مخدومی خواجہ صاحب!السلام علیکم
آپ کا والانامہ ملا۔آپ کی علالت کا حال معلوم کرکے تردد ہوتاہے، اللہ تعالیٰ صحتِ عاجل عطا فرمائے۔
مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ کو اسلام اور پیغمبرِ اسلام (صلعم) سے عشق ہے،پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو ایک اسلامی حقیقت معلوم ہوجائے اور آپ اس سے انکار کریں؟ بلکہ مجھے ابھی سے یقین ہے کہ بالآخر آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے۔ میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے۔ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہوگیا تھا۔ کیونکہ یورپین فلسفہ بحیثیتِ مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتاہے۔ مگر قرنِ حکیم میں تدبّر کرنے اور تاریخِ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اور میں نے محض قرنِ حکیم کی خاطراپنے قدیم خیال کو ترک کردیا۔اور اس مقصد کے لیے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا۔
رہبانیت اور اسلام پر مضمون ضرور لکھوں گا۔ لیکن آپ کے مضمون کے بعد رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے۔بلکہ ہرقوم میں پیدا ہوئی ہے۔ اور ہر جگہ اس نے قانونِ شریعت کا مقابلہ کیا ہےاور اس کے اثر کو کم کرنا چاہاہے۔ اسلام درحقیقت اسی رہبانیت کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔
تصوف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا اور اس جگہ تصوف سے میری مُراد ایرانی تصوف ہے۔اس نے ہرقوم کی رہبانیت سے فائدہ اُٹھایا۔اورہررہبی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ قرمطی تحریک کا مقصد بھی بالآخر قیودِ شرعیہ اسلامیہ کو فنا کرنا تھا، اور بعض صوفیأ کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے کہ وہ اس تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔
اب تک جو اعتراضات آپ کی طرف سے ہوئے ہیں۔ وہ مثنوی کے دیباچہ پر ہوئے ہیں نہ کہ خودمثنوی پر۔ اس لیے جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ مثنوی پر آپ کے کیا اعتراضات ہیں، اس وقت تک میں کیونکر قلم اٹھا سکتاہوں؟ اب تک مثنوی پر جو اعتراض آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حافظ شیرازی کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ لیکن جب تک اصولی بحث نہ ہو، یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ میں حافظ پر تنقید کرنے میں کہا تک حق بجانب ہوں۔
حضرت امام ربانی مجدد الفِ ثانی ؒ نے مکتوبا ت میں ایک جگہ یہ بحث کی ہے کہ گسستن اچھاہے یا پیوستن؟ یعنی فراق اچھاہے یا وصال؟ میرے نزدیک گسستن ، عین اسلام ہے، اور پیوستن رہبانیت یا ایرانی(غیراسلامی)تصوف ہے، اور میں اسی غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتاہوں۔گزشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔
آپ کو یاد ہوگا جب آپ نے مجھے ’’سِرّ الوصال‘‘ کا لقب دیا تھا۔ تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے ’’سرّالفرق‘‘ کہا جائے۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں یہ امتیاز تھا جو حضرت مجدد الفِ ثانی ؒ نے کیا ہے۔ آپ کے تصوف کی اصطلاح میں اگر اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہوگا کہ شانِ عبدیت انتہائی کمال روحِ انسانی کا ہے۔اس سے آگے اورکوئی مرتبہ نہیں ہے۔ یا ابنِ عربیؒ کے الفاظ میں ’’عدم محض‘‘ ہے۔ یا بالفاظِ دگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ حالتِ سُکر منشائے اسلام اور قوانینِ حیات دونوں کے خلاف ہے۔ اور حالت صحو جس کا دوسرانام اسلام ہے، قوانینِ حیات کے عین مطابق ہے۔ اور خود آنحضرت صلعم کا منشأ بھی یہی تھا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جن کی حالت کیفیتِ صحو ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے صحابہؓ میں ہمیں صدیق اکبرؓ اور فاروقِ اعظمؓ تو ملتے ہیں لیکن حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔
یہ مضمون بہت طویل ہے، اس مختصر خط میں نہیں سما سکتا۔ انشااللہ اس پر مفصل بحث کرونگا، جب حالات مساعدت کریں گے۔ مگر شیخ ابن عربی ؒ کے ذکر سے ایک بات یاد آئی جس کو اس لیے بیان کرتاہوں کہ آپ کو غلط فہمی نہ رہے،میں شیخ کی عظمت اور فضیلت دونوں کا قائل ہوں اور ان کو اسلام کے بہت بڑے حکمأ میں سے سمجھتاہوں۔مجھ کو ان کے اسلام میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ جو عقائد ان کے ہیں(مثلاً قدم ارواح اور وحدت الوجود) اُن کو انہوں نے فلسفہ کی بنا پر نہیں جانا بلکہ نیک نیتی سے قرانِ حکیم سے مستنبط کیا ہے۔پس ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط، قرانِ حکیم کی تاویل پر مبنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو تاویل انہوں نے پیش کی ہے وہ منطقی یا منقولی اعتبار سے صحیح ہے یا غلط؟ میرے نزدیک ان کی پیش کردہ تاویل یا تفسیر صحیح نہیں ہے۔ اس لیے گو میں ان کو ایک ۔ مخلص مسلمان سمجھتاہوں مگر ان کے عقائد کا پیرو نہیں ہوں۔
اصل بات یہ ہے کہ صوفیأ کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی ہوئی ہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں ہیں۔ مقدم الذکر کا مفہوم مذہبی ہے اور مؤخرالذکر کا مفہوم خالص فلسیانہ ہے۔ توحید کی ضد کثرت نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض صوفیأ سمجھتے ہیں بلکہ شرک ہے۔ ہاں وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدۃ الوجود یا زمانۂ حال کے فلسفۂ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا وہ موحد تصور کیے گئے۔ حالانکہ ان کےثابت کردہ مسئلہ کا تعلق، مذہب سے بالکل نہ تھا۔ بلکہ نظامِ عالم کی حقیقت سے تھا (یعنی یہ کہ اس کائنات کا وجود حقیقی نہیں ہے۔)
اسلام کی تعلیم نہایت صاف اور واضح اور روشن ہے۔ یعنی یہ کہ عبادت کے لائق صرف ایک ذات ہے۔ باقی جو کچھ کثرت عالم میں نظر آتی ہے۔ وہ سب کی سب مخلوق ہے۔ گوعلمی اور فلسفیانہ اعتبار سے اس کی حقیقت ایک ہی کیوں نہ ہو۔ چونکہ صوفیأ نے فلسفہ اور مذہب کے دو مختلف مسائل(وحدت الوجو اور توحید) کو ایک ہی سمجھ لیا ،اس لیے ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ توحید کو ثابت کرنے کا کوئی اور طریق ہونا چاہیے جو عقل اور ادراک کے قوانین سے تعلق نہ رکھتاہو۔ اس غرض کے لیے حالتِ سُکر ممدومعاون ہوتی ہے اور یہ ہے اصل، مسئلۂ حال و مقامات کی ۔ مجھے حالتِ سُکر کی واقعیت سے انکار نہیں ہے۔ انکار صرف اس بات سے ہے کہ جس غرض کے لیے یہ حالت پیدا کی جاتی ہے۔ وہ غرض ا س سے مطلق پوری نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ صاحبِ حال کو ایک علمی مسئلہ کی تصدیق ہوجاتی ہے نہ کہ مذہبی مسئلہ کی(یعنی حالتِ سُکر یا جذب و مستی میں سالک کو اس بات کا علم ہوجاتاہے کہ واقعی کائنات میں اللہ کے سوا اور کسی کا وجود نہیں ہے) صوفیا نے وحدۃ الوجود کی کیفیت کو محض ایک مقام لکھاہے۔ اور شیخ اِ اکبر کے نزدیک یہ انتہائی مقام ہے۔ اور اس سے آگے ’’عدمِ محض‘‘ ہے۔ لیکن یہ سوال کسی صوفی کے دل میں پیدا نہیں ہوا کہ آیا یہ مقام حقیقت نفس الامری کو بھی واضح کرتاہے یا نہیں؟
اگر کثرت حقیقتِ نفس الامری ہے تو یہ کیفیتِ وحدۃ الوجود، جو سالک پر طاری ہوتی ہے، محض دھوکہ ہے اور مذہبی یا فلسفیانہ اعتبار سے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ نیز اگر یہ کیفیتِ وحدۃ الوجود محض ایک مقام ہے اور کسی حقیقتِ نفس الامری کا اس سے انکشاف نہیں ہوتا تو پھر اس کو معقولی طورسے ثابت کرنا بھی بے سود ہے، جیسا کہ ابن عربی اور ان کے متبعیین نے کیا ہے۔ اور نہ ہی اس کے مقام ہونے کی بنأ پر ہمیں روحانی زندگی میں کوئی فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔ کیونکہ قرانی تعلیمات کی روشنی میں یا اس کی رُو سے، وجود فی الخارج (کائنات) کی ذاتِ باری کے ساتھ اتحاد یا عینیت کی نسبت نہیں ہے(یعنی خدا خالق ہے اور کائنات مخلوق ہے اور خلق اور مخلوق کے مابین مغائرت ہوتی ہے) اگر قران کی تعلیم یہ ہوتی کہ ذاتِ باری تعالیٰ کثرتِ نظام عالم میں دائرسائر ہے ، تو کیفیتِ وحدۃ الوجود کو قلب پر وارد کرنا مذہبی زندگی کے لیے نہایت مفید ہوتا۔ بلکہ یہ کیفیت مذہبی زندگی کی آخری منزل ہوتی ۔
مگر میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قران کی تعلیم نہیں ہے(یعنی قران کی رُو سے خالق اور مخلوق یا عابد او رمعبود میں مغائرتِ کلی ثابت ہوتی ہے) اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ میرے نزدیک یہ کیفیت، قلبی یا مذہبی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں رکھتی۔ اور علم الحیات کی رُو سے یہ ثابت کیا جاسکتاہے کہ اس کیفیت کا ورُود، ملی اعتبار سے بہت مضر ہے، مگر علم الحیات کی رُو سے اس پر بحث کرنا بہت فرصت چاہتاہے۔ فی الحال اس خط کو ختم کرتاہوں۔ اور اس طویل سمع خراشی کے لیے معافی چاہتاہوں۔
فقط
آپ کا خادم
محمد اقبال

نوٹ:یہ تحریر ادریس آزاد صاحب کی فیس بک وال سے کاپی کی گئی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں