(تبدیلیوں کی کتاب ) اندازاً 1500 قبل مسیح یی چنگ کو انگریزی میں I Ching لکھا جاتا ہے جس کا مطلب تغیرات یا تبدیلیوں کی کتاب ہے۔ یہ کتاب خود چین جتنی ہی قدیم ہے۔ کتاب کے مختلف متن بتاتے ہیں کہ یہ کنفیوشس اور تاؤ اندازِ حیات کی بنیاد بنی اور اسی کے ایک موضوع ( تاؤ مت کی “Dark Learning “کے ذریعہ بدھ مت نے چین میں مقبولیت حاصل کی ۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں اہل مغرب آہستہ آہستہ تبدیلیوں کی کتاب سے متعارف ہوئے (لیبنز تو اس سے بہت مسحور ہوا ) ۔ مغرب والوں پر اس کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہوا جتنا کہ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مغرب کے بہت سے لوگ اس کے ذریعہ فال نکالتے ہیں ۔ “نیویارک ٹائمز“ میں ایک مرتبہ اس امر کا ذکر کیا گیا ۔ چینی تاریخ میں بھی یہ کتاب حیرت انگیز مقبولیت کی حامل رہی تاہم، یہ کتاب گزشتہ تین ہزار سال کے دوران کسی بھی تبدیلی سے محفوظ رہی، حتی کہ ماؤسٹ مارکس ازم سے بھی ۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اہل مغرب کی بہت بڑی تعداد میں سیاستدانوں کا احترام کرنے سے گریز اور داخلی زندگی کی جانب توجہ کا رجحان متعدد مختلف صورتوں میں جاری رہا۔ اس رجحان میں تبدیلیوں کی کتاب کا بااثر کردار متفقہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے چینی لوگوں کے فیصلہ کرنے کے انداز کو نہایت گہرائی میں متاثر کیا ۔ ثقافتی اور سیاسی دونوں اعتبار سے ۔ لہذا مغرب پر بھی اس کا اثر ہوا۔ لیکن اس نے کم از کم 1950ء کے بعد انفرادی فیصلوں کو بھی اتنی ہی گہرائی میں متاثر کیا ۔ گزشتہ پچاس برس سے یہ کتاب موجود ہے اور اسے ایک مکاشفہ خیال کیا جاتا رہا ہے۔ در حقیقت مغربی معاشروں پر اس کا اثر رومن ادوار کے بعد کسی بھی چیز کی نسبت زیادہ ہے۔
تبدیلیوں کی کتاب کے اصل مآخذ پُراسراریت کی دھند میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ یہ انسانی ذہن کی کائنات میں اپنا مقام تلاش کرنے کی اولین کوششوں میں سے ایک ہے۔ یہ بات تو بہر حال واضح ہے۔ چنانچہ اس کی تہہ میں موجود عمومی نظریات تجرباتی حوالے سے ” کارگر معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ چین کے نہایت قدیم نظریہ یانگ اور ین کی پیداوار ہے ۔ یانگ کا اصل مطلب سورج کی روشنی ہے، جبکہ ین سے مراد روشنی اور حرارت کی عدم موجودگی ہے۔ ان دو متضاد اصولوں کو کائناتی قوتیں سمجھا گیا ۔ مردانگی / نسوانیت ، گرمی سردی، روشنی / تاریکی، خشکی / گیلا پن سختی / نرمی وغیرہ ۔ چینیوں نے تصور کیا کہ دو مظاہر کی باہمی جدلیات نے کائنات کو پیدا کیا۔ روایت کے مطابق چین کے افسانوی شہنشاہ فوہسی (Fu Hsi) نے یی چنگ کی بنیاد پر آٹھ بنیادی سہ رکنی خاکے ٹوٹی اور سالم تین تین لائنوں کے سیٹ بنائے تھے۔ ان سہ رکنی خاکوں میں سے کسی بھی دو کو مِلا کر 64 ہشت رکنی خاکے (Hexagrams) بنائے جا سکتے ہیں ۔ یی چنگ کا اوریجنل ٹیکسٹ ہر ایک ہشت رکنی خاکے کے علامتی مفہوم کے بیان پر مشتمل ہے۔ لیکن اس وضاحت کے باوجود انہیں سمجھنا ممکن نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بارہویں صدی کے بادشاہ وین (Wen) نے قید کے دوران 164 امتزاجات ایجاد کیے تھے۔ خیال ہے کہ اس کے بیٹے ، چو (Chou) نے ہر ہشت رکنی خاکے (Hsiao) پر تفاسیر کا اضافہ کیا، لیکن یی چنگ کا ہم تک پہنچنے والا متن (اگر چہ 1715ء میں اس میں ترمیم کی گئی ) کنفیوشس کا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کنفیوشسی عالم کہلانے والے افراد نے کنفیوشس کی گلدستہ تحریر اور دیگر تحریروں کی طرح اسے بھی اس کی موجودہ شکل دی ۔ البتہ یہ قرین قیاس نہیں کنفیوشس خود بھی الوہیت میں دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ کتاب اب بھی ایک قسم کی مذہبی سند رکھتی ہے، کنفیوشس ازم ایک مذہب نہیں بلکہ اخلاقیات کا ایک ( ناکام ) ضابطہ ہے۔ تاہم، یہ امر نا قابل تصور ہے کہ کتاب کے بارے میں کنفیوشس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس نے کیا کہا۔ بے شمار اور نہایت مختلف اندازے قائم کیے گئے ہیں ۔
نا معلوم مصنف کی تحریر یی چنگ ہر ایک چیز پر استدلال کرتی ہے ۔“ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے لیے زیادہ قابل قدر ہے جو ینگی (Jungian) یاحتیٰ کہ غیر ینگی حوالے سے بھی اپنے بے شعور ذہنوں کو کھوجنا یا” اپنے آپ کو تلاش کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف اس قسم کا تصور کافی نقصان دہ یا حتیٰ کہ کم از کم خود جاذبی سوچ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ غالباً اس میں یہ دونوں ہی چیزیں ہیں ۔ تاہم کتاب میں بذات خود کوئی دانش موجود نہ ہونا عجیب ہو گا کیونکہ چینیوں نے اسے ہمیشہ بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ در حقیقت یی چنگ دوسری صدی قبل مسیح میں اس وقت لکھی گئی جب شانگ اور چولوگ کچھوے کے خولوں سے شگون لیا کرتے تھے۔ خولوں کو گرم کرنے پر ان میں بننے والے شگافوں کی تحریر کو پڑھا جاتا ۔ حکایت کے مطابق فوہسی نے کہا تھا کہ اس نے اپنے آٹھ سہ رکنی خاکوں کو پہلی مرتبہ ایک کچھوے کے خول پر دیکھا تھا ۔ 213 ق-م میں جب چن سلطنت کے پہلے شہنشاہ شی ہوانگ تی ‘ جس نے سٹالن اور ہٹلر کی طرح اپنے اقتدار کی خاطر ماضی کو بدلنے کی کوشش کی ‘ نے کتب سوزی کا حکم دیا تو یی چنگ نے شاید اپنی موجودہ صورت اختیار کی ۔ یہ نام نہاد تاریخی ریکارڈز، موسیقی ، رسوم، شاعری اور قدیم نعمات کی واحد کتاب کھل عام موجود رہی ۔ اسے باعث خطر نہ سمجھا گیا کیونکہ یہ الہام یا فال گیری کی کتاب تھی ۔ اس کے بعد جلد ہی اسے ہر عالم کی تربیت کا لازمی جزو سمجھا جانے لگا ، اور اس نے ایک فریم ورک مہیا کیا جس کے اندر ہر ایک چیز پر بحث کی جاتی تھی ۔ انجام کاری یی چنگ“ کو بھی بائبل کی طرح دنیا کے ہر مقصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ۔ الکیمیا دانوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی نظاموں کے مبغلین اور اذیت پسندوں (Sadists) نے بھی اسے استعمال کیا۔ جہاں تک مغرب والوں کا تعلق ہے تو یی چنگ کا ایک انگریزی ترجمہ نہایت مقبول ہوا جو ایک عالم اور پروٹسٹنٹ مبلغ جیمز لیگی نے کیا۔ جیمز لیگی آکسفورڈ میں چینی زبان کا پہلا پروفیسر بنا۔ اس کے بعد رچرڈ ولہلم نے یی چنگ کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ۔ سی جی ینگ نے اس ترجمے کا دیباچہ لکھا۔
اس مقبول عام نجی کتاب الہام کے متعلق یہ تمام ابہام شاید نا گوار معلوم ہوں۔ یہ بذات خود محض ایک غلط ملط ریکارڈ ہی نہیں، بلکہ اسے مغرب میں متعارف کروانے والے مترجمین کے ناگزیر مذہبی تعصب نے بھی اپنا کام دکھایا۔ چینی زبان کے مختلف ماہرین یی چنگ“ کے کئی مختلف ترجمے کر سکتے ہیں اور وہ سبھی مستند ہوں گے۔ لیکن کتاب کی تہہ میں اس کی اصل دانش بدستور موجود ہے جو خود کو نہایت موثر انداز میں آشکار کرتی ہے۔ ملحدین کے سوا تمام حلقہ ہائے فکر کے لیے اس کا تھیسیس غیر معمولی نہیں : زندگی کائناتی نظم پر مرکوز ہے، اور وہ نظم بھی تبدیلی و تغیر سے مبرا نہیں چنانچہ انسانوں کو ناگزیر کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنا سیکھنا چاہیے۔ غالباً بہت سے اہل مغرب نے اسے فلسفہ تقدیر کے طور پر دیکھا۔ تقدیر پرست اپنی قسمت سمیت ہر چیز کو پہلے سے طے شدہ سمجھتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے خیال میں یہ نکتہ نظر شخصی ذمہ داری کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
تقدیر کا چینی تصور منگ (Ming) کچھ مختلف ہے۔ درحقیقت متعدد نسبتاً کم خام مغربی رویوں میں اس کی بازگشت موجود ہے۔ منگ سے مراد محض وجود کے تمام حالات اور ساری کائنات کی قوتیں ہے۔ اگر ہمیں کامیاب سرگرمیاں اپنانا ہیں تو ان حالات یا شرائط کے ساتھ ( جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں تعاون کرنا پڑے گا ۔ لہذا کنفیوشس نے کہا: “منگ سے نا آشنا شخص اعلیٰ ) انسان نہیں بن سکتا ۔‘ یی چنگ میں جا بجا ہمیں اعلیٰ انسان کی اصطلاح ملتی ہے۔ یہ اعلیٰ انسان عام مفہوم میں اعلیٰ یا برتر نہیں ، وہ صرف دانش کا مالک ہونے کے باعث اپنے حالات سے برتر ہے۔ چنانچہ اپنی تقدیروں پر مختار نہ ہونے کے باوجود ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیے: ہم غالب کائناتی حالات کے ہمراہ سفر کرنے کی راہ منتخب کر سکتے ہیں۔
ظاہری طور پر کنفیوشس نے خود الہامی یا کہانتی کتاب سے رجوع نہیں کیا تھا۔ اس کی بجائے اس نے دنیا کی اصلاح کرنا چاہی اور ناکام رہا۔ تا ہم، اس نے کہا کہ اگر میرے خیالات غالب آجائیں تو وہ منگ ہیں اور اگر غالب نہ آسکیں تو وہ منگ نہیں ۔ یوں یی چنگ کی بنیادوں کو غیر اخلاقی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی اس کا اخلاقیات یا نیکی کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ الہام سے رجوع کرنے والا شخص جان لیتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا ۔ اس کی بے انتہاء مقبولیت کے پیش نظر یہ جاننا ممکن نہیں اس کا زیادہ فائدہ بُروں نے اٹھایا یا اچھوں نے۔ عیسائی ہمیشہ یہ سوال کرتا ہے: ” ایک خدائے خیر کس طرح شر کو آزاد چھوڑ سکتا ہے؟ البتہ چینی خدا زیادہ غیر شخصی ہے اور اس کے بارے میں ایسا سوال نہیں کیا جاتا ۔ اصل معاملہ نیک یا اچھا ہونا نہیں بلکہ حقیقت کے ساتھ مربوط ہونا ہے ۔ ہٹلر اتنا خوش قسمت کیوں تھا؟ یقیناً اس وجہ سے تو نہیں کہ اس نے ”یی چنگ” کے بارے میں سن رکھا تھا، لیکن اس قسم کے لوگ آج کل کے بیشتر کروڑ پتی لوگوں کی طرح جو نیکی سے لاتعلق ہونے کے باوجود کوئی نہ کوئی مذہب ضرور اپنائے رکھتے ہیں ) اپنے اپنے دور کی حقیقتوں کے ساتھ ضرور منسلک ہوتے ہیں۔
ہم ایسے لوگوں کی ” جبلت“ اور ”قسمت“ کی بھلا اور کیا وضاحت کر سکتے ہیں؟
چنانچہ یی چنگ بھی نیکوں کے ساتھ ساتھ موقع پرستوں کی خدمت میں بھی موجود ہے۔ تاہم، اس میں ہر چیز کا استدلال شامل نہیں ۔ اس معاملے میں یہ بہت رمزیہ اور مبہم ہے۔ شاید کسی دور میں یہ ہر چیز کے لیے استدلال کی حامل تھی ؟ لیکن اس کا بنیادی اصول ، یہ خیال کہ ہر چیز رو بہ تغیر ہے، اب بھی کافی استناد کا حامل ہے۔
یہاں اس کا درست رتبہ یہ ہے کہ یہ مسیحی ریاضت کے لیے ایک آلے کا کام دے سکتی ہے، جبکہ اس کے ماخذ ابہام کی دھند میں ملفوف ہیں ۔ نیز یہ ایک زراعتی تہذیب کی پیداوار ہے۔ یہ اپنے استعمال کرنے والوں کو ایک طرح کا ” زندہ ہونے کا احساس دیتی ہے۔ ماہر نفسیات سی جی ینگ کا اسے لاشعور کی کنجی قرار دینا پُر اثر تھا۔ لیکن اس نے تاریخی مفہوم میں اس پر قطعی غیر تنقیدی رویہ اختیار کیا ہمیں ”یی چنگ کی صورت میں مجسم فلسفہ کی قسم پر غور و خوض کرنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں