سیاست کا غیر سیاسی رُخ/خالد محمود

سیاسیات ایک شعبہِ علم کی حیثیت سے ہر  شعبہِ زندگی کو متاثر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔تاریخ ، سماج ، فطرت ہر ایک پر سیاسیات کی چھاپ نظر آتی ہے ،نیز علمِ سیاسیات سماجی زندگی کے مختلف شعبوں کو نظم اور قاعدے کے اندر لانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے،علمِ سیاسیات، سماجی تشکیلات کے درمیان اختیارات و قوت کی تقسیم ، حقوق و فرائض کا نظام، قانون و آئین کی حکمرانی کا  فریضہ سرانجام دیتا ہے۔

سیاسیات کے علم کا جب بطورِ فن سماج پر اطلاق کیا جاتا ہے تو اِسے عُرفِ عام میں سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ سیاست کو ایک ایسے کھیل سے بھی تشبیہہ دی جاسکتی ہے جس میں حصّہ لینے والے کھلاڑیوں کی کامیابی کا دارومدار علمِ سیاسیات اورعلم تاریخ کی بہتر آگہی، حالات کی  نزاکت کی بہتر جانچ اور اپنے موقف کو مناسب وقت پر پیش کرنے پر ہوتا ہے۔

ذیل میں سیاست کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ایک وہ حصّہ جو ہمیں نظر آتا ہے جس کے نفع و نقصان کا ہم بہتر طور پر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ایک وہ مخفی حصّہ جسے دلفریب نقاب سے چھپایا جاتا ہے،تاکہ اس کے ذریعے اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔ اس کے  نقصان کا صحیح اندازہ بظاہر مشکل نظر آتا ہے

اس قسم کی سیاست میں مذہب کے نام پر کی جانے والی
وہ سیاست ہے جس نے بظاہر غیر سیاسیت کا روپ دھار کر لوگوں کے سیاسی حقوق کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے جس کے غیر سیاسیت کے سیاسی جال میں عام طور پر سادہ لوح عوام آسانی سے پھنس جاتی ہے ۔اِس قسم کی بظاہر غیر سیاسی عوام کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہے تاکہ عوام اپنے حقوق کے لیے  ریاست سے مطالبہ کرنے کی بجائے محض دُعاؤں پر ہی اکتفاء کریں۔ غیر سیاسیت کا ڈھونگ رچا کر عوام کی توجہ سیاست وریاست کی اہمیت سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف لوگوں کو غیر سیاسی بنانے میں این جی اوز کے کردار سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ این جی اوز کا کردار بظاہر سماجی اور فلاحی نظر آتا ہے مگر فی الواقع یہ عوام کی محرومیوں کو بنیاد بنا کر ان کی جدوجہد کو سیاست سے کاٹ کر روزمرہ کے سماجی مسائل تک محدود کر دیتا ہے۔ اسی ضمن میں ۱۹۷۰ میں ورلڈ بینک کے سربراہ میکنامارا نے انہیں علاقائی و بین الاقوامی قوت کے مراکز کے طور پر ریاست کے متبادل قرار دیا تھا ـ۔

تیسری قسم کی غیر سیاسی قوت وہ ادبی تنظیمیں ہیں جو بظاہر غیر سیاسیت کا دم بھرتی ہیں مگر ادب کو سیاست سے پاک سمجھ کر بالواسطہ طور پر بالا دست استحصالی قوتوں کی تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ سیاست سے تعلق کے نام پر ادب کو صحافت یا واقعہ نگاری میں تبدیل کیا جائے اور ادب کو اس کے ادبی پن اور تخلیقی جوہر سے محروم کیا جائے بلکہ اسکا مطلب ہے کہ ادب کو عصری سیاسی تقاضوں سے بے خبر نہیں رہنا چاہییے اور اسے معروضی حالات سے اثر لے کر (جس میں ادیب اور فنکار کی اپنی ذات بھی شامل ہوتی ہے) اسے اپنی تخلیقت اور ادبی جمالیاتی موضوع میں گوندھ  کر معاشرے کو تحریر کی شکل میں لوٹا دینا چاہیے تاکہ لوگوں کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا ساماں ہو۔

کھیل بھی بظاہر ایسا ہی شعبہ ہے جو غیر سیاسی نظر آتا ہے مگر غور کرنے پر یہ بھی شائبہِ سیاست سے خالی نہیں ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کھیل کے عالمی و علاقائی مقابلوں میں شائقین کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے اور ہر ملک سے تعلق رکھنے والے شائقین کی تمنا ہوتی ہے کہ اُن کا ٹیم ہی جیت جائے اور دُنیا میں اُن کے ہی ملک کا نام روشن ہو ۔ اس طرح کھیل شعوری یا لاشعوری طور پر جذبہء حبُ الوطنی کو لوگوں کے اندر راسخ کرتا ہے۔یہ اُس وقت خاص طور پر خطرناک ہوتا ہے جب ایک ظالم قوم کی قوم پرستی اور حبُ الوطنی کو تقویت بہم پہنچائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مختصر یہ کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ سیاست سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لئے غیر سیاسی پن کے لاشعوری جال میں پھنسنے یا لاشعوری طور پر استحصالی طبقوں کا آلہِ کار بننے کی بجائے شعوری طور پر ہر شعبہِ زندگی کے اندر استحصالی طبقوں کے فکر و عمل کے خلاف سیاست سے کام لیا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply