گلی ڈنڈا از دی رورل فارم آف کرکٹ۔۔شہزاد اعظم

مشرق و مغرب اس کرہ ارض کی 2انتہائیں ہیں۔یہ انتہائیں نہ صرف فاصلے ظاہر کرتی ہیں بلکہ ان میں کھانے پینے ، سونے جاگنے ، رونے دھونے ، ہنسنے ہنسانے ، دیکھنے دکھانے ، چھپنے چھپانے ،  روٹھنےمنانے  اور پڑھنے پڑھانے گویا زندگی کے ہر وطیرے میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔یہاں ہم زیادہ نہیں بس ایک آدھ فرق گنوانے پر ہی اکتفا کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔ ذرا غور فرمائیے:

مشرق میں پھٹا پرانا ، چیتھڑوں والا لباس فقیرنیاں ہی پہنتی ہیں۔راستے سے آنے جانے والی ہستیاں ان پر رحم کھاتی ہیں اورانہیں کچھ نہ کچھ رقم ضرور دے دیتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اگر اس فقیرنی کو اپنی کمائی میں اضافہ کرنا ہو اور لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے زیادہ رحم پیدا کرنا ہو تو وہ اپنے اس فقیر پن میں اضافہ کرلیتی ہیں اور لباس کے چیتھڑوں کی تعداد بڑھا دیتی ہیں۔مشرقی عوام جب اس فقیرنی کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھتے ہیں تو ان کا دل پسیج جاتا ہے، ہم نے تو یہاں تک دیکھا کہ فقیرنیوں کا فقیر پن دیکھ کر اکثر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ان سے رہا نہیں جاتا اور وہ ان قسمت کی ماریوں کو اپنی حیثیت کے مطابق جیب سے نکال کر اٹھنی، چونی، روپیہ دو روپیہ جو بھی بن پڑتاہے ، دے دیتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ اس سے ان کا کچھ نہ کچھ تو بھلا ہوہی جائے گا۔گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی صاحب ثروت کو ان پر ایسا رحم آتا ہے کہ وہ بازار سے سلے سلائے ملبوسات لا کر انہیں دے دیتا ہے تاکہ ان فقیرنیوں کے فقیر پن میں کچھ کمی واقع ہو۔ اس کے برخلاف ہمارے ہاں کی فقیرنیوں جیسا لباس مغرب میں انتہائی دلچسپی ، ذوق و شوق اور شان وشوکت کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔اسے زیب تن کرنے والی ہستی اس” چیتھڑاوی “پیرہن کو اپنے لئے باعث فخر و انبساط قرار دیتی ہے ۔ ان کی ہم نفس ہستیاں انہیں دیکھ کر نہ صرف حیرا ن ہوتی ہیں بلکہ اپنا آپ بھول جاتی ہیں ۔ یہ مشرق و مغرب میں پائے جانے والے فرق کا ایک واضح ثبوت ہے۔

مشرق اور مغرب والے اپنی زندگیوں میں در آنے والے مسئلے مسائل اور ایجادات و متروکات سب کے بارے میں اپنی ہی منطق پیش کرتے ہیں۔ مشرق والے کہتے ہیں کہ ہم نے مغرب کو گزر بسر سکھایا انہیں یہ سمجھایا کہ زندگی کیا ہے اسے کیسے گزارا جائے اور ہم نے ہی انہیں یہ بتایا کہ اگر انسان بیمار ہوجائے تو اسے دوا کیلئے کس سے رجوع کرنا چاہیے اور اسے کیا دوا دینی چاہیے۔ مشرقیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دنیائے طب میں بڑے بڑے تیر مارے۔ اس ضمن میں زکریا رازی، بوعلی سینااور ابو القاسم الزہراوی جیسے ہمالہ صفت عالموں کے نام لئے جاتے ہیں۔ انکے مقابلے میں مغرب والے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے زندگی بسر کرنے کے اطوار ، آزادی کی اقدار اورلباس پہننے کے اندازسب مشرق والوں کو سکھائے۔ مغربیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بیماری سے چھٹکارا پانے کے طریقے ہی ہم نے مشرق کو نہیں سکھائے بلکہ انہیں یہ بھی سکھایا کہ بیمار کس طرح ہوا جاتا ہے۔ ان کا کہناہے کہ ہم نے اگر مرض متعارف کرائے تو اسکے ساتھ طریقہ علاج بھی دنیا کو بتلایا۔ انکا تو یہاں تک کہناہے کہ جتنی بھی تمیز داری اور تہذیب ہے وہ ہماری باندی ہے اور ہم نے ہی اسے مشرق تک سفر کی اجازت دی ہے۔

ہم اگر اس ضمن میں اپنی معلومات اور علم کو قرطاس پر مترشح کرنا چاہیں تو اسکے لئے کم از کم  ہماری ایک سال کی  تحاریر پڑھی جائیں   چونکہ لازمی بات ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے بلکہ اس ضمن میں کوئی خواب دیکھنا بھی دماغی فتور کا باعث قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہم کسی قسم کی انتہا پسندی کا ثبوت نہیں دینا چاہتے۔ ہم یہاں صرف کرکٹ کے بارے میں بات کرنا چاہیں گے۔ آپ سب قارئین سے التماس ہے کہ ذرا تمام توجہ اور 14 ، کے 14طبق اس جانب مرکوز کرلیں۔

کرکٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ برطانوی ایجاد ہے۔ اسی لئے اس کو گیم آف لارڈزیعنی راجہ مہاراجوں کا مشغلہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اسے نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ اس سے بے انتہا لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ اس دور میں کہ جسے کرکٹ کی ایجاد کا دور کہا جاتا ہے ایک بڑے سے میدان میں خواتین و حضرات اپنے کھانے پینے کی اشیاءلیکر جمع ہوجاتے اور پانچ دن تک یہ اجتماع جاری رہتا۔ 22کھلاڑی میدان میں آنے جانے میں مشغول رہتے۔ پہلے ایک شخص گیند کراتا اوردوسرا اسے بیٹ کے ذریعے دھتکارتا ۔ اسی طرح بیٹ سے کام لینے والا اپنی باری پر گیند پھینکنے کیلئے آجاتا۔ اس آمد و رفت کو کرکٹ کہا جاتا تھا۔ باقی 10کھلاڑی میدان میں گیند پکڑنے اور گیند کے پیچھے دوڑنے کیلئے موجود ہوتے تھے۔ اس تمام سرگرمیوں کو گیم آف لارڈز کا نام دیا گیا تھا۔ دوسری جانب مشرقیوں سے پوچھیں انکا دعویٰ ہے کہ کرکٹ تو گلی ڈنڈے کی اولاد ہے۔ اسے اگر انگریزی میں کہا جائے تو الفاظ کچھ یوں ہونگے کہ (گلی ڈنڈااز دی رورل فارم آف کرکٹ)

مشرقیوں کا کہناہے کہ گلی ایک لکڑی کاچھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے جس کے سرے دونوں جانب سے باریک کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی نے شارپنر کے ذریعے پینسل تراش دی ہو۔ اس گلی کو زمین پر ڈھلوان کے انداز میں رکھا جاتا ہے اور پھر ڈنڈے سے اس کو ایک ٹھوکا لگایاجاتا ہے ۔ یہ فضا میں اچھلتی ہے اور اس پر زمین تک پہنچنے سے پہلے انتہائی چابکدستی کے ساتھ اس ڈنڈے یا لٹھ سے وار کیا جاتا ہے۔یہ گلی اس وار کی شدت کے مطابق فاصلے پر جاکر گرتی ہے۔ بعض طاقتور لوگ اسے اتنی زور کالٹھ مارتے ہیں کہ یہ ایک فرلانگ دور جاکر گرتی ہے۔ پھر اسے اٹھانے والا اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس اثناءمیں فریق ثانی اپناڈنڈا زمین پر رکھ دیتا ہے اور گلی اٹھانے والا اس کے مقام سے گلی کو ڈنڈے پر مارتا ہے۔ اگریہ ڈنڈے پر لگ جائے تو پھینکنے والا جیت جاتا ہے اور اسکی باری آجاتی ہے جبکہ اگر یہ وار خالی جائے تو ڈنڈے والا گلی کو دوبارہ مار کر دور پہنچا دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انگریزوں کا کہناہے کہ یہ سلسلہ ہمارا نہیں کرکٹ ہماری اپنی ایجاد ہے جبکہ گلی ڈنڈا مشرق والوں کی ایجاد ہے جبکہ مشرق والوں کایہ دعویٰ ہے کہ ہم چونکہ کئی صدیوں سے غریب چلے آرہے ہیں اس لئے ہم مہاراجوں کی طرح کھیل کا اہتمام تو نہیں کرسکے اور نہ ہی ہم نے بیٹ بنائے اور نہ ہی گیندیں تیار کیں تاہم وہ تمام ذوق و شوق اور صلاحیتیں کہ جو کسی بھی کرکٹر کیلئے ضروری ہوتی ہیں وہ ہمارے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ہم نے کرکٹ کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کو فروغ بھی دیا او ربعدازاں چند سو سال قبل انگریزوں نے اسے ہم سے چرالیا۔ اگر گلی ڈنڈے کو رورل فارم آف کرکٹ کہا جاسکتا ہے تو پھر گلی ڈنڈے کو بھی پریمیٹیو فار م آف کرکٹ کہنا غلط نہیں ہوگا۔ یہ تو صرف کرکٹ کی بات ہے آپ دیگر کھیلوں کے بارے میں بھی اگر تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ کھیل بھی مشرق میں ہی ایجاد ہوئے تھے اور یہیں کے لوگوں نے انہیں مغرب پہنچایا۔کیونکہ بہر حال مشرق ابھرتے سورج کی زمین ہے جبکہ مغرب وہ خطہ ہے جہاں سورج کی روشنی دفن ہوجاتی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply