سیاست میں نا شائستگی
محمد لقمان
ان دنوں آپ ٹی وی آن کریں تو سیاست دان ایک دوسرے کو بڑے مزاحیہ ناموں سے پکارتے نظر آتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسے ایسے ناموں سے پکارا جاتا ہے جن کا اظہار آپ اپنے بچوں کے سامنے نہیں کرسکتے ۔ اپنے ہم عصر سياستدانوں کو الٹے سيدھے ناموں سے پکارنا پاکستانی سياست ميں کوئي نئي بات نہيں۔۔اس سلسلے ميں پيپلزپارٹي کے بانی اور سابق وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تو يد طولي حاصل تھا۔ انہوں نے مرحوم ممتاز دولتانہ کو چوہا، خان عبدالقيوم خان کو ڈبل بيرل خان، ايرمارشل اصغر خان کو آلو خان، آنجہانی جسٹس کارنيليس کو بليک کوبرا اور غلام مصطفی کھر کو مظفر گڑھ کے بينگن کے نام دے رکھے تھے۔
انيس سو ستر اور انيس سو ستتر کے عام انتخابات ميں پاکستان ميں فيس بک يا ديگر سوشل ميڈيا ويب سائٹس تو نہيں تھيں۔ اس ليے سياسی جماعتوں کے حامي اخباروں کے کارٹونسٹس مخالف سياسی رہنماوں کے قابل اعتراض کارٹون بنا کر اپني ذمہ داری پوری کرتے تھے۔ روزنامہ مساوات کا اس سلسلے ميں کوئی ثانی نہيں تھا۔ بے نظير بھٹو اور نواز شريف کے سياسی تصادم سے بھرپور انيس سو اسی اور نوے کی دہائيوں ميں بھي يہ سلسلہ چلتا رہا۔ نواز شريف کو سر پر کم بال ہونے اور بے نظير بھٹو کی کمزور اردو کیوجہ سے بڑی مضحکہ خيز اصطلاحات عام ہوئيں۔ پيپلزپارٹي کے سابقہ دورحکومت ميں پيپلزپارٹي کے راجہ رياض نے شہباز شريف کو مغل شہزادے اور ضدی بچے کا خطاب ديا۔ اسی دور ميں تحريک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نواز شريف اور شہباز شريف کو ڈينگي برادرز کا نام ديا۔ دو ہزار تيرہ کے انتخابات ميں اس روائت نے مزيد جڑ پکڑی۔ ن ليگ کے رہنماوں کو گيدڑ، کاغذی شير اور سرکش کے شير کہا گيا تو جواباً انہوں نے بھي اناڑی کھلاڑی کہنا شروع کرديا۔ تحريک انصاف کے حامي شيخ رشيد بھي مزاحيہ خطابات دينے سے باز نہيں آتے۔پاکستانکی ايک اہم شخصيت کے نام کے ساتھ انہوں نے دہي بھلے کو ايسے منسلک کيا کہ اب ہر کوئی اس بات کو حقيقت ہي سمجھتا ہے۔
دھرنے اور اب پانامہ ليکس کے بعد سياست دانوں کے ايک دوسرے پر رکیک حملوں ميں اضافہ ہوگيا ہے۔پاکستان کی ہمسائیگی ميں لالو پرشاد ياديو اور امريکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جيسے کردار بھي آگئے ہيں جو انتخابات کے دوران اپنے مخالفين کی ذات پر حملہ کرنے سے نہيں چوکے۔۔مگر ايسے کردار ان جمہوری ممالک ميں خال خال ہي ہيں۔مملکت خداداد ميں ناشائستگی کی نيادي وجہ سياسي رواداری کا نہ ہونا ہے۔ہم کب سياسی بلوغت حاصل کريں گے۔ ابھي کچھ کہنا ممکن نہيں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں