تھا کتنا عجیب سال 2017/اعظم معراج

23ستمبر 2024
پاکستان میں مسیحیوں کی مجموعی آبادی کی بڑی تعداد پنجاب میں ہی آباد ہے۔  اسی تناظر میں چند اعدادوشمار حاضر ہیں ۔ برطانوی راج پنجاب میں قائم ہونے کے بعد اب تک کی مغربی پنجاب کی مردم شُماری کے مسیحیوں  کے اعدادوشمار یوں ہیں ۔
1881میں مسیحی 12،992تھے۔1891کے اعدادوشمار شمار دستیاب نہیں ۔۔ لیکن پورے پنجاب میں مسیحیوں  کی آبادی ڈبل ہونے کے اعداد و شمار تاریخ میں ہیں ۔1901میں42،371تھے 1911میں 1,44,514ہوئے،1921میں2،47،030تھے 1931میں 3،24،730ہوئے۔1941جو پاکستان بننے سے پہلے آخری مردم شُماری تھی۔ اس وقت مغربی پنجاب میں مسیحیوں کی آبادی 3،95،311تھی۔۔ جب کہ پاکستان بننے کے بعد پورے مغربی پاکستان میں مسیحیوں کی آبادی 1951کی مردم شُماری کے مطابق 4،32،700تھی۔جو 1961میں 5،83،884ہوئی1972میں9،07،661ہوئی۔1981میں13،10،420ہوئی1998میں یہ تعداد 20،92،902ہوئی پھر
بقول شہباز چوہان

julia rana solicitors london

تھا کتنا عجب سال دو ہزار سترہ
تھے قربانی کا ہم بنے کیسے بکرا
تسلسل آبادی کا جو اک تھا جاری
ہوئی کس طرح کی یہ مردم شماری
ہوئی تھی، نہ ہجرت گئے تھے ،نہ مارے
مسیحی گئے پھر کہاں اتنے سارے
مشیر اپنا تھا،جب منسٹر تھا اپنا
تو پھر ظلم کا دیکھا تھا کس نے سپنا
یہ کیسا ستم ہم پہ ڈھایا گیا تھا
ہمیں کاغذوں سے مٹایا گیا تھا
یوں 2017میں19سال بعد ہونے والی مردم شُماری میں مسیحی صرفِ 26،42،048ہوئے ۔اور اب 2023میں دو ہزار سترہ کی کاغذی نسل کشی کے اثرات نظر آرہے ہیں۔۔ اور اب مسیحی 33،00788 ہیں ۔جنہیں پچھلی 1881 سے لے کر آج تک کی مردم شماریوں کے مطابق 57لاکھ کے قریب ہونا چایئے تھا لیکِن ہیں وہ صرف 33لاکھ۔۔۔لیکِن آفرین ہے۔ مسیحیوں  کے سیاسی ،سماجی اور مذہبی ورکروں پر جو برصغیر میں تعلیم کا استعارہ تھے۔ اب انکی تعلیم بس صرف سفارت خانوں این جی اوز کے لئے رپورٹیں لکھنے ،سیاسی جماعتوں کی ترجیحی فہرستوں میں نام پڑھنے اور چندوں کے حساب کتاب رکھنے تک محدود ہو گئی ہے ۔۔نہ آواز اٹھاتے ہیں۔۔ نہ ان معصوموں کی کوئی راہنمائی کرتے ہیں ۔۔بس انھیں افیون پر لگایا ہوا ہے۔

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply