کلیسائی پادری و پاکستانی ملائیت کا تصور/منصور ندیم

روشن خیالی Enlightment, کا لفظ ہمارے ہاں عمومی سطح پر مشرف کے دور میں مقبول ہوا، مشرف نے یقیناً اسے ایک سیاسی سہارے کے لئے استعمال کیا تھا، جس وقت امریکہ اور افغان تنازع  کا معاملہ ہمارے سر پر آن پڑا تھا، اس لیے عمومی طور پر اس لفظ سے نفرت کا اظہار کیا جاتا رہا۔ عمومی لوگ بھی اس کے بارے میں ایک جملہ یہ سوچتے تھے کہ یہ ایک “فکری عیش” ہے, جیسے یورپی دانشوروں نے بطور اصطلاح قائم کیا تاکہ مذہب سے نکلنے کے لیے جھگڑے کے سوا کچھ نہ ہو۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر اس لفظ کا استعمال مذہب کے مقابل ایک بغاوت یا مولوی نے جس طرح استعمال کیا جیسے مذہب بیزاریت وغیرہ۔ درحقیقت اس کی وجوہات انتہائی اہم اور اپنے عہد کی ایک فوری تاریخی ضرورت کے جوابی بیانیہ کی صورت ظاہر ہوئی تھی۔ یہ فرقہ وارایت یا فرقہ وارانہ مسائل کا ایک موثر علاج تھا، جس نے پچھلی صدیوں میں یورپی معاشروں کو برباد کر دیا تھا۔

یورپ میں فرانس نے اس کی قیمت چکائی، فرانس کو فرقہ وارانہ جنگوں سے اتنا ہی نقصان پہنچا جتنا اس نے برداشت کیا۔ اسے خاص طور پر کیتھولک کی  اندھی جنونیت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کیتھولک اکثریت نے پروٹسٹنٹ اقلیت پر بدعت، کفر، اور “سچے مذہب” سے انحراف کا الزام لگا کر تباہ کر دیا، یعنی حقیقی عیسائیت، جو ان کے نقطہ نظر کے مطابق صرف کیتھولک تھی، اس وقت کیتھولک خود کو عیسائیت میں زندہ رہنے والا گروہ سمجھتے تھے۔ وہ جنت کے اکیلے وارث تھے اور باقی گروہ ان کے خیال میں جہنم تھے۔ اسی لیے انہوں نے پروٹسٹنٹ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ قریب 500 سال پہلے 24 اگست سنہء 1572 فرانس کے دار لحکومت پیرس میں سین بارتھلمی کے قتل عام کا فساد پھوٹا تھا، جو بڑھ کر بورڈو، ٹولوس، لیون اور دیگر میں پھیل گیا، ان فسادات میں تقریبا تیس ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ اس قتل عام کا مقصد پروٹسٹنٹ کمیونٹی کے رہنماؤں کو ختم کرنا تھا، (نہ کہ مجموعی طور پر پروٹسٹنٹ لوگوں کو)۔

اس وقت کیتھولک بادشاہ چارلس IX نے قتل عام کو پہلے دن سے روکنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن عوامی گروہوں نے اس کے حکم پر کان نہیں دھرے، اس لیے انہوں نے پروٹسٹنٹ کو جہاں بھی پایا ان کو اندھا کر کے ذبح کر دیا یا انہیں اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ یوں معاملات قابو سے باہر ہو گئے۔ جب فرقہ وارانہ جبلتیں پھوٹ پڑتی ہیں تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا، اور وہ گروہ کبھی رکیں گے یا نہیں، وہاں مذہبی رہنما جو اس عوام کو ابھارتے تھے، اور اتنی قتل و غارت کے بعد وہی بنیاد پرست اور پادریوں کی طرف سے عوام پر ہی جنونیت کا الزام لگایا گیا تھا، وہی مذہبی رہنما عوامی سطح پر ان گروہوں کو ابھارتے تھے، اور پھر یہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت بن گیا کہ عوام ان سے زیادہ جنونی بن گئے تھے، کہ پھر نہ وہ ان مذہبی رہنما یا بادشاہ کے کنٹرول میں رہے۔ خود ریاست بھی ان ہنگامہ بپا کرنے والے لوگوں کو روکنے میں ناکام رہی۔

آج ہم بدقسمتی سے فرانس کی اس تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ عصر حاضر کے سیکولر ماڈرنسٹ فرانس میں فرقہ وارانہ جنون کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک سب پہلے درجے کے شہری بن گئے ہیں، اس ریاست میں قانون اور اداروں کے سامنے حقوق اور فرائض میں تمام شہری برابر ہیں۔ وہاں پر تنگ فروہ پرستی کے بجائے فرانسیسی قوم پرستی نے جگہ لے لی تھی، جس میں شہری بہرحال ہر حال میں مقدم ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے روشن خیالی کی تعریف ہی اتنی متنازع ہے کہ روشن خیالی کی فکر ابھی تک ابھری نہیں ہے، ایک ایسی فکر جو پہاڑوں میں گہرائی تک پھیلی ہوئی فرقہ وارانہ جنونیت کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، کبھی سوچا کہ روشن خیالی دریچوں سے سوچنے والے فلسفیوں نے فرانس اور پورے یورپ میں کیا کیا، کوئی ہمارے پاس دیسی والٹیئر، کوئی دیسی اسپینوزا، کوئی دیسی کانٹ کی سطح کا فلسفی کیوں پیدا نہ ہو سکا، اس کی وجہ یہی ہے کہ جب تک موجودہ صورتحال میں فرقہ واریت لوگوں کے ذہنوں پر خاص طور پر عام لوگ حتی کہ پڑھا لکھا طبقہ اور نیم دانشوروں کے ایک بڑے طبقے پر حاوی رہے گی۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔

جیسے فرانس میں انتہائی جنونی، بنیاد پرست، فرقہ پرست کیتھولک پارٹی پروٹسٹنٹ کو ختم کرنا اور انہیں مکمل طور پر مٹانا چاہتے تھے، یہ وہ ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام تھا، جسے اُس وقت روم کے پوپ نے سچے عقیدے کے لیے ایک بابرکت اور مبارک فتح سمجھ کر تعریف کی تھی۔ اس فتح کے جشن میں اس نے یہ کہا کہ : خدا کا شکر ہے کہ، آج سچے عقیدے نے بدعت اور کفر پر فتح حاصل کر لی ہے۔یہ خبر سنتے ہی اس نے روم کے تمام گرجا گھروں میں شکرانے کی دعا کا حکم دیا، جب ہر طرف گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فتح کا جشن منایا جا رہا تھا تو اس نے اس نے خدا سے دعا کی، اور اپنے عقیدے کی آیات پڑھنا شروع کیں، کیونکہ اس نے اپنے تئیں کیتھولک فرانس کی پاک سرزمین کو پروٹسٹنٹ بدعتیوں کے مکروہ عزائم سے بچایا تھا۔ اس وقت اگر یہ قتل و غارت نہ ہوتی اور اس وقت کا ماحول فرقہ وارایت اور فرقہ وارانہ جنون کا شکار نہ ہوتا، تو والٹیئر، ڈیڈروٹ، روسو، اور انسائیکلوپیڈسٹ بلکہ مختلف فکر کے روشن خیالی کے تمام فلسفی بھی شاید سامنے نہ آسکتے ۔ وہ سب اصلا عیسائی مذہب کی اس جنونی اور خوفناک فرقہ وارانہ تفہیم کے ردعمل کے طور پر سامنے آئے تھے۔

حقیقتاً اس وقت مسیحیوں کے پاس بھی ایک بنیاد پرست تفہیم تھی، جو فرقہ وارانہ قتل عام سے ان کے لئے خدائی جواز کا راستہ نکالتی تھی, بلکہ عوام تو ان مسیحی علما  کی تشریحات کو خدا کی طرف سے ایک حکم ہی سمجھتی تھی۔ اسی لیے میں تو ہمارے ہاں مذہب کی فرقہ وارانہ تفہیم اور غیر فرقہ وارانہ تفہیم۔ “جماعت اسلامی”، خمینیوں، لبیکیوں، جہادی، ختم اور سپاہ جیسے تمام واضح اور بقیہ مبہم لوگوں کی مذہبی تفہیم کے علاوہ مذہب کی ایک اور ممکنہ تفہیم کو ضروری سمجھتا ہوں جو عرب ممالک میں ہے، جس کی پاکستانیوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی اور جو موجودہ حالات جس طرف جا رہے ہیں، اس میں تو لگتا بھی نہیں ہے کہ کسی کو سمجھ آئے گی۔ حتی کہ ناخواندہ عوام کو تو چھوڑ دیں، بلکہ مذہبی سکالرز اور پڑھے لکھے لوگوں سے بھی ہے، یورپ میں اتنی زبردست ترقی اور روشن خیالی کا فطری انقلاب صرف یورپ میں ہوا جب کہ پادری آج بھی کثرت سے وہاں پر بنیاد پرست ہی ہیں، لیکن انہیں اپنی عیسائیت میں موجود رومن کیتھولک کے علاوہ پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈوکس کو اب غیر کیتھولک ہونے پر سخت رائے دینے کی ہمت نہیں رہی۔

سوچیں کہ اگر یورپ میں یہ تیس سالہ فرقہ وارانہ جنگ نہ ہوتی، اور پھر جرمنی اور پورے یورپ میں نہ پھیلی ہوتی تو لائبنز، لیسنگ، کانٹ، فِچٹے، ہیگل اور بقیہ عظیم جرمن روشن خیالوں کا ظہور ہوتا؟ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان ہونے والی اس خوفناک فرقہ وارانہ جنگ میں جرمنی کی ایک تہائی آبادی ماری گئی۔ اس وجہ سے، روشن خیال فلسفیوں کا عیسائی گروہ پرستوں سے ٹکراؤ اور عیسائی مذہب کی ان کی مقید سوچ، فرقہ وارانہ، جنونی تشریح کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وجہ سے، انہوں نے اپنے مہلک مذہبی فتووں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا، یا وہ جو قتل اور ذبح کے لیے “خدائی” جواز لاتے تھے ان کو ختم کیا۔ یہ وہی فتوے ہیں جن کا آج پاکستان میں ہمیں سامنا ہے۔ اگر آج ہم ان تمام حقائق کو نہیں سمجھتے، تو ہم کبھی بھی یورپ میں ان کے شاندار عروج کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہمارے کچھ لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ بھائی ہمارا روشن خیالی سے کیا تعلق؟ ہمیں ان کی تقلید نہیں چاہیے؟ ہمیں سیکولر معاشرہ نہیں چاہیے، سوچیں ذرا کہ ان کی یہ روشن خیالی بھی 200 سال پرانی ہے، جو اٹھارویں صدی میں نمودار ہوئی تھی، ہمیں نہیں لگتا کہ ہم معاشرتی فکر میں   ان سے دو صدیاں پیچھے بیٹھے ہیں۔ کیا ہمیں سوچ کے ایسے دھارے کی ضرورت نہیں ہے، جو اس عذاب سے  گزر کر ختم ہو جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری تو عمومی سوچ اب بھی یہی ہے کہ مغربی معاشرہ ترقی کے باوجود تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا ہے، لیکن ہمیں اپنی گراوٹ اور پستی بالکل نظر نہیں آتی، ہم اس فکری روشن خالی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، اور فرقہ وارانہ کیفیت کو غیر معینہ مدت تک اپنے اوپر جاری رکھنا چاہتے ہیں، ہمارے ہاں آج بھی ایسے جلسے اور ریلیاں مقبول ہیں جس میں عوامی سطح پر اس طرح کی نعرے بازی ہوتی ہے ایک فرقے کا دوسرے فرقے کے خلاف کفر و ارتداد کے سر عام نعرے لگتے ہیں، لوگ اس پر فخر کرتے ہیں، اور جو فخر نہیں کرتے وہ خوف کی وجہ سے اس کو بات کرنے کی جرات نہیں کرتے، ہم طالبان اور اسی طرح کی فکر کو آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ جو فکری طور پر پتھر کے دور میں رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ ہم دو صدیاں پہلے والے فرانسیسی جرمن انگریز اور ترقی یافتہ یورپی ممالک کے ہی فرقہ وارانہ مسائل کا شکار ہیں، لیکن یہ  سوال ہمارے ان طبقات کو قائل کرنے اور ان کے موقف کی غلطی، ان کی خامیوں اور ان کے تکبر کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب روشن خیالی کا تصور دیا جائے گا تو یہ نہیں سمجھا جائے کہ ہمارے معاشروں میں مغربی معاشروں میں یکسانیت ہو، یقیناً ایک عظیم تاریخی تفاوت موجود ہے، ہماری روشنی خیالی یورپی روشن خیالی کی قطعی نقل نہیں ہو سکتی، بلکہ اپنی انفرادیت اور ہمارے معاشرے کے مطابق ہوگی، جو معاشرے کو مطلق الحاد کی طرف نہیں لے جائے گا، جیسا کہ مغرب میں ہوا ہے، بلکہ یہ مذہب اور فلسفہ، ایمان اور عقل کے درمیان، اسلام اور جدیدیت کے درمیان تاریخی مفاہمت کا باعث بنے گا۔ ہاں اگر یہ سلسلہ اسی طرح جلتا رہا تو مذہبی لوگوں کی موجودہ کیفیات کی وجہ سے لوگ یقینا ًمطلق الحاد کی طرف ہی جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply