بچپن میں ہمارے گھر ٹی وی نہیں تھا، دادا جان ٹی وی کو شیطانی چرغہ کہتے اور اپنے پوتوں کو اس سے دور رکھتے، اس دور میں ہمارے گھر مذہبی رسالے آیا کرتے تھے جن پر درج ہوتا کہ اس ماہ اتنے جماعتی بھائیوں نے شیطان یعنی ٹی وی کو گھر سے نکال باہر کیا ہے، میں اور چھوٹا بھائی پڑوس میں رشتہ داروں کے گھر ٹی وی دیکھنے جایا کرتے، کارٹون لگنے کے ٹائم وہاں ان کے گھر تک پہنچنا بھی محاذ ہوتا کیوں کہ پوری ریکی کرنے اور گھر والوں کے ریڈار میں آئے بغیر ٹی وی والے گھر پہنچنا ہوتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر مولویوں نے چینل بنانا شروع کیے اور وہ شیطانی چرغہ سے اسلامی چرغہ بنتا گیا مگر دادا حضور جو خود بھی عالم دین تھے آخری عمر تک تصویر اور ٹی وی کے سخت خلاف رہے، ہم ٹھہرے مولوی خاندان کے سب سے باغی فرزند، اس لیے ہر وہ انگلی کی جس سے منع کیا گیا تھا۔
اس انگشت زنی میں ایک فلم بینی بھی تھی، جس کی ابتداء جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اجے دیو گن کی فلم دل جلے سے کی تھی، دل جلے کے بعد ایک اور فلم “خاکی” دیکھی تھی، اس کے بعد تو فلمی دنیا کی خاک اتنی چھانی کہ میں خود کو ہلکا پھلکا سا فلم کریٹک کہہ سکتا ہوں، میں نے جتنا وقت فلم بینی پر صرف کیا اتنا صرف کتابوں کے علاؤہ کسی اور چیز پر نہیں کیا۔
انڈین فلموں کا ایک زمانے میں بڑا کریز تھا، اجے دیوگن، شاہ رخ، سلمان، عامر خان کا راج تھا، میں اس وقت اجے کا فین تھا، اس کی بولتی آنکھیں اس کی دھیمی اداکاری پر بھاری تھیں، دل جلے سے لے کر دریشم تک شاید کوئی ہی اس کی کوئی فلم چھوٹی ہے مجھ سے، شاہ رخ مجھے نجانے کیوں پسند نہ آسکا سوائے دل والے دلہنیا کے، سلمان خان تو فلموں میں اداکاری کم اور ماڈلنگ زیادہ کرتا ہے، عامر خان اداکاروں کا گرگٹ ہے ہر رنگ، ہر کردار میں ڈھل جاتا ہے۔ ان کے علاؤہ تو بالی ووڈ سے مایوس ہو چکا تھا کہ یہاں تک کہ میں نے انوراگ کشیپ کی گینگز آف واسع پور نہیں دیکھ لی۔
یہ فلم بوال تھی، انوراگ کیشپ بالی وڈ کا مارٹن لوتھر ہے، میرے خیال میں بالی ووڈ کا رخ موڑنے والی فلموں میں گینگز آف واسع پور کا شمار ہوتا ہے، اس فلم کی سب سے خاص بات realism تھا، پوری فلم میں سارے کرداروں کو بغیر ہیروازم اور فضول کے ایکشن کا تڑکا لگائے حقیقت کے قریب دکھایا گیا ہے، مثال کے طور پر فلم میں سردار خان کا پہلوان کو مارنے کا سین دیکھ لیں، بغیر فضول کے ایکشن کے اتنے نارمل طریقے سے مار رہا ہے کہ وہ سین ڈارک کامیڈی میں بدل جاتا ہے۔
انوراگ کیشپ کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کرن جوہر اور روہٹ شیٹھی جو فلم میں کہانی سے زیادہ سٹارز کے درشن کرواتے ہیں ان کے بر خلاف نئے چہروں کو لاکر کہانی کو شراب کہن بنا دیتا ہے مگر انوراگ کشیپ کی فلموں میں جہاں کہانی اور کاسٹ اعلی ہوتی ہے ہوتی وہی ان کے فلم visuals اتنے ہی بے کار ہوتے ہیں۔ سبھاش گئی نے بالی وڈ کے زوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بالی ووڈ میں فلم ڈائریکٹر نہیں سٹار بناتے ہیں۔ اسی لیے انوراگ اپنی فلموں میں سپر سٹارز نہیں اداکار کاسٹ کرتا ہے۔
بالی وڈ کے سٹار ازم کا دھڑن تختہ انوراگ کے بعد او ٹی ٹی پلیٹ فارم نے کیا، جس کا پہلا وٹا scared games کی صورت میں مارا گیا پھر تو ویب سیریز کا پورا سیلاب ہے جو بالی وڈ سنیما کو ساتھ بہا کر لے گیا۔ sacred games تو ماسٹر پیس ہے میں چھ بار اسے دیکھ چکا ہوں، اس کا ایک ایک ڈائیلاگ حرف بہ حرف یاد ہے، گرو جی کے فلسفیانہ کردار اور گنیش گئیتوانڈے کے گینگسٹر کردار نے اس سیریز کو امر کر دیا، پھر مرزا پور، دا فیملی مین، پاتال لوک جیسے شو آئے مگر sacred games کا الگ ہی مقام ہے۔
تامل فلموں سے اپنی کچھ خاص بن نہ سکی، اس کی بنیادی وجہ ان میں دکھایا گیا غیر حقیقی class difference ہے، امیر کو غیر متوازن امیر اور غریب کو بے ڈھنگا سا غریب، طاقتور کو حد سے طاقتور اور کمزور کو اتنا کمزور دکھاتے ہیں کہ سب غیر متوازن لگنے لگتا ہے، اس class difference سے باہو بلی سے لے کر THE Goet life تک ہر اچھی فلم میں فلم بھی نہیں بچ سکی۔
رہ گیا ہالی ووڈ تو وہ تو اپنی جان ہے، ہم جیسوں کے لیے ہالی ووڈ سے پہلا تعارف ایونجرز سیریز کے سپائڈر مین، یا ہیریپورٹر ہوتے ہیں، پھر چلتے چلتے یہ ٹام کروز کی مشن امپاسبل سیریز یا جمیز بانڈ کی جاسوسی سیریز تک اجاتا ہے، مگر فلم بینی میں بلوغت کی شروعات تب ہوتی ہے جب آپ کرسٹوفر نولان کی فلموں پر مغز ماری شروع کریں، نولان تو ایک جادوگر ہے، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے وہ اس گولے کا نہیں، مومینٹو سے لے کر اوپن ہیمر تک اس کی کرث فلم دماغ گھما دیتی ہے، کبھی کبھی لگتا ہے وہ فلم کا ڈرائیکٹر کم اور فزکس کا پروفیسر زیادہ ہے، گریٹوٹی اور ٹائم کی تھیوریز کا آپریشن کرکے ان سے ایسی ایسی فلمیں بنائیں لگتا ہے ہم فلم کو دیکھنے سے زیادہ پڑھ رہے ہیں، inception، Inter stallers، the prestige Dark night یہ سب تو کمال مویز ہیں ہی مگر اس کی فلم Tenet کا جواب نہیں، اس فلم کو مجھ جیسے تجربہ کار فلم بین کو سمجھنے کے لیے بھی تین دفعہ تو دیکھنا پڑا تب جا کے سمجھ آئی۔
کرسٹوفر نولان کے بعد اگلا درجہ ہے Quentin Tarantino کا، Tarantino جس باریکی سے کام کرتا ہے واللہ چس آجاتی ہے، وہ ویسٹرن ڈرامہ کا ماہر ہے، Django unchained، pulp fiction، hateful eight، inglorious basterd جیسی فلمین بنانے والا عظیم ڈائریکٹر ہے ٹورنٹیوو۔
اس سے اگلا درجہ ہے جب آپ shwashink Redemption، دی فائٹ کلب، سیون، گڈ ول ہینٹنگ، گاڈ فادر، بیوٹی فل مائنڈ، There will be blood یا بلڈ ڈائمنڈ جیسی فلمیں دیکھتے ہیں۔ مگر ابھی فلم بینی کی بزرگی ابھی باقی ہے۔
ایک ایسی ہی ٹی وی سیریز تھی جس نے میرا فلم بینی کا نطریہ ہی بدل دیا تھا، نام تھا breaking bad یقینا آپ میں سے شاید بہت سوں نے دیکھی ہو میں نے یہ اس وقت دیکھی تھی جب نیٹ فلیکس نیا نیا یہاں آیا تھا، اور اس سے بہت کم لوگ واقف ہوئے تھے، اب تو ہر خیر ہر تیسرے بندے کے پاس نیٹ فلیکس ہے، بریکنگ دھیمے نشے کی طرح رگوں میں اترتی ہے، جب آپ کو چس آنی شروع ہوتی ہے تو اس وقت پتہ چلتا ہے سیریز ختم ہوگئی ہے، بریکنگ بیڈ Vince Gilligan کا شاہکار ہے، مجںثanti heroes سیریز کہتا ہوں، پورے چھ سیزن میں کوئی ہیرو نہیں ہے، مرکزی کردار والٹر وائیٹ سمیت ہر کردار کے اندر کے ہیرو اور ولن کو اس خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے بندہ سیریز کے ساتھ چمٹ جاتا ہے، بریکنگ بیڈ کے عشق میں بیٹر کال سال کے آدھ درجن سیزن دیکھ ڈالے تھے۔
بریکینگ بیڈ کے بعد میری پسندیدہ نیٹ فلیکس سیریز اوزارک ہے۔ میں نے سوپرانوز، دی وائر، دی بلیک لسٹ، پیکی بلائنڈڈرز، پریزن بریک، نارکوس اور گیم آف تھرونز جیسے تمام بڑے شوز دیکھ ڈالے مگر بریکننگ بیڈ والی چیز کہیں نہیں ملی کیوں کہ کوئی بھی سیریز سیزن کے پھیلاؤ کے ساتھ اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پائی۔
ان دنوں سنز آف انارکی سیریز دیکھ رہا ہوں، کئی سالوں بعد بریکینگ بیڈ والی چس آرہی ہے، نہیں تو ایک عرصہ ہوا کوئی فلم یا سیزن مجھے متاثر نہیں کر سکی۔ حالیہ دنوں میں ایک فلم نے واقعی مجھے چونکا دیا تھا، میں حیران تھا یہ فلم میری نظروں سے بچ کیسے گئی اور اس سے بھی زیادہ حیران اس بات پر تھا کہ 1979 میں یہ فلم بن کیسیے گئی، Apocalypse Now اپنے وقت سے کئی سال آگے کی تھی، فلم ویت نام وار کی نفسیاتی تباہ کاریوں پر ہے فلم کا ایک ڈائیلاگ باکمال ہے، امریکی کیپٹین کو ایک شخص کہتا ہے۔
You are fight for biggest nothing in history
ہالی ووڈ میں جس ایکٹر کا میں غیر مشروط مداح ہوں وہ ڈیننزل واشنگٹن ہے جس کی موجودگی ہی فلم کو بڑا بنانے کے لیے کافی ہے، اس کی صرف دو فلموں کا ذکر کروں گا، ایک تو کے ٹرینگ ڈے دوسری ہے fence، فینس میں جس طرح تسلسل اور پختگی کے ساتھ ڈیننزل ڈائیلاگ ڈیلیوری کرتا ہے وہ مجھے کسی اور فلم میں دیکھنے کو نہ ملا۔
میں ان مویز کا کے ساتھ جیا ہوں، ہںنسا ہوں، رویا ہوں، ان سے بے شمار سیکھا، یہ فلم بیتی تو خیر بہت لمبی نے شمار مویز اور سیزن کا ذکر نہیں کر پایا باقی پھر کبھی سہی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں