دوسری شادی ‘مذہب /معاشرے کی نظر سے
ایک بھائی نے ایک سوال پوچھا ہے کہ
“اگر دوسرا نکاح ایک عورت کیلئے بالکل ہی ناقابل برداشت قسم کی اذیت ہے تو اللہ نے مردوں کے مینوئل میں یہ provision ہی کیوںرکھی؟”
پہلی بات تو مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب کی ہر چیز ہر دور کے لیے نہیں ہے۔ مذہب ہرگز بھی انسان کے لیےقیامت تک زندگی گزارنے کا ضابطہ حیات نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے قوانین یا مشورے یا حکم اس زمانے کے لیے تھے نا کہ ہر زمانےکے لیے۔ بہت سے قوانین یا حکم یا مشورے کو اس زمانے کے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا ۔ ان ہی میں سے ایک دوسری شادی کی اجازت بھی ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ انسان کو کسی کے ساتھ شراکت پسند ہی نہیں ہے۔ چاہے عورت ہو یا مرد، خاص طور پر marital relationship (معاملے) میں۔ حتی کہ پاکستانی ماں کو بیٹے کے ساتھ بہو کی شراکت بھی نہیں چاہیے۔ اگر غورسے ہر مذہب کو پڑھیں تو ہر مذہب میں اللہ نے واحدانیت پر زور دیا ہے ۔ اللہ کو جس چیز سے سب سے زیادہ نفرت ہے وہ ہے شرک۔جب مالک کو شرک سے نفرت ہے تو اس کی بنائی ہوئی مخلوق کیسے محبت میں شرک کو برداشت کر سکتی ہے؟
اللہ نے ہرگز ہرگز بھی دوسری شادی کو فروغ نہیں دیا، بلکہ قرآن میں کچھ اس طرح کہا ہے کہ
4:3 اور اگر اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اُن کے ساتھ جو عورتیں ہیں، اُن میں سے جو تمھارے لیےموزوں ہوں، ان میں سے دودو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکو گے تو (اِس طرح کی صورت حال میں بھی)ایک ہی بیوی رکھو۔
غامدی صاحب نے اس کی تشریح کچھ اس طرح کی ہے کہ
“یہ آیت اصلاً تعدد ازواج سے متعلق کوئی حکم بیان کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی، بلکہ یتیموں کی مصلحت کے پیش نظر تعدد ازواج کے اُس رواج سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب کے لیے نازل ہوئی ہے جو عرب میں پہلے سے عام تھا۔ قرآن نے دوسرے مقامات پر صاف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی ہے، اُس کی رو سے خاندان کا ادارہ اپنی اصلی خوبیوں کے ساتھ ایک ہی مردوعورت میں رشتہء نکاح سے قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ بیان ہوا ہے کہ انسانیت کی ابتدا سیدنا آدم سے ہوئی ہے اور اُن کے لیےاللہ تعالیٰ نے ایک ہی بیوی پیدا کی تھی۔ یہ تمدن کی ضروریات اور انسان کے نفسی، سیاسی اور سماجی مصالح ہیں جن کی بنا پرتعدد ازواج کا رواج کم یا زیادہ، ہر معاشرے میں رہا ہے اور اِنھی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کسی شریعت میں اِسےممنوع قرار نہیں دیا۔ یہاں بھی اِسی نوعیت کی ایک مصلحت میں اِس سے فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایاہے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت اور اُن کے حقوق کی نگہداشت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ لوگوں کے لیے تنہا اِس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہو اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ یتیم کی ماں یا اُس کی بہن کو اُس میں شامل کر کے وہ اپنے لیے سہولت پیدا کر سکتےہیں تو اُنھیں چاہیے کہ اِن عورتوں میں سے جو اُن کے لیے موزوں ہوں، اُن کے ساتھ نکاح کر لیں۔ تاہم دوشرطیں اِس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اِس پر عائد کر دی ہیں: ایک یہ کہ یتیموں کے حقوق جیسی مصلحت کے لیے بھی عورتوں کی تعداد کسی شخص کے نکاح میں چار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری یہ کہ بیویوں کے درمیان انصاف کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ آدمی اگر اِسےپورا نہ کر سکتا ہو تو اِس طرح کی کسی اہم دینی مصلحت کے پیش نظر بھی ایک سے زیادہ نکاح کرنا اُس کے لیے جائز نہیں ہے۔”
یہ ایک مکمل misconception ہے کہ خدا نے دوسری شادی کا حکم یا اجازت دی ہوئی ہے۔ یہ اجازت ایک مخصوص دور اورمخصوص حالات کے لیے دی ہوئی تھی یا ہے۔
سوال تمام پاکستانی مسلمان مردوں سے ہے کہ کیا آپ دوسری شادی کرتے وقت قرآن کی یہ سورہ پڑھ کر کرتے ہیں؟ جس میں کلیئرکٹ کہا ہے کسی بیوہ کے ساتھ شادی کر لو کہ یتیموں کی مدد ہو سکے۔؟
یہ بھی اس زمانہ کے عرب کلچر کے حساب سے ہے کہ جہاں عورت چاہے ستر سال میں بیوہ ہو، وہ غیر شادی شدہ نہیں رہ سکتی۔اب سوال سب پاکستانی مسلمانوں سے ہے کہ کیا آپ اپنے ساٹھ سال کے باپ یا ماں جس کا پارٹنر مر جائے تو کیا آپ اسے دوسری شادی کی اجازت دو گے؟ ہمارے تجربہ کے حساب سے بڑے اڈلٹ بچے تو اپنے باپ کی دوسری شادی کے مخالف ہوتے ہیں تو کجا ماں کو کرنے دیں گے؟
اسی سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہے کہ پچھلے سال ایک بچپن کے دوست کے والد کے انتقال پر اس سے ملنے گئے تو باتوں باتوںمیں بولا کہ جب وہ پندرہ سال کا تھا تو باپ نے دوسری شادی کی تھی، اسے آج بھی اپنی ماں کی بے بسی اور دکھ نہیں بھولتا۔اسے باپ کی بے وفائی نہیں بھولتی جو اس نے اس کی ماں اور بچوں کے ساتھ کی۔
حل کوئی نہیں ہے۔ ایک بار جوغلطی ہو جائے تو پھر مداوا کوئی نہیں ہے۔ عورت کے دل میں یہ کسک جب تک وہ زندہ ہے، رہتی ہے۔اسی طرح پہلی بیوی سے بچوں کے دل میں بھی سوتیلی ماں کے لیے نفرت رہتی ہے اور نہ ہی ان کے دل باپ کے لیے صاف ہوتے ہیں۔(دوسری شادی کے خواہش مند نعمان اعجاز کا ڈرامہ “بسمل”اے آر وائی چینل پر ضرور دیکھیں۔ اسی موضوع پر بہترین کہانی ہے۔ )
پارٹ 2 : دوسری شادی اور مرد کی ٹھرک ‘کل پڑھ سکیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں