نظریہ انتشار کی عمل پذیری/ریان نقوی

میرے اِس مضمون کے لکھنے سے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ اور آپ کے اِس تحریر کو پڑھ لینے سے کیا کوئی معاشرتی فرق پڑسکتا ہے؟ بذاتِ خود تو یہ سوشل سائنس کے سوالات ہیں لیکن اِس کی ایک ریاضیاتی توجیہ بھی موجود ہے بلکہ ریاضی کی ایک مکمل شاخ اِس سے متعلق ہے۔ ہم اِن دونوں سوالات کی طرف بعد میں آئیں گے ذرا کچھ دیر کے لیے ماضی میں چلتے ہیں۔

نیوٹن اپنے کمرے میں موجود ہے، اِس نے حرکت کے قوانین دریافت کرلیے ہیں۔ وہ اِس بات کو جان چکا ہے کہ چیزیں زمین کی طرف کیوں گرتی ہیں۔ وہ نظام شمسی میں موجود سیاروں کی حرکت کو بھی سمجھ چکا ہے اور جب اُسے اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے موجودہ ریاضی نامکمل محسوس ہوئی تو یہ ایک نئی ریاضی کی شاخ کی بنیاد بھی رکھ چکا ہے۔ ریاضی کی وہ شاخ آج ’’کیلکولس‘‘ کے نام سے شہرت رکھتی ہے جس سے انٹرمیڈیٹ پری انجینئرنگ کا ہر طالب علم ابتدائی واقفیت ضرور رکھتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر نیوٹن ’’کیلکولس‘‘ ایجاد نہ کرتا تو کیا سائنس میں انقلاب آفریں ترقی ممکن ہو پاتی؟

بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ نیوٹن کے پاس اپنا تحقیقی کام شائع کروانے کے لیے ضروری رقم بھی نہیں تھی۔ لیکن خوش قسمتی سے ایڈمنڈ ہیلی نے اِس کے کام کی اہمیت کو سمجھا اور اُسے وہ رقم فراہم کردی۔ نتیجتاً جو کتاب شائع ہوئی اُس کا عنوان ’’پرنسپیا میتھمیٹیکا‘‘ ہے اور اِسے انسانی تاریخ میں کسی فردِ واحد کی، صرف ایک سائنسدان  کی لکھی ہوئی، اہم ترین کتاب کا مقام حاصل ہے۔

غور کیجیے کہ اگر ’’پرنسپیا‘‘ کے نام سے مشہور یہ کتاب ہمارے سامنے نہ ہوتی تو شاید ہم فطرت کے بارے میں اِس طرح آگاہ نہ ہوتے جس طرح آج ہیں،تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ اِس کا فیصلہ آپ خود کیجیے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ جنگِ عظیم اوّل جیسی خونریز جنگ کس وجہ سے شروع ہوئی؟ صرف آسٹرین باشندے فرانز فرڈینارڈ کے قتل ہوجانے کی بناء پر، جس نے بعد میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ایک مفروضے کے مطابق اگر جنگ عظیم اوّل وقوع نہ ہوتی تو دوسری عالمی جنگ کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔

ابتداء میں ایک نہایت چھوٹی تبدیلی سے بڑے اور گمبھیر نتائج پیدا ہوسکتے ہیں جنہیں اکثر اوقات روایتی معقولیت پسندی سے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اِس نظریے کو سائنس میں ’’نظریہ انتشار‘‘ (Chaos Theory) کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا اطلاق آج کائنات کی وسعتوں سے لے کر اسٹاک مارکیٹوں میں اتار چڑھاؤ کی پیش گوئی تک، اَن گنت شعبوں میں کیا جارہا ہے۔ سائنسی زبان میں ’’کیوس‘‘ کا نظریہ کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

’’کسی بھی پیچیدہ نظام کی ابتداء میں پیدا ہونے والی تبدیلی غیر معمولی نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ہے‘‘

یہاں نظام سے مراد کچھ بھی ہوسکتا ہے مثلاً شہابیوں کی حرکت، زمین پر موسمیاتی تبدیلیاں حتیٰ کہ لوگوں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

اِس سے پہلے ریاضی دان یہ سمجھتے تھے کہ کسی نظام کے ابتدائی مرحلے میں پیدا ہونے والی تبدیلی آخر میں بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے، جبکہ حقیقت اُس کے برعکس تھی۔ انیسویں صدی عیسوی کے اختتام اور بیسویں صدی کی ابتداء میں جب مشہور فرانسیسی ریاضی داں ہنری پوئنکارے نے زمین، چاند اور سورج کی حرکت کا ایک دوسرے کی نسبت سے مطالعہ کیا تو وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ ان تینوں کی حرکت کو بیک وقت مدنظر رکھتے ہوئے پیش گوئی کرنا بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ یہ پوئنکارے ہی تھا جس کی ابتدائی تحقیقات نے ’’کیوس تھیوری‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا۔

البتہ اِس نظریئے کی باقاعدہ صورت 1960ء کے عشرے میں سامنے آئی جب ریاضی دان ایڈورڈ لورنز (Edward Lorenz) نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ حیران کُن انکشاف کیا کہ اعشاریہ کے ہزارویں حصے جتنی معمولی تبدیلی بھی ماحولیاتی تغیر پر بے حد اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ مقدار کو مزید چھوٹا کرتا گیا لیکن ہر بار مختلف گراف سامنے آتا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے کوئی شخص اسنوکر کھیلتے ہوئے ہر بار ایک ہی رفتار اور ایک ہی نقطہ پر گیند مارنے کی کوشش کرے لیکن ہر بار اِن گیندوں کی جگہ مختلف ہو۔

اِس پر ایک تمثیل بھی مشہور ہے جو کہ حقیقت نہیں ہے لیکن اِس عمل کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ تمثیل ہے کہ
اگر ٹیکساس میں تتلی اپنے پنکھ پھڑپھڑائے تو چین میں شدید طوفان آسکتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اِسی وجہ سے نظریہ انتشار کی عمل پذیری کو ’’تتلی اثر‘‘ (Butterfly Effect) کے نام سے بھی شہرت حاصل ہے، اور آج کے زمانے میں یہ کوئی ناقابلِ یقین بات بھی نہیں رہی کیونکہ اِس کا مشاہدہ سینکڑوں قدرتی نظاموں میں کیا جاچکا ہے۔
اِس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اِس مضمون کے لکھنے اور پڑھنے سے کتنی تبدیلی رونما ہونے کا امکان ہے کیونکہ معاشرتی نظام کی پیچیدگی بھی کسی دوسرے قدرتی نظام سے کچھ کم نہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply