنیا کے کاروبار پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں مغرب میں اس وقت استعمال کی اشیاء بہت کم پیدا کی جا رہی ہیں اشیاء ئے طلب کی کثیر تعداد باہر سے درامد کی جا رہی ہے ہوشیار لوگوں کی مسلسل کوشش ہے کہ قومی ریاستوں کی طاقت کو کم سے کم کر دیا جائے جواز یہ کہ اس طرح فرد کی طاقت میں اضافہ ہوگا لیکن اس مسئلے کا دوسرا پہلو بھی ہے اگر قومی ریاستوں کی بجائے طاقت ملٹی نیشنل کارپوریشن کو منتقل ہو گئی تو فرد کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ کثیر قومی ادارے وٹ کے ذریعے چلتے ہیں نہ ہی انہیں ووٹ سے لگام دی جا سکتی ہے ص۔62
3۔ مہابیانیہ
لیوتار مہا بیانیوں کی تشریح کرتے ہوئے انہیں وہ نظریات قرار دیتا ہے جو دنیوی مسائل کو افاقی تناظر اور تشریف فراہم کرتے ہیں اس عمل کی ذریعے انہیں وہ سند اور تحفظ حاصل ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ دنیا پر رائے مسلط کرتے ہیں۔ ص 64
4۔ Hyper Reality
با دریلا نے یہ اصطلاح حقیقت کے کھو جانے کے لیے استعمال کی ہے یہ ایک ایسی صورتحال کی خاص ہے جس میں گہرائی اور سطح حیثیت اور خیال کے درمیان فرق و امتیاز ختم ہو چکا ہے یوں سمجھیے کہ ہائپر ریلٹی دنیا میں محاکات اور حقیقتیں ایک دھماکے کی صورت میں باہم مدہم ہو چکی ہیں ۔ص 68
5۔ جادوئی حقیقت نگاری
جیسا کہ اس اصطلاح سے ظاہر ہے جادوئی حقیقت پسندی دو اقسام کی استحضار یت کے ہم قدم نظر اتی ہے اس میں عام طور پر حقیقت اور فینٹسی دونوں کا ملاپ عمل میں  آتا ہے یہ اصطلاح اب ادبی اصطلاح بن چکی ہے لیکن فرانز روح نے اسے مصوری کے میدان میں بھی استعمال کیا ہے اس کا خاصہ یہ ہے کہ اس نے فینٹسی پر مبنی پینٹنگ کی تکینیک کو دستاویزی مصوری کے لیے استعمال کیا 1970 کے بعد جادوئی حقیقت پسندی ماضی قریب کے ایک فیشن کی صورت میں سامنے ائی ہے اور ان تمام تحریروں کے لیے مستعمل ہے جو حقیقت پسندی کی امید کو اس سے نتھی کر دی کر دیتی ہے یہ سب لوگ فینٹسی کے منفی امکانات کو ابھارتے ہیں تاکہ یکسانیت اور عمومیت کے ثقافتی دائرہ ادراک کو چیلنج کیا جا سکے۔

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply