فیلڈ مارشل مانک شأ-ہمارا یادگار دشمن/ذکی نقوی

پاک بھارت دشمنی اور رقابت اتنی ہی پُرانی ہے جتنی دونوں ملکوں کی آزاد تاریخ ہے اور اس تاریخ کے اُفق پر کئی لیڈروں کے چہرے اس تاریخ کے پڑھنے والوں کی نظر وں سے گزرتے ہیں۔ ان میں سویلین لیڈر بھی ہیں اور فوجی کمانڈر بھی۔ فیلڈ مارشل سام ہرمزجی فرام جی جمشید جی مانک شأ جنہیں بھارت میں ’سام بہادر‘ اور پاکستان میں مانک ’شاہ‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کرداروں میں سے وہ زندہ کردار ہے جس کے ذاتی اوصاف کی تعریف دشمن کی صفوں میں بھی ہوئی اور جس نے دشمنی میں بھی اعلیٰ ظرفی کی کچھ ایسی مثالیں چھوڑیں کہ نا صرف یہ کہ بھارت کی تاریخ میں اس درجے کا کوئی کمانڈر اور لیڈر ہمیں نظر نہیں آتا بلکہ خود ہم میں سے بھی فوجی کلچر ، لیڈرشپ اور تاریخ کا شعور رکھنے والوں کیلئے مانک شأ کی شخصیت میں سیکھنے کیلئے گراں قدر اسباق ہیں۔

اکہتر کی شکست کا داغ جہاں ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر گہرا ہے وہاں بھارت کے قومی مزاج میں اُس ایک فتح کا غرور ایک اہم عنصر ہے۔ بھارت میں اس کامیابی کا سہرا فیلڈ مارشل مانک شأ کے سر باندھا جاتا اور پاکستان میں اس کا طعنہ ہر فوجی کو سننا پڑتا ہے لیکن مانک شأ کی شخصیت نے دونوں طرف کے نوجوان افسروں ، بلکہ سینیئر کمانڈروں کے لئے بھی لیڈرشپ۔ پیشہ ورانہ دیانت داری، ذاتی کردار اور بطورِ فوجی اپنی پلٹن اور اپنی سپاہ سے وفاداری کی قابلِ ذکر مثالیں چھوڑی ہیں۔

سام مانک شأ ۱۹۱۴ میں امرتسر کے ایک پارسی ڈاکٹر کے ہاں پیدا ہوئے اور تعلیم ہندُو کالج امرتسر اور شیرووڈ کالج نینی تال سے حاصل کی۔ ۱۹۳۲ میں جب ہندوستانی نوجوانوں کو برٹش انڈین آرمی میں پہلی بار کمیشن دئیے جانے لگے تو سامؔ نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف فوج میں جانے کیلئے درخواست دے دی۔ انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دُون سے ۱۹۳۴ میں کمیشن حاصل کرنے والے پہلے کورس میں شامل مانک شأ کو برٹش انڈین آرمی کی ۱۲۔۴ ایف ایف رجمنٹ میں تعینات کیا گیا۔ ایک فوجی کے کیرئیر کا آغاز جس یونٹ میں ہوتا ہے وہ اس کیلئے بہت مقدم اور اہم ہوتی ہے اور اس کی ’’مادر یونٹ‘‘ کہلاتی ہے۔اپنے یونٹ سے لگاؤ اور محبت فوجی کلچر کا سب سے بنیادی عنصر ہے جو ہر بڑی مہم ، کامیابی اور کارہائے نمایاں میں کارفرما ہوتا ہے۔ قوم کسی بھی ’’کاز‘‘ کیلئے لڑ رہی ہو، سپاہی اپنی پلٹن کی عزت کیلئے لڑرہا ہوتا ہے۔ مانک شأ اپنے یونٹ سے محبت اور لگاؤ میں کلاسیکی فوجی روایات کے آخری آخری فوجیوں میں سے تھے ۔فوجیوں کی یہ قسم اب نایاب نہ ہو، کم یاب ضرور ہے۔

سامؔ کی یونٹ ۱۸۴۶ میں ۴ سکھ انفنٹری کے نام سے کھڑی کی گئی تھی۔ ۱۹۰۳ کی تنظیمِ نَو میں اسے ۵۴ سکھ انفنٹری کا نام ملا۔ ۱۹۲۲ کی تنظیمِ نَو (جو کہ عموماً ہر بڑی جنگ میں بکھر جانے والی، کانٹ چھانٹ کا شکار ہونے والی فوج میں اکثر بعد از جنگ کرنا پڑتی ہے) میں اس یونٹ کو چار بٹہ بارہ ایف ایف (فرنٹئیر فورس) کا نام دیا گیا البتہ پہلی جنگِ عظیم کے زمانے کا لقب ’’چرونجا‘‘ اس کے ساتھ لگا رہا۔ تقسیم کے بعد یہ پلٹن پاک فوجی مشہور پلٹن ۶ ایف ایف (فرنٹئیر فورس) بنی۔ سام مانک شأ ۶ ایف ایف بننے کے بعد بھی اس پلٹن کے خیر اندیش رہے۔ان کے سابق اے ڈی سی اور ان کے سوانح نگار بھارتی افسر، بریگیڈئیر بہرامؔ نے ان کی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب میں بتایا ہے کہ مانک شأ کو اپنے ’’پِفر‘‘ ہونے پر بڑا ناز تھا۔ فرنٹیئر فورس کے افسر اور جوان عام فوجی بول چال میں ’’پِفرز‘‘ کہے جاتے ہیں جس کے پیچھے اس رجمنٹ کے پورے انگریزی نام
Punjab Irregular Frontier Force Regiment
کے مخففات کار فرما ہیں۔ ’’پِفرز‘‘ اب پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں اور آج بھی پاک فوج کا دلیر، بے باک اور مایہ ناز حصہ ہیں۔ پاکستانی پفرز میں لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان(۶ ایف ایف) نہائیت قابل اور پروفیشنل افسر اور لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا( ۱ ۔ایف ایف)، نامور لڑاکا کمانڈر اور قابل سولجر، مانک شأ کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے۔ ۱۹۵۰ کی دہائی میں سامؔ کی دعوت پر یہ دونوں ’پفرز‘ فیروزپور گئے جہاں سام ایک بریگیڈ کی کمان کررہے تھے، تو ان کا خوب آؤ بھگت کیا گیا ۔ ۱۹۶۵ کی جنگ میں مانک شأ بھارت کی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر تھے جبکہ ڈھاکا میں ۱۴ ڈویژن کی کمانڈ میجر جنرل فضل مقیم خاں کے پاس تھی جو کہ پُرانے ’پِفر‘ تھے۔جنگ کے بعد اعلیٰ سطح کی اسٹاف مِیٹنگ کیلئے مانک شأ ڈھاکا پہنچے تو فضل مقیم خاں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور فوراً بولے: ’’میرے گھر چلیے، بھابی سے ملیے!‘‘ مانک شأ کا اسٹاف حیرت سے دیکھتا رہ گیا اور دونوں پِفرز نے ایک فیملی کی طرح ’’مِیٹنگ‘‘ کی۔ بریگیڈئیر بہرامؔ کے بقول ان کی کمان داری کے زمانے میں جی ایچ کیو دہلی کے دروازے اس یونٹ کے تمام ریٹائرڈ فوجیوں کے لئے کھلے رہے۔ ’’پِفرز‘‘ کے پٹھان کلچر سے لگاؤ کے اظہار میں وہ عمر بھر شوق سے پشاوری چپل پہنتے رہے۔ ان کے لاڈلے کُتے کا نام ’’پِفر‘‘ بھی اسی لگاؤ کا اظہار تھا۔

چار بٹہ بارہ ایف ایف کے ساتھ دوسری جنگِ عظیم کے دوران مانک شأ نے برما میں جنگ کے شب و روز دیکھے۔ مانک شأ کی انفرادی دلیری اور حسِ مزاح کی ایک دُنیا قائل ہے جس کا اولین اظہار برما کی لڑائی میں ہوا۔ جاپانیوں کے ایک حملے میں رائفل کی نَو گولیاں کیپٹن مانک شأ کے جسم کو چھید گئیں۔سپاہی شیر سنگھ نے انہیں پشت پر اُٹھا لیا اور پہاڑی کے دوسری جانب واقع ایف ڈی ایس (فارورڈ ڈریسنگ اسٹیشن) کی طرف لے دوڑا تو سب کا خیال تھا کہ مانک شأ نہیں بچیں گے۔ مانک شأ ڈریسنگ اسٹیشن پہنچائے گئے تو ان کی حالت دیکھ کر بوکھلاہٹ میں ڈاکٹر کی زبان سے یہ سوال نکلا: ’’اوہ، تمہیں کیا ہوا؟‘‘ تو مانک شأ کی رگِ ظرافت اس حالت میں بھی پھڑکے بغیر نہ رہ سکی، وہ بولے؛ ’’جی مجھے گدھے نے دولتی ماری ہے‘‘ ۔ ڈاکٹر کو اپنے سوال کے احمقانہ ہونے کا اندازہ تو ہوا ہی، اُس نے فیصلہ کر لیا کہ ایسےشاندار افسر کا حق ہے کہ اس کی زندگی بہرطور بچائی جائے۔ ایسا نہیں کہ اس حالت میں مانک شأ ایک جاں کاہ درد سے نہیں گزرے۔ اُنہوں نے کیپٹن عتیق الرحمان سے ایک کمزور لمحے میں یہ بھی کہہ دیا کہ اپنا پستول میرے پاس چھوڑے جاؤ، شاید اس تکلیف اور کرب سے ہار کر مجھے خود کشی کرنی پڑے۔ عتیق الرحمان کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں کرنل مانک شأ کے شاگرد ہوئے اور بعد ازاں پاک فوج کے ایک نامور جرنیل اور عسکری اسکالر بنے۔

ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل ڈیوڈ کاون نے ایکشن کے دوران دلیری سے اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے پر اپنی چھاتی سے تمغہ ’ ملٹری کراس ‘ اُتار کر زخمی مانک شأ کے لگایا کہ ملٹری کراس بعد از مرگ نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن قدرت نے مانک شأ کو ایک نئی زندگی دی۔
مانک شأ بطور کمانڈر بھی اپنی بے باک صفات کی وجہ سے پہچانے گئے۔ ایک کمانڈر کے لئے جن قائدانہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں اعلیٰ درجے کی اخلاقی جرأت، اپنے افسرِ بالا کے سامنے کڑوا سچ بول سکنے اور غلط احکامات سے انکار کی ہمت اور افسرانِ بالا کی خوشنودی پر حقیقت پسندی، حق گوئی اور اپنے ٹروپس کی بھلائی کو ترجیح دینا شامل ہے۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں ہماری طرح ہی کے سیاستدان ہیں اور کسی بھی سویلین یا فوجی افسر میں ان اوصاف کو ’’ہضم‘‘ نہیں کرسکتے ، مانک شأ نے کئی دفعہ اپنے کیرئیر کو خطرے میں ڈال کر ان اوصاف کا مظاہرہ کیا۔ جب کرشنا میننؔ وزیرِ دفاع تھے اور جنرل کے ایس تھمیاؔ آرمی چیف ، تو مانک شأ اس وقت بطور میجر جنرل ایک ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ ایک ملاقات میں وزیرِ دفاع نے پوچھا؛ ’’آرمی چیف کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟‘‘ مانک شأ کا جواب فوجی پروفیشنلزم کی ایک مثال تھا؛ ’’جناب منسٹر! وہ میرے کمانڈر ہیں، اُن کے بارے میں سوچنا میرا کام نہیں! اور آپ جس طرح آج مجھ سے اُن کے بارے میں رائے لے رہے ہیں، کل اسی طرح میرے ماتحت کمانڈروں سے میرے بارے میں رائے لے رہے ہوں گے۔ اس سے آرمی کا ڈسپلن تباہ ہوتا ہے۔ براہِ کرم آئندہ احتیاط کیجئے گا!‘‘‘

دو ایک واقعات ایسے بھی ہوئے جن میں مانک شأ کا فوجی کیرئیر دو یا تین ستاروں والے جنرل کے طور پر ہی ختم ہوتا دکھائی دیا لیکن اعلیٰ کمان ہمیشہ ان کی پروفیشنل وفاداری کے قائل تھے اور پھر جون ۱۹۶۹ میں انہیں چیف آف دی آرمی اسٹاف بنا دیا گیا۔ اپریل ۱۹۷۱ میں جب وزیرِ اعظم اندراؔ گاندھی نے مشرقی پاکستان کے حالات کا فائدہ اُٹھانے کی نیت سے پاکستان پر حملے کا ارادہ کیا تو مانک شأ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جنگ کیلئے تیار ہیں؟ مانک شأ عمر بھر نوجوان لیڈروں کو ایک سبق پڑھایا کرتے تھے:
‏“A ‘yes man’ is a dangerous man…”
سو اُن کا جواب تھا کہ وہ جنگ کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ وزرأ اور سیاستدان چونک اُٹھے اور ہمیشہ’’ یس میڈم‘‘ کی گردان سننے والی خود پسند اندراؔ بھی جز بز ہوئی لیکن مانک شأ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ بیساکھ کے موسم میں ملک بھر میں گندم کی کٹائی ہوتی ہے ، دیہاتی سپاہی چھٹیوں پر گھروں کو جاتے ہیں، جب کٹائی ہوچکتی ہے، پھر مُلک بھر سے گندم کی ترسیل گوداموں اور تجارتی منڈیوں تک ہونا بھی ضروری ہے لہٰذا تمام فوج کو مشرقی پاکستان کی سرحدوں کی طرف مُوو کرنے کیلئے تمام دستیاب ریل گاڑیاں درکار ہوں گی۔ اس صورت میں اگر اناج بر وقت گوداموں تک نہ پہنچ سکا تو ملک میں کسی بھی قحط کے ذمہ دار آرمی چیف نہ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ وزیرِ ریلوے بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھے۔پھر مشرقی پاکستان میں مون سون کا موسم بھارتی فوج کیلئے حملے کا درست وقت نہ تھا۔ سارے سیاستدان ’’پارسی‘‘ کی جراتِ رندانہ پر حیران تھے لیکن مانک شأ نے کہہ دیا کہ وہ جنگ کیلئے تیار نہ تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ چونکہ وہ حکومتِ وقت کی خواہش کے مطابق جنگ کیلئے تیار نہیں چنانچہ وہ استعفیٰ دینے کیلئے ضرور تیار ہیں۔انہیں آٹھ نو ماہ کا عرصہ دے دیا گیا۔ جب مانک شأ بڑے حملے کیلئے تیار ہوئے تو اندراؔ گاندھی نے پوچھا ؛ ’’سامؔ کیا آپ جنگ کیلئے تیار ہیں؟‘‘ سام کا جواب تھا:
‏“Yes sweetie, I am ready!”
اکہتر کی جنگ کم ہی وقت میں فیصلہ کُن انجام تک پہنچ گئی۔ جنگ کے بعد جہاں بھارت میں اندراؔ سے لے کر ایک عام بھارتی تک فتح کے نشے میں اپنے جامے سے باہر ہو کر ہرزہ سرائیوں پر اُتر آیا تھا، کہ وہ بھی ہم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ، لیکن ان حالات میں مانک شأ نے اس جنگ پر بات کرتے ہوئے سپاہیانہ اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے صحافی کَرن تھاپرؔ کو بتایا:
’’مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج بہت دلیری سے لڑی لیکن اُن کے پاس فتح کا کوئی چانس نہ تھا! وہ اپنی بنیاد سے ہزاروں مَیل دُور تھے، میرے پاس تیاری کے لئے آٹھ نَو ماہ کا وقت تھا، میرے پاس ایک کے مقابلے میں پچاس کی برتری تھی۔ اُن کے پاس فتح کا موقع ہی نہ تھا لیکن وہ دلیری سے لڑے!‘‘

بھارتی افسر بریگیڈئیر بہرامؔ لکھتے ہیں کہ اکہتر کی جنگ کے دوران جب اُنہیں پاک فوج کی ۶ ایف ایف رجمنٹ کی کسی لڑائی کی رپورٹ دی جاتی تو اُن کے چہرے پر تفاخر کے آثار واضح نمایاں ہوتے۔ جب ۶ ایف ایف کے افسر، میجر شبیر شریف شہید کو نشانِ حیدر ملا تو مانک شأ نے اس یونٹ کے ایک انگریز سابق کمانڈنگ افسر کو خط میں لکھا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کی یونٹ کو یہ فضیلت ملی۔ پاک فوج کے کیپٹن احسن ملک کو تو اکہتر کی جنگ میں بہادری پر شاباش دینے کیلئے مانک شا نے بعد از جنگ ذاتی طور پر خط لکھ کر سراہا۔

مانک شأ کا ایک بیان کسی حد تک پاکستان کے حق میں توہین آمیز ضرور سمجھا جاتا ہے لیکن مکمل واقعہ بھی ان کی شخصیت کا وہی پہلو ہمارے سامنے لے آتا ہے جو کہ پہلے کی مثالوں میں ظاہر ہے۔ تقسیم کے وقت میجر یحییٰ خان (جو کہ اکہتر میں پاکستان کے صدر تھے) نے مانک شأ سے اُن کی ’’جیمز‘‘ موٹر سائیکل ہزار روپے میں خریدی۔ اُن کا وعدہ تھا کہ وہ پاکستان جا کر یہ رقم مانک شأ کو بھیج دیں گے۔ میجر یحییٰ خان جنرل بن گئے لیکن وہ رقم کبھی مانک شأ کو نہ پہنچا سکے۔ اکہتر کے بعد مانک شأ نے مزاقاً کہا: ’’ یحییٰ خان نے میرے ہزار روپے ادا نہیں کیئے، اُنہیں وہ ادھار آدھا مُلک دے کر چکانا پڑا‘‘۔ اس جملے پر بڑے تبصرے ہوئے۔ ایک دفعہ نامور پاکستانی صحافی اور اسکالر اردشیر ؔکاؤس جی جب مانک شأ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ یحییٰ خاں اس دُنیا میں نہیں رہے، سو وہ ان کا قرض مع سود کے واپس کرنے کو تیار ہیں۔ مانک شأ کا جواب یہ تھا؛
’’ ہر گز نہیں! یحییٰ ایک اچھے انسان اور اچھے فوجی تھے اور ان میں بے ایمانی کا ذرہ بھی نہ تھا! ہم نے اکٹھے نوکری کی تھی۔ آپ کے سیاستدان بھی ہمارے سیاستدانوں سے کم بُرے نہیں۔ اُنہوں نے یحییٰ کا مؤقف سُنے بغیر اُنہیں موردِ الزام ٹھہرایا اور اکہتر کے بعد تادمِ مرگ نظر بند رکھا حالانکہ وہ کُھلا مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ اُنہیں اُن کا موقف سُنے بغیر کیوں لعن طعن کرتے ہو؟؟‘‘
مانک شأ کی بے باک زبان نے کئی دفعہ اپنوں کو بھی ناراض کیا۔ اکہتر کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں خواتین کی عصمت دری کے جتنے واقعات ہوئے، آج تو انہیں بڑھا چڑھا کر پاک فوج ہی کے سر تھوپا جاتا ہے لیکن جنگ کے دوران کھمبیوں کی طرح اُگنے والی والنٹئیر تنظیمیں، جرائم پیشہ لوگ اور بھارتی فوج، سبھی اس جُرم میں شریک تھے اور اسی کی روک تھام کیلئے مانک شأ کو اپنے فوجیوں کے نام یہ پیغام بھیجنا پڑا؛ ’’اپنے ہاتھ جیب سے باہر مت نکالنا!! بھارتی لڑکیاں ذیادہ حسِین ہیں!‘‘ ان کی یہ بات بھارت میں سخت ناپسند کی گئی تھی لیکن آج مؤرخین بھارت کی دلجوئی اور بنگالیوں کی اشک شوئی کیلئے کچھ بھی لکھیں، مانک شأ کمانڈر تھے اور جانتے تھے کہ ہر قوم کا سپاہی ایک ہی گوشت پوست سے بنا ہوا اور ایک سی بشری خوبیوں خامیوں سے مرقع انسان ہے۔

اکہتر کے بعد پاکستانی جنگی قیدیوں کے خلاف جتنے بھی تشدد اور ایذا کے واقعات بھارتی کیمپوں میں ہوئے، اُن میں تمام تر مقامی کمانڈروں اور سیاستدانوں کی آشیرباد سے ہوئے ورنہ مانک شأ نے جنگی قیدیوں سے جنیوا کنونشن کے مطابق سلوک روا رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ ممکن ہے کہ آگرے کے کیمپ میں جنگی قیدیوں پر فائرنگ جیسے واقعات سے اُنہوں نے تجاہلِ عارفانہ برتا ہو لیکن ذاتی طور پر ان کا رویہ جنگی قیدیوں کے ساتھ اچھا تھا۔ بریگیڈئیر سعداللہ خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ مانک شأ نے جبل پور کے جنگی قیدی کیمپ کے دورے کے دوران پانی سے بھری بالٹیاں صف بستہ دھوپ میں پڑی دیکھیں تو اس کی وجہ پوچھی۔ جب انہیں بتایا گیا کہ پاکستانی افسروں نے اپنے نہانے کا پانی گرم ہونے کیلئے دھوپ میں رکھا ہے، تو وہ خفا ہوئے اور فوراً کیمپ میں گیزر لگوانے کا حُکم دیا۔ عام طور پر کوئی بھی بھارتی کسی پاکستانی کو اس انسانی سلوک کے اہل نہ سمجھتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۱۹۷۳ میں انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر پروموٹ کردیا گیا۔ فیلڈ مارشل پانچ ستاروں والا جرنیل ہوتا ہے اور عمر بھر باوردی رہتا ہے البتہ کبرسنی کی وجہ سے ایکٹو سروس سے الگ ہو سکتا ہے لیکن وہ فوج کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے اور جنگوں کی پلاننگ، فوج کی تربیت اور بہبود کے کاموں سے وابستہ رہتا ہے۔ فیلڈ مارشل مانک شأ نے عمر کا آخری حصہ شمالی ہندوستان کے شہر ولنگٹن میں گزارا۔ ان کی آخری عمر میں پاکستانی سیاستدان اعجازالحق نے میڈیا میں ایک بیان دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کسی بھارتی بریگیڈئیر نے پاکستان کو اپنے جنگی منصوبوں کی معلومات فراہم کر کے بھاری رقم وصول کی تھی۔ چونکہ فیلڈ مارشل مانک شأ اس پلاننگ سے وابستہ تھے، چنانچہ ان پر بھی انگلیاں اُٹھنے لگیں۔ اگرچہ یہ الزام کبھی ثابت نہ ہو سکا لیکن جب جُون ۲۰۰۸ میں مانک شأ فوت ہوئے تو تامل ناڈو میں اُن کی آخری رسومات میں بھارتی فوج کے مسلح افواج کے سربراہان اور سیاستدانوں میں سے کوئی بھی شریک نہ ہوا اور رسومات نہائیت سادگی سے ادا کی گئیں جن میں قریبی احباب شامل ہوئے۔ یہ قانوناً بھی ایک فیلڈ مارشل کے کسرِ شان ہے اور بھارتیوں کی اپنے مشاہیر کے حق میں طوطا چشمی کی ایک افسوسناک مثال بھی ہے۔
فیلڈ مارشل کے آخری الفاظ بھی اُن کے مزاج کے استقلال کے عکاس ہیں:
‏“I am OK!”
فیلڈ مارشل سام مانک شأ نے اپنی حسِ مزاح، اخلاقی جرات اور پروفیشنل لیڈرشپ کی وجہ سے پاکستان کے فوجی اور سویلین حلقوں میں بھی عزت پائی اور فقط اسی وجہ سے انہیں، اکہتر کی شکست کے زخم کے باوجود یہاں صفِ دشمناں میں بھی ایک عالم قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
(ستمبر ۲۰۱۸)
بشکریہ لالٹین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply