یہ ان دنوں کی بات تھی جب مجھے نوکری کرتے ہوئے چند ہی سال ہوئے تھے تب میری شاعری کی پہلی کتاب چھپی۔ میں کالج کے زمانے سے محبت کی نظمیں کہا کرتا تھا۔ ان دنوں محبت مجھ پر ایتھر کی سوار تھی جبکہ محبوبہ ندارد۔ یہ شاعری یونیورسٹی والی نہر اور لاہور کی سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے مجھ پر وارد ہوتی رہی۔ کالج اور پھر یونیورسٹی کے زمانے میں ہی شہرت نے مجھے گھیر لیا کیونکہ میری شاعری حساس دل کے مالکوں کیلئے تھی۔ چند ہی مہینوں میں کتاب کے پبلشر نے دوسرا ایڈیشن بھی چھاپ دیا، وہ بھی ہاتھوں ہاتھ بِک گیا۔ ان دنوں میں سول لائنز کالج میں اردو کا لیکچرار تھا تو میرے ایک کولیگ نے مجھے حلقہ ارباب ذوق کا ممبر بننے کا مشورہ دیا۔ میرے زیادہ تر قارئین کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔ شاید وہ عمر ہی ایسی ہے کہ انسان کو ہر چیز میں محبت کی حِدت محسوس ہوتی ہے۔ ادھر میں حلقہ اربابِ ذوق کا ممبر بنا اور ساتھ ہی میری شاعری کی دوسری کتاب آگئی۔ ماں ایک عرصے سے میرے سر پر سہرہ سجانے کی خواہاں تھی۔ چنانچہ دور کے رشتہ داروں کے ہاں میرا رشتہ طے پاگیا اور چند ماہ میں میری اور مسرت کی شادی ہوگئی۔ میری بیوی مسرت سرکاری سکول کی استانی تھی۔ وہ بھی اردو میں ایم اے تھی۔ میرا خیال تھا کہ ایک ہی مضمون پڑھنے اور پڑھانے والے ہم خیال و ہم مزاج ہونگے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ وہ کلی طور پر ان لوگوں میں سے تھی جن پر تعلیم کا کچھ اثر نہ ہو بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تعلیم مسرت کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ اس کا پہننا اوڑھنا، گھرداری، سلیقہ کسی بھی طریقہ کار میں تعلیم یافتہ عورت کی خوبی ہی نہیں تھی۔ میرا گھر گندہ مندہ رہتا، کھانا بنانے کا اسے کوئی خاص تجربہ اور شوق نہیں تھا، اصل معنوں میں وہ پھوہڑ تھی۔اس کا اندازہ مجھے شادی کے چند ہفتوں میں ہوگیا جب شادی کے بعد اس کا تبادلہ رینالہ سے لاہور ہوا۔ اس پر مصداق یہ کہ اسے اپنی تعلیم اور نوکری کا کافی گھمنڈ ٹھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی اپنی بہنیں، سسرال اور خاندان کی دیگر عورتیں معمولی تعلیم یافتہ گھریلو خواتین تھیں۔ میں جب بھی کبھی اس کے رویے اور گھرداری پر اس کی سرزنش کرتا وہ رونا دھونا شروع کردیتی اور اپنا میکہ اکٹھا کرلیتی۔
زمانہ طالب علمی میں مجھے اس بات کا بخوبی احساس رہا کہ پردیسی لاہور آکر لاہور کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ لاہور کی یہ خوبی ہے کہ یہ شہر دوسرے علاقوں کے لوگوں کی کجیوں کو اپنے اندر سمو کر کچھ ہی عرصے میں انہیں اپنے جیسا لاہوری بنا دیتا ہے میں بھی ان ہی میں سے تھا۔ شادی کے شروع کے دنوں میں چند بار میں بیوی کو بھی ادبی حلقہ میں لے گیا لیکن اس سے میری بیوی پر کوئی مثبت اثر نہ ہوا بلکہ الٹا اس نے مجھ پر ہی ایسی مخلوط ادبی محفلوں میں جانے پر اعتراض کرنا شروع کردیا۔ میری شاعری کا چرچا دوسری عورتوں کے منہ سے سن کر اسے برا لگتا اور نتیجے کے طور پر گھر کا ماحول گُھٹا گُھٹا سا رہنے لگا۔ اسی دوران میں میرے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت ہوگئی۔ جہاں میری بیوی کے قدم میری زندگی اور خاندان میں مضبوط ہوئے، وہیں ہم دونوں میں ذہنی مطابقت اور ہم آہنگی کبھی نہ ہو سکی ۔ میں بھنورا صفت نہیں تھا لیکن میری بیوی مجھ پر بےجا شک کرتی اور نظر رکھتی اور اُس کی اِس عادت سے میں کوفت کا شکار رہتا۔ میں نے اپنی ادبی سرگرمیاں محدود کردیں تھیں تاکہ گھر میں سکون رہے۔ کچھ ادبی دوست میری اس غیر حاضری کو محسوس کرتے ہوئے میرے گھر ملنے آئے تو ایک دو بار کے بعد ہی بیوی نے اس پر اعتراض اٹھا دیا۔ بدمزگی سے بچنے کیلئے میں نے دوستوں سے ملنا بھی کم کردیا۔ یہی میری غلطی تھی، کہ میں نے اپنے گھر کے سکون کو اپنے دلی سکون پر ترجیح دی۔ ستم ظریفی یہ کہ مسرت کو اردو ادب میں ایم اے کے باوجود اردو شاعری سے چِڑ تھی۔ وہ مجھے باتوں باتوں میں جتاتی رہتی کہ شاعری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مجھے شاعری کرنے کے بجائے اپنی نوکری پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ آمدنی بڑھائی جاسکے۔ دوسری طرف میرے خاندان کے لوگوں سے مسرت کا تعلق واجبی سا تھا۔ وہ میری بہنوں اور بھابیوں کی نسبت زیادہ پڑھی لکھی اور برسرِ روزگار تھی، اس وجہ سے وہ ان سے لئے دئیے رہتی۔ ہر دو چار مہینوں بعد میری بہنوں یا بھابیوں میں سے کوئی ایک عورت چند دنوں کیلئے میرے گھر رہنے آتی تو گھر جھاڑ پونچھ کر چمکا دیتی، کئی طرح کے کھانے بنا کر فریز کرجاتی۔ ان باتوں پر مسرت اعتراض تو نہ کرتی لیکن اس نے اپنے آپ کو یا اپنے گھر کو بہتر بنانے کیلئے کبھی کوئی اقدام نہ کیا۔
وقت یونہی گزرتا رہا رفتہ رفتہ میں نے شاعری کرنا ترک کردیا۔ البتہ میرا مطالعہ اب بھی وسیع تھا۔ ان گزرے ہوئے سالوں میں میں چار بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ میرا ٹرانسفر کالج سے یونیورسٹی میں ہوچکا تھا اسی دوران میں میرا ایم فل مکمل ہوچکا تھا۔ اب یونیورسٹی کے کچھ طلبہ کبھی کبھار میرے پاس گھر آنے لگے۔ ایک دو گھنٹے کی گپ شپ سے میں بھی تر و تازہ ہوجاتا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی مجھے کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ یہ شوق شادی کے بعد بھی قائم رہا۔ میں ہر مہینے کتابیں خریدتا تھا۔ میرے گھر میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں جن میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن مسرت کو کتابوں سے کوئی شغف نہیں تھا۔ بلکہ اس نے کبھی انہیں ترتیب سے سجانے یا صاف کرنے کی کوشش بھی نہ کی۔ کتابوں کی صفائی وغیرہ کا کام میں خود ہی کرتا چاہے وہ سال میں ایک آدھ بار ہی کیوں نہ ہو۔ میری زندگی یونیورسٹی اور گھر تک محدود تھی۔ انہی دنوں میری بھتیجی ردا کا داخلہ یونیورسٹی میں ہوگیا۔ میں نے اس کے ہاسٹل میں داخلے کی مخالفت کی اور ردا میرے یہاں ہی رہنے لگی۔ مسرت کو ردا کے رہنے پر بالکل اعتراض نہیں تھا بلکہ ردا یونیورسٹی کے بعد گھر بھی بخوبی سنبھالنے لگی، اس کے ساتھ ساتھ میرے چاروں بچے بھی اس کے ساتھ گھل مل گئے۔ ردا نے یونیورسٹی میں کئی سہیلیاں بنائیں ان میں سے کچھ بچیاں ہمارے گھر بھی وقتاً فوقتاً آتی رہیں۔ لیکن میرے لئے وہ بھتیجی کی سہیلیاں ہی رہیں۔ ان سب میں ثمرہ بھی تھی جو ردا کے ساتھ ساہیوال کےکالج میں پڑھتی تھی اور اب گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کررہی تھی۔ ثمرہ ایک تو دیکھنے میں خاصی خوبصورت تھی دوسرا وہ کافی اچھا ادبی ذوق رکھتی تھی۔ ایک دو بار ردا نے ثمرہ کو ویک اینڈ کیلئے روک لیا تب سے وہ اکثر ویک اینڈ کیلئے ہمارے گھر قیام کرنے لگی۔ ثمرہ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہمارے یہاں آکر میری کتابوں کو درست کرنے، پڑھنے کیلئے کتابوں کے انتخاب اور ان کی صفائی ستھرائی کا کام نہایت شوق سے کرتی۔ دھیرے دھیرے ثمرہ اور میری بےتکلفی بڑھنے لگی۔ میں ردا اور ثمرہ ساری ساری رات بے تکان گپ شپ کرتے۔ ہم فلموں، کتابوں، شاعری اور انسانی رویئے پر بےلاگ گفتگو کرتے۔ دونوں لڑکیاں بار بار چائے کافی بناتیں، خشک میوہ جات کا دور چلتا اور ہنسی خوشی وقت کٹ جاتا۔ میرے لئے ثمرہ اور ردا ایک جیسی تھیں لیکن ثمرہ اپنی ذہانت اور اعلیٰ ذوق کی وجہ سے میرے دل کے زیادہ قریب تھی۔ ایک ہفتے ثمرہ کے آنے کے بعد میرے بھائی کا فون آیا کہ ان کی ساس ہسپتال داخل ہیں اور وہ ردا کو یاد کررہی ہیں۔ ردا کو اپنی نانی کی عیادت کے سلسلے میں ساہیوال جانا پڑ گیا۔ آج میں اور ثمرہ تنہا تھے۔ ہم اردو ادب کے کلاسک شاعروں کے متعلق بات کررہے تھے، بیچ میں دو مرتبہ ثمرہ چائے بنا کر لائی۔ یہی کوئی رات کے پونے دو بجے ہونگے کہ مسرت کی آنکھ کھل گئی اور وہ ٹی وی لاوْنج میں آئی جہاں ہم دونوں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ اس نے مجھے اور ثمرہ کو بے نقط کی سنائیں اور ساتھ میں ثمرہ کی کردار کشی بھی کی ۔۔میں اسے روکتا رہا کہ مجھے ثمرہ ردا کی طرح عزیز ہے، میرا اور اس کا تعلق استاد شاگرد جیسا ہے لیکن وہ عورت کچھ سننے کو تیار نہ تھی۔ ثمرہ نے اسی وقت اپنا بیگ اٹھایا اور گھر سے باہر جانے لگی تو میں نے روک دیا کہ اتنی رات کو جوان لڑکی کا گھر سے باہر جانا ٹھیک نہیں۔ وہ رُک تو گئی لیکن بیٹھک میں چلی گئی۔ میں بھی اپنے کمرے میں آگیا۔ میں مسرت سے بحث کرنا چاہتا تھا لیکن بچے سو رہے تھے اس وجہ سے خاموش رہا۔ صبح جب میں جاگا تو ثمرہ گھر سے جاچکی تھی جبکہ مسرت ابھی سو رہی تھی۔
اس دن کے بعد ثمرہ ہمارے گھر کبھی نہیں آئی۔ ردا نے بھی اس معاملے پر زیادہ بات نہ کی۔ ابھی امتحانوں میں وقت تھا جب ردا نے بتایا کہ ثمرہ کی شادی ہورہی ہے۔ مجھے امید تھی کہ وہ مجھے اپنی شادی میں ضرور بلائے گی لیکن میں انتظار ہی میں رہا۔ اس کی شادی کے بعد میری ایک بار ردا سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ثمرہ چچی کے روئیے سے بہت دلبرداشتہ تھی۔ وہ میرے شاعر ہونے، اردو کا استاد ہونے سے بہت متاثر تھی۔ لیکن چچی نے بات کا نہ صرف بتنگڑ بنایا بلکہ یہ بات اپنے مائیکے اور سسرال تک پہنچا دی اور ثمرہ کو بدنام کردیا۔ مجھے مسرت سے اتنی بےوقوفی کی توقع نہ تھی۔ میں نے اس تمام معاملات میں اس سے وضاحت چاہی تو اس نے رو رو کر زمین آسمان ایک کرلیا اور عام خواتین کی طرح مائیکہ اکٹھا کرلیا۔ بات خاصی بڑھ چکی تھی، میں کسی غلطی یا دانستہ طور پر میں ایسی کسی حرکت میں ملوث نہیں تھا لیکن مجھے سُبکی اٹھانا پڑی۔ میں اس دن کے بعد اور بھی محتاط ہوگیا۔ دوستوں سے کٹا ہوا تو تھا ہی اب طلبہ, اپنے گھرانے اور سسرال سے بھی کٹ سا گیا۔ زندگی اسی طرح گزرتی رہی جو دراڑ میرے اور مسرت کے بیچ میں بن گئی تھی رفتہ رفتہ وہ خلیج کی مانند وسیع اور گہری ہوگئی۔ کئی سال گزر گئے میں اپنی نوکری، کتابوں اور تنہائی میں مگن رہا۔ میرے بچے جوان ہوکر کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ گئے لیکن میرے اور مسرت کے تعلقات بحال نہ ہوسکے۔ بیوی یا محبوبہ کے طور میں جو اوصاف میرے دل و نظر اور ذہن میں تھے ثمرہ اس معیار پر پورا اترتی تھی۔ لیکن بہرحال وہ میری محبوبہ نہ تھی بس محبوبہ کا ایک پرتو یا عکس تھی۔ یہ بات میرے دل میں ثمرہ کے لئے تھی تو وہ میرے دل میں رہی یقیناً میرے مرنے تک رہے گی یہ بھی شاید محبت کا ہی ایک انداز ہے ویسے لوگ کہتے ہیں محبت کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔
*****
شادی کے بعد بھی میرا ردا سے تعلق نہ ٹوٹ سکا۔ اس کی چچی کی جانب سے میری بدنامی کے پروپیگنڈے کے باوجود ہم ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ پہلے خطوط کا دور تھا پھر اس کی جگہ فون اور انٹرنیٹ نے لے لی۔ میری شادی کے دو سال کے اندر ردا کی بھی شادی ہوگئی اور وہ اسلام آباد چلی گئی۔ اللہ نے ہم دونوں کا صاحبِ اولاد کردیا اور ہم دونوں ہی گھر گرہستی میں کسی قدر گُم ہوگئیں۔ تقریباً آٹھ سال بعد ایک دن ردا نے میسیج پر اطلاع دی کہ اس کے چچا پروفیسر ڈاکٹر احمد سعید کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس لمحے مجھے دکھ اور اذیت کا ایک ایسا احساس ہوا جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ میری نگاہوں میں ردا کے چچا کا چہرہ پِھرنے لگا۔ ان کا شفیق انداز، گفتگو پر گرفت، تمیز اور تہذیب بھری نگاہیں ۔۔ سب کچھ۔۔ ان کے ساتھ گزارا ہوا وہ شاندار وقت جس نے ہمارے علمی تجسس کو جِلا بخشی۔ اور پھر ان کی بیگم کا گھٹیاپن اور پروفیسر صاحب کی بےچارگی کہ وہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ کچھ دن میں ان کی وفات کے دکھ میں مبتلا رہی اور پھر زندگی روٹین میں آگئی۔
چند مہینوں بعد بچوں کی چھٹیوں میں میرا لاہور جانا ہوا۔ اس سے پہلے بھی کئی بار لاہور جاچکی تھی لیکن کبھی ڈاکٹر احمد سعید کے ہاں جانے کی یا ان سے ملنے کی جرات نہ کرسکی۔ اس بار سوچا کہ ڈاکٹر احمد سعید کا تو انتقال ہوچکا ہے، اور اتنے سال بیت چکے ہیں، میں کم از کم ان کی بیگم اور بچوں سے تعزیت ہی کرلوں۔ یہی سوچ کر بچوں کو اپنی بہن کی طرف چھوڑ کر ان کے گھر چلی گئی۔ ابھی میں گلی میں ہی تھی کہ ان کے گھر کے سامنے ایک ردی والا نظر آیا۔ قریب ہی کتابوں کا ایک انبار تھا جو وہ تول رہا تھا۔ گیٹ پر مجھے ردا کی چچی مسرت نظر آئیں اور اندر سےآتے ہوئے ان کا بیٹا اور ملازمہ دکھائی دیں جو کتابوں کے کارٹن اٹھا کر لارہے تھے۔ جیسے ہی مسرت بیگم نے مجھے دیکھا تو بیٹے کو سنانے لگیں “تمہارے والد نے ساری زندگی ضائع کی ۔ ہر چیز ضائع کی، نہ کام کے لوگوں سے تعلق بنایا ۔۔ ہمیشہ فضول اور بےمصرف لوگوں کے ساتھ تعلق رکھا۔ اب دیکھو انہوں نے ان کتابوں پر ہی کتنا روپیہ برباد کیا ہے۔ گھر میں فضول بھری پڑی ہیں ۔۔ ان کو نکال کر کچھ سکون ہوگا۔ آخر کو شاعری یا ادب کی کتابوں کا فائدہ ہی کیا ہے؟ فضول آدمی کے فضول شوق۔۔۔” اتنے میں ردی والے نے ساری کتابیں تول کر پیسے ان کے حوالے کئے۔۔ مسرت بیگم خشمگیں نگاہوں سے مجھے گُھورتے ہوئے گیٹ بند کرنے ہی والی تھیں اور شاید سوچ رہی تھیں کہ کہیں میں ان کے گھر میں داخل نہ ہوجاوْں۔ کتابوں کے انبار میں میری اچانک نظر فیض صاحب کی “نسخہ ہائے وفا” پر پڑی۔ اس کتاب سے میری کئی یادیں وابستہ تھیں۔ میں جھٹ زمین پر پاؤں کے بل بیٹھ گئی اور کتاب کھول لی۔ اس کتاب میں کئی جگہ میرے ہاتھ کے ٹیگ اور ریفرینس اب تک موجود تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ میں نے ردی والے سے ان تمام کتابوں کا ریٹ لگوا کر پیسے اس کے حوالے کئے اور گاڑی میں کتابوں کے کارٹن رکھوانے لگی ۔ اور مسرت بیگم حیرت اور نفرت بھری نظروں سے مجھے گُھور رہی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں