نمک کا جیون گھر/تبصرہ-مسلم انصاری

میں نے شام کی ٹرین کی ٹکٹ لی اور ریل میں سوار ہوا (کہ سب ہی پرندے شام کو گھر لوٹتے ہیں)
جب انجن مین نے وِسل پر ہاتھ رکھا، میں اپنا سفری بیگ سیٹوں کے نیچے دبا رہا تھا
جب ٹرین پلیٹ فارم سے کھسکی، میں نے بوگی میں مسافروں پر نظر ڈالی مگر میرا خانہ خالی تھا
جب ٹرین نے رفتار پکڑ لی تب دفعتاً دو عورتیں میرے سامنے کی سیٹوں پر آ بیٹھیں، میں نے لمحہ بھر کو ان کی طرف دیکھا وہ بے حد حسین اور ملائم جلد والی تھیں، انہوں نے میری موجودگی غیر موجودگی کی طرح محسوس کی اور آپس میں باتوں میں لگ گئیں۔

میں نے چوروں کی طرح گھات لگا کر ان کی باتیں سنیں!
وہ کسی مرد کی تلاش میں سفر کر رہی تھیں جو کھو گیا تھا، ان عورتوں کی پوری بستی اس گم شدہ مرد کی تلاش میں دھیرے دھیرے سفر کر رہی تھی اور یہ دو عورتیں بھی اسی تلاش کا حصہ تھیں، مجھے ان سے ہمدردی کا احساس ہوا اور میں نے پہلی بار مداخلت کرتے ہوئے ان میں سے ایک عورت کی طرف چہرہ اٹھایا اور پوچھا :
“آپ کا مطلوبہ فرد کتنا عرصہ قبل کھویا ہے؟”
اس عورت نے جس کے بالوں میں سفیدی اتر رہی تھی، میری جانب دیکھا اور دھیان سے بولی :
“پانچ ہزار برس سے زائد کا دورانیہ گزر چکا ہے۔۔”
اور اس جواب کے ساتھ ہی میری باچھیں کھل گئیں، میں جو فطری اداس اور گھر پلٹنا نہیں چاہتا تھا قہقہہ مار کر ہنسا، میرے قہقہے پر وہ عورتیں بھی مسکرا دیں

میں نے موضوع کو اپنی ہتھیلیوں میں دبوچا اور تمسخر کے لہجے میں اس عورت سے کہا :
“جھوٹ کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، آپ کے بالوں میں سفیدی اتر رہی ہے اور آپ ایک ایسے اجنبی سے جھوٹ بول رہی ہیں جو اگلے کسی بھی اسٹیشن پر اتر جائے گا!”
اس عورت نے فوراً اپنے بالوں پر ہاتھ مارا اور پھر اپنی انگلیاں مسلیں اور بولی :
“یہ عمر کی سفیدی نہیں نمک ہے ”
وہ واقعی نمک تھا جو ان عورتوں کی پرتوں کو ڈھکے ہوئے تھا، وہ عورتیں جب اپنے بال، بازو اور پیرہن جھاڑ چکیں تو سارا نمک بوگی کے فرش پر پھیل گیا اور ان عورتوں کے جسموں کی تازہ پرتیں واضح ہوگئیں۔۔

ان عورتوں نے بتایا کہ ان کے گم شدہ فرد کا نام “لونڑکا” ہے
اور وہ عورتیں “لونڑی” نامی شہر سے آئی ہیں، ہاں یہ نام عجیب ہے مگر “لونڑ واسیوں” کے نام ایسے ہی ہوتے ہیں، سارنگ، سبھائی، نِسرا، سدھارن، درشا، چُنّی، سنگری، شُوبھا، رتڑی، سُنکّی، پبری، گیری، گاج، وادھا اور جاگی!

جو مرد کھو چکا ہے اس کا نام “لونڑکا” ہے جس نے لفظ، کاغذ اور ناٹک گھر بنایا اور پہلا کھیل کھیلا تھا، گم شدہ مرد لونڑی شہر کی ارتقاء کا موجد تھا۔

میں ان عورتوں کے قریب ہو گیا، اتنا قریب کہ  ان عورتوں کے بدن سے اٹھتی نمک کی بھاپ محسوس ہونے لگی، وہ عورتیں ایک ایسے شہر سے تھیں جہاں کے لوگ بادلوں کے سوداگر تھے، “لونڑی واسی” گھروں پر آئے بادلوں کو گانٹھوں سے باندھ کر اتارتے تھے اور بیل گاڑیوں پر لاد کر شہر کے بازار میں فروخت کرتے تھے، لونڑی شہر کے مشرق میں نمک اور شیشے کے صنعت خانے تھے، جن کارخانوں کی بھٹیوں میں آسمانی بجلیاں کوندتی تھیں اور شہر اپنی بُنت کے خواب ڈھالتا تھا، جہاں نباتات اور بادلوں کے ریشوں سے چادریں بُنی جاتی تھیں، اس شہر میں دو اُڑنے والے بیلوں سے بندھی بیل گاڑی تھی جو آدھی رات کے سفر کے بعد چاند پر اترتی تھی جسے ایک “ہنس” نامی لونڑ واسی نے بنایا تھا۔

لونڑی ان عورتوں کے بقول ایک ایسا شہر تھا جہاں راہ دکھانے والے پرندے اور بولنے والی لالٹینیں تھیں، جہاں کے لوگ خواب پڑھتے اور ایک دوسرے کے خوابوں میں سفر کرتے ہیں، گلابی نمک، شیشوں اور بھوری مٹی سے ہرن بناتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے ہاتھی اور ہرن بھی تخلیق کرتے ہیں، پھر وہ لوگ داستانوں میں سفر کرتے ہیں، ایسی داستانیں جہاں لوگ آئینوں میں آباد ہیں، ایسی داستانیں جہاں پانیوں کا شہر ہے جو کبھی زیرِ آب رہتا ہے اور کبھی پانی سے باہر آ جاتا ہے اور پانی میں اڑنے والے پرندے موجود ہیں اور یہ سب ان دو عورتوں کے شہر کے باسیوں کی تلاش سے پایا گیا ہے!

جب میں نے یہ سب جانا تو میں نے تاسف سے اس عورت کی آنکھوں میں جھانکا اور اس سے کہا :
“اس قدر جھوٹ ایک دن تمہیں بہت بری موت مارے گا۔”

وہ عورت میرے کان کے قریب آئی اور سرگوشی کے لہجے میں بولی : “لونڑی شہر معبود، مذہب، جنگ، حاکم کی عدالت، دھرم کے ہرکاروں اور موت سے پاک ہے، کوئی لونڑی واسی مر نہیں سکتا۔”

“تو کیا تم امر ہو؟”
میں نے اس عورت کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
“ہاں! ہم سب ہمیشہ کے لئے جیوت ہیں، بس ایک بار موت نے ہمارے شہر پر دستک دی تھی اور ایک فرد مرا تھا پھر ہم نے ناٹک گھر میں موت کو ہرا دیا، اب موت ہمارے شہر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہے!”

“ناٹک گھر؟” میں نے ہاتھ ملے
“ہاں ناٹک گھر! لونڑی شہر کا پارلیمنٹ ایک ناٹک گھر ہے! لونڑی واسی ہر ایک چیز کا فیصلہ وہیں کرتے ہیں، اسی ناٹک گھر میں لونڑی شہر نے ہفتے کے سات دنوں کے نام رکھے تھے!”
وہ عورت بالوں کی لٹیں ٹھیک کرتے ہوئے بولی

“اور تمہارے شہر کے سات دنوں کے نام کیا ہیں؟”
“نمک، شیشہ، بادل، ہرن، ہاتھی، مور، نیم!”

“اور سال کے بارہ مہینے؟”
“سارنگ، نِسرا، رتڑی، درشا، شوبھا، سادھاجاگی، سگرایا، دادرا، خواب، داستان، دھارا اور نارنگی!”
وہ مسکرائی

مجھے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے لمحوں میں سفر کٹتا محسوس ہوا، انجن مین نے ایک گمنام اسٹیشن پر انجن کی وِسل کا گلا گھونٹا تو وہ عورتیں اٹھ کھڑی ہوئیں، اِس ایک لمحے میں، میں نے اس باتوں بھری لڑکی کے لئے دل میں محبت محسوس کی اور میں نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا، پہلے وہ شرمائی اور پھر سنجیدگی سے بولی :
“یہ مت کرو! میں تلاش کے ایک سفر پر نکلی ہوں، پورے شہر کے لئے “لونڑکا” کو واپس پانا ضروری ہے، تم نہیں جانتے کہ “لونڑکا” مغرب کی سمت میں عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے 4000 سال پہلے کا کھویا ہوا ہے، جیسے ہم لونڑ واسی اس کی تلاش نہیں روک سکتے ایسے ہی تم مجھے جانے سے نہیں روک سکتے!”

میری آنکھوں میں نمی اتر آئی
ایک لمحے کو وہ تھمی اور اس نے کچھ سوچا، پھر اپنے سامان کے ایک جھولے میں ہاتھ ڈالا اور ایک کتاب میری جانب بڑھا دی، میں نے کتاب کا نام پڑھا
“نمک کا جیون گھر”
اور اس نے محبت بھرے لہجے میں مجھ سے کہا :
“کتب بینوں کو ضرور بتانا کہ ایسا شہر موجود ہے! وہ اگر اس شہر کے بارے میں جاننا چاہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھیں، لوگوں کو بتانا کہ یہ ہمارے شہر کی کتھا ملتان کے باسی رفعت عباس نے لکھی ہے اور اسے سرائیکی سے اردو میں منور آکاش نے اتارا ہے، اپنے قارئین کو یہ بھی بتانا کہ یہ کتاب فکشن ہاؤس نے چھاپی ہے، اب مجھے جانے دو!”

“اور تم مجھے کہاں ملوگی؟”
میں بھی اٹھ کھڑا ہوا
وہ عورت ایک اور بار میرے کان کے قریب آئی اور بولی :
“اسی کتاب میں!”
پھر دفعتاً وہ دونوں عورتیں میرے ہاتھ میں پکڑی “نمک کا جیون گھر” میں گم ہوگئیں!

تبصرہ : مسلم انصاری
کتاب : نمک کا جیون گھر
مصنف : رفعت عباس
اردو مترجم : منور آکاش

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

اقتباسات :
بات زبان سے نہیں کان سے ادا ہوتی ہے!

کسی شہر کا کلام جاگ اٹھے تو لوگ پہلے سے بڑھ کر حسین ہو جاتے ہیں!

کرائے کا سپاہی کسی قوم کا حقیقی چہرہ نہیں ہوتا!

جنگ بس ناٹک گھر ہی میں لڑی جا سکتی ہے کہ جنگ میں مرنے والا ہمیشہ کے لئے مر جاتا ہے لیکن ناٹک میں مرنے والا دوبارہ جی اٹھتا ہے، وہ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے، محبوبہ سے بارِ دگر مل سکتا ہے، کبوتروں کو دانہ ڈال سکتا ہے، کشتی روغن کر سکتا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا سپاہیوں کے بجائے ناٹک کاروں/ مسخروں کے ہاتھوں میں زیادہ محفوظ ہے!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply