جس کی لاٹھی اُس کی سہولت کاری/ ناصر بٹ

مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ آ گیا اس میں قانونی سوالوں کے جواب تو موجود نہیں مگر لفاظی بڑھ چڑھ کے نظر آتی ہے۔
ستر صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ خواہشات اور عمران داری کا کھلا اظہار ہے۔

اس فیصلے میں آئین کے واضح الفاظ کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی تشریح کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں اس فیصلے میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اس فیصلے کی نفی ہونے کا کوئی جواب نہیں اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوامی خواھشات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے اور یہ عوامی خواھشات آٹھ ججز کے مطابق وہ ہیں جو پی ٹی آئی کا فرمانا ہے۔

پی ٹی آئی نہ اس کیس میں پشاور ہائی کورٹ میں فریق تھی نہ سپریم کورٹ میں مگر آٹھ ججز کے مطابق ان کے پاس پی ٹی آئی کی فریق بننے کی درخواست موجود تھی اگر موجود تھی تو پھر انہیں آپ نے فریق بنایا کیوں نہیں اور اگر نہیں بنایا تو پھر انکی صرف درخواست کی بنا پر انہیں فریق سمجھا ہی نہیں جا سکتا ،پی ٹی آئی نے ایک سیاسی انتظام کے تحت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہی اس کیس میں فریق تھی ۔پوری سماعت میں کبھی ایک دفعہ بھی جس پی ٹی آئی نے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا ذکر تک نہیں کیا ،آٹھ ججز نے انہیں سیٹیں الاٹ کر دیں۔

اختلاف کرنے والے دو ججز کے خلاف بھی آٹھ ججز کا غصہ دیدنی ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنے فیصلے میں بھی کیا ہے اور یہ بھی عمران نیازی کا ہی طریقہ استعمال ہوا ہے کہ جو ہم سے اختلاف کرے اسے نشانے پر رکھ لیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کُل ملا کے یہ فیصلہ طاقت کی جنگ میں لکھا جانے والا ایک نیا پیرا ہے جس سے حالات میں کوئی بھی فرق آنے والا نہیں ۔اس فیصلے پر عمل کے حوالے سے صورتحال وہی رہنا ہے جو پہلے تھی۔۔
بارے دگر عرض ہے کہ وہ وقت اور تھا جب عدلیہ عسکریہ کے ساتھ مل کر فیصلے کرتی تھی تو اسکے فیصلے مقدس قرار پا جاتے تھے ،پھر چاہے وہ بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ دے دیں یا نواز شریف کو نااہل کر دیں ۔فوراً عمل ہو جاتے تھے آج عدلیہ کے سامنے ان سے بڑی طاقت کھڑی ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں دہائیوں تک عسکریہ کی باندی کا کردار ادا کرنے والی عدلیہ طاقت کے اس کھیل میں فتح مند ہو سکے ۔انکے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے اور کسی کی سہولت کاری کے مرتکب نہ ہوتے مگر انہوں نے یہ موقع ضائع کر دیا ۔اب موجودہ راستہ انہوں نے خود چُنا ہے تو اب کوئی اس پر گلہ بھی نہیں کر سکتا کہ طاقت کے بل پر فیصلے ہوتے نظر آ رہے ہیں تو اس میں ظاہر ہے غالب وہی ہو گا جس کے پاس بڑی طاقت ہو گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply