(میں امریکہ کے ایک ہائی اسکول میں انگریزی ادب کے علاوہ تاریخ بھی پڑھاتا ہوں۔ یہاں مختلف برسوں میں الگ الگ تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ ایک سال ورلڈ ہسٹری، ایک سال امریکا کی تاریخ، ایک سال آپ کی ریاست کی تاریخ۔
تمام ٹیکسٹ بکس معروضی، آسان الفاظ میں کہوں تو غیر جانب دارانہ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ بلکہ یوں سمجھیں جیسے کسی ملحد اور غیر امریکی تاریخ داں نے لکھی ہیں۔ورلڈ ہسٹری کا ایک یونٹ کروسیڈز یعنی صلیبی جنگوں کے بارے میں ہے۔ یہ مسیحی نقطہ نظر سے نہ لکھا گیا ہے اور نہ پڑھایا جاتا ہے۔ ایک کے بعد ایک آنے والے پوپ نے جو غلطیاں بلکہ حماقتیں کیں، ان کی صاف صاف تفصیل موجود ہے۔امریکی تاریخ سفاک سچائیوں کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن میں فاونڈنگ فادرز کے بڑے بڑے مجسمے لگے ہیں لیکن تاریخ کی کتابوں میں کوئی دیوتا نہیں۔ ان سب کی اچھی اور بری باتیں موجود ہیں۔ کسی نے غلام رکھے ہوئے تھے۔ کوئی ویمنائزر یعنی عورتوں کا رسیا تھا۔ کسی کو اور علتیں لاحق تھیں۔ محکمہ تعلیم، اسکول، اساتذہ اپنے طلبہ سے کچھ نہیں چھپاتے۔ البتہ خوبیوں کا ذکر بھی تفصیل سے ہوتا ہے۔ ان خوبیوں کا، جن کی وجہ سے امریکا کو فائدہ ہوا اور استحکام ملا۔بات یہ سمجھ میں آئی کہ تاریخ درست طریقے سے لکھی اور پڑھی نہ جائے تو اس کا فائدہ نہیں، نقصان ہوتا ہے۔ تاریخ کا ایک مقصد ماضی کی اچھائیوں اور غلطیوں سے سبق فراہم کرنا ہے۔ مسخ تاریخ سے حاصل کیے جانے والے سبق گمراہ کرتے ہیں۔ہم بطور طالب علم پاکستان کی تاریخ بھی مسخ شدہ پڑھتے ہیں اور اسلامی تاریخ بھی۔ اس مسخ معلومات اور ناقص شعور کے ساتھ جیسا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، ہم وہی نمونہ دیکھ رہے ہیں۔)
یہ پوسٹ ایک پاکستانی نژاد امریکہ میں مقیم استاد کی پوسٹ ہے جن کی فیس بک پر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ انہیں فالو کرتے ہیں۔ وہ جس تنقیدی نظر سے پاکستانی سماج کو دیکھتے ہیں اور اس سماج کی سوچ کے پیمانوں کی تنگنائیوں کا جیسے ذکر کرتے ہیں، امریکی سماج اور اس سماج کی سوچ کو مرتب کرنے والے بالائی ڈھانچے جس کا ایک حصّہ تعلیمی نظام اور اس کا نصاب ایک اہم حصّہ ہیں کو اس تنقیدی نگاہ سے نہیں دیکھ پاتے۔ یہ معاملہ صرف ان ہی صاحب کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر اس لبرل دانشور کے ساتھ ہے جو مغربی معاشروں اور وہاں کی ریاست کے کلچرل ہیجمنی آپریٹس جس کا بہت بڑا جزو تعلیمی ادارے اور ان میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے کا سطحی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔
کیا امریکی نصاب برائے تاریخ ورلڈ ہسٹری کو پوسٹ کالونیل ہسٹارین ڈسکورس سے پڑھاتا ہے؟
کیا وہ تاریخ کےلبرل فیمنسٹ ڈسکورس سے ہٹ کر اس میں ریڈیکل فیمنسٹ ڈسکورس بارے بچوں کو آگاہی دیتا ہے؟
کیا وہ مذہب بارے محض لبرل ایتھیسٹ ڈسکورس پر اکتفا کرتا ہے یا وہ اس میں پوسٹ کالونیل، لیفٹ، مارکسسٹ ڈسکورسز بھی شامل کرتا ہے؟
کیا امریکی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابیں امریکی سماج اور ریاست کی تشکیل میں امریکی سامراجیت ، قدیم مقامی باشندوں بارے اس کے رویے، افریقی باشندوں کو غلام بناکر انہیں کاموڈیٹی کی شکل میں لاکر ان کی تجارت سے سرمائے کی تشکیل میں جو کردار رہا اسے بتاتی ہے؟
امریکہ بطور عالمی طاقت کے دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں جس کردار کا مالک رہا ہے کیا وہ کردار یہ نصابی کتابیں زربحث لاتی ہیں؟
کیا اس پاکستانی نژاد استاد نے امریکی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کے متون کی ویسی ساخت شکنی کرنے کی کوشش کی جیسی ساخت شکنی وہ پاکستان کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی نصابی کتابوں کے متون کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
کیا امریکی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں میکارتھی ازم کے بارے میں “سچ” پڑھایا جاتا ہے؟
کیا ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ میں اٹھنے والی “سول نافرمانی کی تحریک ” بارے باب شامل ہے؟
کیا امریکی اسکول کے طالب علموں کو “افغان جہاد پروجیکٹ” بارے پڑھایا جاتا ہے؟
کیا یہ بتایا جاتا ہے کہ سی آئی اے نے 60ء،79ء اور 80ء کی دہائیوں میں تیسری دنیا کے ان تمام ممالک میں عوامی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹائے جو امریکی سامراج کی تابعداری نہیں کرتی تھیں؟
کیا امریکی نصابی کتب بچوں کو یہ بتاتی ہیں کہ امریکی سامراج کیسے “صہیونیت” کا محافظ اور فلسطینیوں کی نسل کشی اور تعذیب کی راہ ہموار کرتا آیا ہے؟
کیا امریکی اسکولوں کے طالب علم تاریخ کی نصابی کتابیں پڑھ کر یہ سمجھ جاتے ہیں کہ امریکی حکومتیں افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیاء میں اپنے غلبے اور تسلط کے لیے بادشاہتوں، آمریتوں کی پشت پناہی کرتی رہیں اور ان ممالک کی حقیقی آزادی و خودمختاری کے راستے میں رکاوٹ بنی رہیں؟
کیا یہ امریکی جمہوریت کے طبقاتی چہرے کو بے نقاب کرتی ہے؟
کیا یہ وہاں پر کارپوریٹ سرمائے کی بربریت اور اس سے خود امریکی سماج میں پائی جانے والی ناہواریت اور عدم مساوات بارے اشارے دیتی ہے؟ کیا کہیں یہ امریکی حکمرانہ اسٹیٹس کو کی ساخت شکنی کرنے والا تنقیدی تاریخی شعور امریکی اسکول کے بچوں میں پیدا کرتی ہے؟
جس تنقیدی شعور کے ساتھ ہمارے یہ دوست پاکستانی نصاب تعلیم کی ساخت شکنی کرتے ہیں وہ امریکی نصاب تعلیم بارے کہاں چلا جاتا ہے؟
کیونکہ ان کی پوسٹ تو امریکی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی تاریخ بارے تین نتائج کی حامل ہے:
الف: تمام ٹیکسٹ بکس معروضی، آسان الفاظ میں کہوں تو غیر جانب دارانہ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ بلکہ یوں سمجھیں جیسے کسی ملحد اور غیر امریکی تاریخ داں نے لکھی ہیں۔
ب :امریکی تاریخ سفاک سچائیوں کے ساتھ لکھی گئی ہے۔
ج: بات یہ سمجھ میں آئی کہ تاریخ درست طریقے سے لکھی اور پڑھی نہ جائے تو اس کا فائدہ نہیں، نقصان ہوتا ہے۔ تاریخ کا ایک مقصد ماضی کی اچھائیوں اور غلطیوں سے سبق فراہم کرنا ہے۔ مسخ تاریخ سے حاصل کیے جانے والے سبق گمراہ کرتے ہیں۔
کیا واقعی امریکی اسکولوں میں نصابی کتب ہائے تاریخ معروضی، غیر جانبدار ہیں؟ وہ سفاک سچائیوں کا بیان ہیں؟
امریکن ماہرین تاریخ میں ایک مکتبہ فکر پوسٹ کالونیل ہسٹری سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے نزدیک امریکی نصابی تاریخ میں کالونیل ماضی کو نہ صرف جواز فراہم کیا جاتا ہے بلکہ ایک طاقتور، سفید فام، اور مغربی تہذیب کو عظیم تر اور ترقی یافتہ دکھایا جاتا ہے، جس نے دنیا میں “تمدن” اور “ترقی” کو فروغ دیا۔
پوسٹ کالونیل دانشور اس نقطہ نظر کو رد کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکی نصابی کتب میں پیش کی جانے والی تاریخ کا بیشتر حصہ استعماری نقطہ نظر سے متاثر ہوتا ہے، جس میں کالونیل ازم کے مظالم اور مقامی آبادیوں، افریقی غلاموں، اور دیگر مظلوم طبقات کے استحصال کو نظرانداز کیا جاتا ہے یا کم کر کے دکھایا جاتا ہے۔
پوسٹ کالونیل تاریخ کے ماہرین کے مطابق، امریکی نصابی کتب میں کالونیل ازم کو ایک مثبت اور تمدنی عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ یورپیوں اور امریکیوں نے “پسماندہ” علاقوں کو ترقی اور تہذیب دی، جبکہ مقامی آبادیوں اور افریقی غلاموں کے خلاف ہونے والے مظالم کو نظرانداز کیا جاتا ہے یا اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ تاریخی واقعات کا معمولی حصہ لگیں۔ پوسٹ کالونیل نقطہ نظر کے مطابق، امریکی نصابی کتابیں مقامی امریکیوں(Native Americans)اور افریقی نژاد امریکیوں کی تاریخ کو صحیح تناظر میں بیان نہیں کرتیں۔
مقامی امریکیوں کے خلاف ہونے والے ظلم، ان کی زمینوں پر قبضہ، ان کی تہذیب اور ثقافت کی تباہی کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح، غلامی کی تاریخ اور اس کے اثرات کو بھی مختصر اور معمولی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ مسائل امریکی تاریخ کے اہم حصے ہیں۔
امریکی نصابی کتب میں سامراجی پالیسیوں، جیسے کہ 19ویں اور 20ویں صدی میں امریکہ کے بیرونی ممالک پر قبضوں اور مداخلتوں کو زیادہ تر مثبت یا ضروری اقدامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پوسٹ کالونیل ماہرین کے مطابق، ان کتابوں میں امریکی سامراجیت کو جواز فراہم کیا جاتا ہے اور اسے “آزادی” یا “ترقی” کے لیے ضروری قدم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم اور استحصال کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
پوسٹ کالونیل دانشوران اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ امریکی نصابی کتابیں طبقاتی جدوجہد، معاشی استحصال، اور سرمایہ داری کے مظالم کو نظرانداز کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، نصابی تاریخ میں اقتصادی اور طبقاتی پہلوؤں پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا، جو اس بات کی وضاحت کر سکے کہ کس طرح طاقتور طبقے اور ادارے محنت کش طبقے اور نچلی سطح کے افراد کا استحصال کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اقتصادی استحصال کے خلاف عوامی جدوجہد کو بھی کم اہمیت دی جاتی ہے۔
پوسٹ کالونیل نقطہ نظر سے، امریکی نصابی کتب میں خواتین، افریقی نژاد امریکی، لاطینی، اور دیگر اقلیتوں کی تاریخ کو یا تو نظرانداز کیا جاتا ہے یا ان کے کردار کو کم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ نصابی کتب میں زیادہ تر مردوں کی فتوحات اور حکومت پر زور دیا جاتا ہے، اور خواتین کی سماجی، اقتصادی، اور سیاسی جدوجہد کو معمولی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔
پوسٹ کالونیل تنقیدی تاریخ کے تین بڑے ناموں کو یقینا پاکستانی نژاد امریکی اسکول ٹیچر نے پڑھ رکھا ہوگا
ایڈورڈ سعید
ہومی بھابھا
گائتری چکرورتی سپیوک
ان کا لکھا کام اس پوسٹ کی تشکیل کرتے وقت ان کے ذہن میں کیوں نہیں آیا؟
نمونے کی کچھ کتب برائے تنقید امریکی نصاب تاریخ
ہاورڈ زن
(Howard Zinn)
A People’s History of the United States
ہاورڈ زن کی یہ کتاب امریکی تاریخ کو نیچے سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے، یعنی عام لوگوں، محنت کشوں، اقلیتوں، خواتین، اور سماج کے کمزور طبقات کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔ زن نے اس کتاب میں امریکی تاریخ کے روایتی بیانیے کو چیلنج کیا اور سرمایہ دارانہ استحصال، نسل پرستی، اور سامراجی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ ان کے مطابق، امریکی نصابی کتب میں حکمران طبقے اور اشرافیہ کی کامیابیوں کو نمایاں کیا جاتا ہے جبکہ عوامی تحریکوں اور طبقاتی جدوجہد کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی
(Noam Chomsky)
Manufacturing Consent
Hegemony or Survival
رچرڈ وولف
)Richard D. Wolff (
Democracy at Work: A Cure for Capitalism
مایکل پرینٹی
(Michael Parenti)
Democracy for the Few
Blackshirts and Reds
ایرک ہابز بام
(Eric Hobsbawm)
The Age of Revolution
The Age of Capital
کرس ہجز
(Chris Hedges)
Death of the Liberal Class
Empire of Illusion
ڈیوڈ ہاروی
The Enigma of Capital
A Brief History of Neoliberalism
بیٹی فریڈن
Betty Friedan
The Feminine Mystique
آڈری لارڈ
Audre Lorde
The Cancer Journals
Sister Outsider
بیل ہکس
Ain’t I a Woman
Feminist Theory: From Margin to Center
گلوریا انزالدوہ
Gloria Anzaldúa
Borderlands/La Frontera: The New Mestiza
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں