سوال: صحافی سب کا انٹرویو کرتے ہیں، تابڑ توڑ سوالات کرتے ہیں، احتساب کرتے ہیں، کیا آپ خود ان سب کے لئے تیار ہیں؟
میں: کیوں نہیں، ہم سب کو سوالوں کے جواب دینے چاہئیں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے آپ کو اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے اگر آپ سچے ہیں، دلیل رکھتے ہیں۔ پریکٹیکل لوگوں کے پاس ہمیشہ جواب موجود ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان کے جواب، دلیل سے اتفاق کرے یا نہ کرے، یہ اس کا حق ہے۔
سوال: چلیں، پھر یہیں سے شروع کر تے ہیں، آپ پی ٹی وی پر پروگرام کر رہے ہیں، کیوں؟
جواب: اور میرا اس سوال کے جواب میں سوال ہے کہ مجھ سے یہ سوال ہی کیوں۔ میں ایک صحافی ہوں۔ مجھے صحافت میں تین عشرے ہو چکے اور آدھا سے زیادہ وقت ٹیلی ویژن سکرینوں پر پروگرام کرتے ہی گزرا ہے ۔ آپ میری رائے اور تجزئیے پر سوال کر سکتے ہیں مگر میرے تجربے اور حب الوطنی پر نہیں۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن پر اگر پاکستان کے صحافی پروگرام نہیں کریں گے تو پھر کیا انڈیا اور اسرائیل کے صحافی کریں گے۔ اپنے وطن کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے کریں گے؟
سوال: نہیں، سوال یہ ہے کہ آپ سمیت ہر کسی کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہئے؟
جواب: تو پھر یہ میرٹ کیا ہے۔ میں اپنے سے پہلے اپنے بھائی امین حفیظ کی بات کروں گا، وہ 1982 ء سے جرنلزم میں ہے، روزنامہ جنگ سے ہی اس سے صحافت کا آغاز کیاا ور پھر جیو میں آ گیا۔ میرے دوست منصور علی خان نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے قومی اسمبلی میں بیان پر اعتراض کیا کہ امین حفیظ جیو سے نہیں بلکہ ڈسکور پاکستان سے پی ٹی وی میں آیا ہے مگر کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی نہیں دیں گے کہ چالیس برس تک جنگ اور جیو سے وابستہ رہنے کے بعد امین حفیظ جنگ اور جیو کی پہچان تھا ، جنگ اور جیو اس کی پہچان۔ آپ رضوان رضی کی بات کرتے ہیں تو وہ مست ملنگ شخص پینتیس برس سے صحافت کے خارزار کی خاک چھان رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ پاکستان اور جمہوریت کی بات کی۔ دی نیشن سے لے کر سی این بی سی تک ہر جگہ اس کا نام چلتا ہے۔ وہ اپنے طرز کے منفرد ’دادا پوتا شو‘ سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ بینش سلیم کے چودہ پندرہ برس کی سکرین کی با ت کریں، وہ اپنی سیدھی بات سے اپنی ملک گیرپہچان رکھتی ہے۔
آپ میرے بار ے میں پوچھیں تو میں نے رپورٹنگ اس وقت شروع کی جب خبریں اخبار شروع ہوا یعنی یہ ربع صدی سے بھی کہیں زیادہ کی داستان ہے۔ میں روزنامہ’ دن‘ اور روزنامہ ’ایکسپریس‘ کا چیف رپورٹر رہا۔ اسی دوران میں نے تمام سیاسی تحریکیں کور کیں جیسے قاضی حسین احمد کے ساتھ ان کا لانگ مارچ، آنسو گیسیں کھائیں ۔ میں نے دنیا کے موسٹ وانٹڈ پرسن اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا۔ یہ میں ہی تھا جس نے آج ٹی وی سے پاکستان بھر کے مسائل اجاگر کرتا پروگرام خیبرایجنسی، مہمند ایجنسی، درہ آدم خیل، گوادر، ٹھٹھہ، مظفر آباد سمیت ملک بھر میں جا کر کیا، میرا چیلنج ہے کہ ایسا تجربہ کسی کے پاس ہو تو بتائے۔ میں نے سٹی فارٹی ٹو سے’ نیوز نائیٹ‘ کے پلیٹ فارم سے عوامی مسائل کو اجاگر ہی نہیں حل کروانے والا پروگرام آٹھ سال تک کیا اور پھر’ نیو نیوز‘ کا پودا اے لائیٹ کی صورت میرے ہاتھ سے ہی لگا۔ میں نے اپنے ملک کے معتبر ترین صحافی جناب مجیب الرحمان شامی کے اخبار’ روزنامہ پاکستان‘ کے صفحہ دو پر سات، آٹھ برس تک مسلسل کالم نگاری کی اور اس وقت بھی ’روزنامہ نئی بات‘ کا ایڈیٹر ہوں۔ یاد رکھیں، صحافت میں سفارش نہیں چلتی۔ یہ بہت بے رحم پیشہ ہے۔ اخبار میں ہر صبح اور ٹی وی پر ہر لمحے آپ کا احتساب ہوتا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کل کی پیداوار گالی، بکواس اور فیک نیوز پر پلنے والے یوٹیوبرز جب یہ کہتے ہیں کہ ہم صحافی نہیں تو پھر کیا وہ صحافی ہیں؟
سوال: مگر صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے، آپ پی ٹی وی پر آزاد اور غیر جانبدار صحافت کرسکتے ہیں؟
جواب: فکری مغالطوں سے باہر نکلیں، یہ سوال اپنی جگہ پر لطیفہ ہے کہ سونے کے سمگلروں کے چینل پر توآزاد صحافت ہوتی ہے مگر ریاست کے چینل پر نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیںکہ بہت کم مالکان میر شکیل الرحمان اور چوہدری عبدالرحمان جیسی آزاد صحافت کرواتے ہیں۔ ہیرو کو ہیرو اور ولن کو ولن کہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ ترکیہ کے سٹیٹ فنڈڈ ٹی وی اور دی ہندو جیسے اخبار کے نمائندے بھی پی ٹی وی پر کام کرنے کے حوالے سے فضول گوئی کریں تو وہ ذرا اپنے دامن کو دیکھیں، اپنے بندِ قبا کو دیکھیں۔ ہر چینل کی ایک پالیسی ہوتی ہے جسے پروفیشنلز فالو کرتے ہیں اور پی ٹی وی کی بھی ہے۔ دوٹوک انداز میں سن لیں کہ اگر مجھے پی ٹی وی پر پروگرام کرنے کا موقع ملے گا تو یہ میرے لئے باعث اعزاز ہو گا، یہ میری مٹی کا قرض ادا ہو گا۔ میں وہاں اپنے امن کے لئے جانیں قربان کرنے والے بیٹیوں اور بھائیوں کی بات کروں گا۔ میں وہاں امن ، ترقی اور خوشحالی کا مقدمہ لڑوں گا۔ یہ باعث سعادت بھی ہو گا اور باعث ثواب بھی۔
سوال: ہاہاہا، باعث سعادت اور باعث ثواب کے ساتھ باعث تنخواہ بھی ۔۔
جواب: میرا قہقہہ آپ سے بلند ہے کیونکہ ہم پروفیشنل لوگ ہیں، ہمارا کام ہی پروگرام کرنا ہے اور اگر یہ نہیں کریں گے تو کیا کریں گے لہٰذا ہماری تنخواہ امریکہ ، انڈیا ، اسرائیل کی ایجنٹی سے نہیں آنی یہیں سے آنی ہے۔ کوئی عورت اپنی عمر اور کوئی مرد اپنی تنخواہ ڈسکس نہیں کرتا مگر جو تنخواہ یہاں ہمارے مخالفین بیان کر رہے ہیں وہ درست نہیں۔ میں ہرگز کئی گنا معاوضے پر نہیں گیا۔ آپ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ سیکٹر کے اینکرز کے معاوضے دیکھیں وہ کس حد تک زیادہ ہیں اور آپ یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ہم سب ناکام اینکرز ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو بہت ساروں کو مرچیں ہی نہ لگتیں۔ جھوٹ کی صحافت کرنے والے سچ سے، تخریب کی صحافت کرنے والے تعمیر سے، غداری کی صحافت کرنے والے حب الوطنی سے خوفزدہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک طرف کہتے ہیں کہ ریاستی چینل کو بہتر بنایا جائے اور جب بہتر بنایاجانے لگے تو ان کی چیخیں نکلنے لگتی ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔
سوال: مگر ایک دھڑے کے ساتھ ہونا ۔۔ اس پر بہت تنقید ہوتی ہے۔
جواب: آپ ایک طرف بتاتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری اور حمید نظامی نظریاتی صحافی تھے اور دوسری طرف نظریاتی صحافت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ آج کے دورمیں کوئی منافق ہی تنقید سے بچ سکتا ہے۔ آپ کسی ایک نظرئیے کی حمایت کرلیں، کسی ایک کے بارے سچ بول لیں، دوسری طرف سے ہمیشہ گالی گلوچ اور الزامات کے حملے ملیںگے۔ ہم سب اپنے ضمیر اور اپنے رب کو جوابدہ ہیں اور سیانوں نے کہا ہے ، ’ سب سے بڑا روگ، کیا کہیں گے لوگ، ‘سو اس سے باہر نکلے بغیر آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ میںپاکستان میں امن اور ترقی کے ساتھ ہوں۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب سی پیک اور موٹرویز بنتی ہیں، جب لوڈ شیڈنگ ختم ہوتی اور دہشت گردی کا قلع قمع ہوتا ہے۔ میرا دھڑا پاکستان زندہ باد کا ہے اور اگر کسی کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو ہوتی رہے، بھاڑ میں جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں