دوسری شادی اور مرد کی ٹھرک(2)-عامر کاکازئی

بھائی نے دوسرا سوال کیا کہ

زناکاری سے بچنے کے لیے اور حلال طریقہ اپنانے کے لیے دوسری شادی کیوں نا کر لی جاۓ؟

ہم نے 2018 میں عامر لیاقت حسین کی دوسری شادی پر ایک پوسٹ کی تھی کہ پہلی بیوی کے ہوتے ہوۓ دوسری شادی مرد کی صرف ایک ٹھرک ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اس پر ہماری وال پر ایک طوفان اُمڈ آیا تھا، پاکستانی مسلمان مرد سے یہ برداشت ہی نہیں ہو سکتا کہ کوئی اسے دوسری شادی سے روکے چاہیے خیالوں یا خوابوں میں ہی کیوں نا ہو۔ زیادہ تر نے یہ کہا کہ دوسری شادی خدا کا حکم ہے اور وہ ایک سنت پوری کرتے ہوئے اپنا شرعی فریضہ انجام دیتے ہیں۔دوسری وجہ یہ بتائی کہ ایک سے زیادہ عورت رکھنا مرد کی ضرورت ہے۔

ہمارا تب بھی اور اب بھی یہ ماننا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا مرد کی ٹھرک ہے اور کچھ بھی نہیں۔ ورنہ اس موجودہ زمانے میں ایک عورت اور اس سے پیدا ہونے بچوں کو رکھنا، اچھی تربیت کرنا بہت مشکل اور مہنگا کام ہے۔

بات مساوی حقوق دینے کی نہیں اور نہ ہی انصاف کرنے کی ہے۔ بات یہ ہے کہ کیا ایک مرد کے پاس اتنا وقت اور سرمایہ ہے کہ اپنےدرجن بچوں کی اچھی تربیت کر سکے؟ ان کو پورا وقت دے سکے؟ جواب مکمل نفی میں ہے۔ آج کے وقت اور معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے۔

عموماً مرد دوسری شادی چالیس یا پینتالیس کی عمر کے بعد جب اس کے پاس اچھا خاصہ پیسہ جمع ہو جاتا ہے تب کرتا ہے۔ اس وقت تک پہلی بیوی کے ساتھ تقریباً بیس سال گزر چکے ہوتے ہیں، بچے نوجوانی کی عمر تک پہنچنے والے ہوتے ہیں۔ پہلی بیوی نے اپنے شوہر کے ساتھ تنگی  ترشی کے ساتھ وقت گزارا ہوتا ہے۔ ہر خوشی، غم میں ساتھ دیا ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے ساتھ ایسی حرکت کرنے کا سیدھا سادا مطلب، بے وفائی اور دھوکہ دینا ہے۔

ایک جواز یہ بھی دیا جاتا ہے کہ دوسری شادی مرد کی ضرورت ہے ، مطلب اس کا یہ ہے کہ جنسی طور پر ایک عورت مرد کی ضرورت پوری نہیں کر سکتی۔ اس سے مضحکہ خیز بات دوسری نہیں ہے۔ اگر کسی مرد کی چار بیویاں ہیں تو اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہےکہ وہ جنسی طور پر چاروں کو مطمئن کر سکے۔ یہ غلط فہمی برصغیر کے مرد میں پائی جاتی ہے کہ جنسی طور پر مرد طاقت ور ہوتا ہے اور عورت میں جنسی خواہش ہوتی ہی نہیں، یا کم ہوتی ہے۔ جبکہ میڈیکلی عورت مرد سے جنسی طور پر زیادہ طاقت رکھتی ہے۔

دُنیا میں کوئی بھی فرد (چاہیے عورت ہو یا مرد) پیار کو نہیں بانٹ سکتا یا سکتی ہے۔ محبت کو بانٹنا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ہمارے انڈو پاک میں تو ساس کو بہو برداشت نہیں ہوتی کہ وہ لڑکی اب اس کے بیٹے کو اس کے ساتھ شیر کر رہی ہوتی ہے۔ ماں کو سمجھ ہی نہیں  آ رہی  ہوتی کہ ماں اور بیوی کی محبت میں زمین آسماں کا فرق ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ دوسری شادی اور اس سے پیدا ہوۓ بچے اس مرد کے مرنے کے بعد وراثت سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ کیونکہ پہلی اولاد اب جوان ہے اور باپ کا بزنس اور جائداد وغیرہ سنبھال چکے ہوتے ہیں ، جبکہ دوسری بیوی سے ہوئی اولاد چھوٹی ہوتی ہے۔ یا بعض دفعہ مرد پہلی بیوی اور اس کے بچوں کی حق تلفی کرتے ہوۓ دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے نام سب کچھ کر دیتے ہیں۔اس معاشرے میں یہ ہی دیکھا گیا ہے کہ انصاف کبھی بھی نہیں ہوتا۔ یا تو پہلی بیوی اور اولاد خوار ہوتے ہیں یا دوسری بیوی اور اولاد سڑک پر آ جاتے ہیں۔

اکثر مذہبی لوگ بھی دوسری شادی کا جواز پیش کرتے ہیں کہ ادھر ادھر منہ مارنے سے بہتر ہے کہ حلال شادی کر لے۔ سوال یہ ہےکہ وہ مرد کیوں ادھر ادھر منہ مارے؟ اس مرد کے اندر کتنی آگ بھری ہوئی ہے کہ ایک عورت اسے ٹھنڈا نہیں کر سکتی؟

مرد کی ہو یا عورت کی، شادی ایک ہی ہوتی ہے اور وہ ہے پہلی شادی۔ اس میں مشورہ یہ ہی ہے کہ پہلی شادی کرتے وقت ہی اچھی طرح دیکھ بھال کر لی جاۓ کہ بعد میں یہ الزام نہ لگے کہ انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی اس لیے دوسری کر لی۔

ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کچھ عورتوں کی شادی جہیز نہ ہونے یا کسی اور وجہ سے نہیں ہو پاتی۔ اس لیے مرد کے لیے دوسری شادی ضروری ہے۔ لڑکی کی شادی نہیں ہو سکی تو اس کی وجوہات معاشرتی ہیں ، جیسے کہ جہیز یا والدین کا خوب سےخوب تر کی تلاش میں لڑکی کو گھر بٹھاۓ رکھنا۔ تو حکومت اور ایک فرد کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ان وجوہات کو ختم کریں،ان فضول رسومات کی حوصلہ شکنی کریں نا کہ دوسری شادی کو فروغ دیں۔

ایک بیوی کے ہوتے ہوۓ دوسری شادی ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں، پہلی بیوی اور اس سے ہوۓ بچوں کے ساتھ ساتھ دوسری بیوی اور اس سے ہوۓ بچوں کے ساتھ بھی زیادتی کے سوا کچھ نہیں۔ (عامر لیاقت حسین کی دوسری شادی کے وقت پہلی بیوی اور بچوں کا بہت بُرا ری ایکشن اس بات کا ثبوت ہے)

اس پوسٹ کو براہ کرم مذہب سے یا پندرہ سو سال پہلے یا ابھی کے عرب معاشرے سے جوڑنے کی کوشش مت کیجیے کہ ہمارا برصغیر کا معاشرہ عرب معاشرے سے ایک دم مختلف ہے۔

آخر میں ہم بھائی کے سوال کی طرف دوبارہ آتے ہیں کہ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے آخر ایک مرد کا دل دوسری عورت کے ساتھ سیکس طرف مائل ہی کیوں ہوتا ہے کہ اس کو یہ معذرت خواہانہ رویہ اپنانا پڑتا ہے کہ دوسری شادی اس لیے کر لی کہ گناہ کی طرف نہ جا سکوں۔  آخر ایک مرد میں کتنی آگ بھری ہوتی ہے کہ ایک عورت اسے  ٹھنڈا نہیں کر سکتی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply