اشرافیہ /اقتدار جاوید

ہمارے پاس چار پانچ اعلی قسم کی لغات ہیں ان میں ہماری زیادہ دلچسپی ان الفاظ سے ہوتی ہے جو متروک ہو چکے ہوں۔ہمارے شعرا اساتذہ میں ایک شاہ حاتم تھے وہ اپنے ناپسندیدہ الفاظ کو اردو یعنی ریختہ سے باہر نکال دیتے تھے جن کا تعلق اس دھرتی سے ہوتا تھا۔اردو ادب میں اشرافیہ کی وہ پہلی مثال تھے۔
یعنی جو زبان عوام کی زبان تھی وہ انہیں ناپسند تھی اور جو کہیں دور کی زبان تھی اسے ریختہ میں جڑتے رہتے تھے۔ایک لغت نوراللغات بھی ہمارے پاس ہے جس میں تین سو متروک الفاظ کی فہرست بھی شامل ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان متروک الفاظ میں سندیسہ بھی شامل ہے۔اردو دان طبقہ شاید اب بھی اسے استعمال سے گریزاں ہو۔ایک بے ضرر سا لفظ تلک بھی ہے۔

وہ الفاظ بھی ہمیں ہانٹ کرتے ہیں جسے عوام بہت پسند کرتے ہوں۔العوام کا لانعام کسی زمانے میں درست ہوتا ہو گا آج کل وہی سچ ہے جس کو عوام سچ مانتی ہو۔

بہت سے لوگ بہت ضدی ہوتے ہیں اور عوام کا کہا نہیں مانتے اور اسی ضرب المثل کا حوالہ دیتے ہیں۔وہ عوام کو ہانکنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے غلط العام کو تو درست مان لیا گیا ہے مگر غلط العوام پر اب بھی سوئی اٹکی ہوئی ہے۔

کہتے ہیں ہر آدمی کا اپنا سچ ہوتا ہے۔یہ پہلے والی ضرب المثل سے بھی زیادہ غلط ہے بلکہ کلی طور پر غلط ہے۔اصل میں ہر آدمی کا اپنا جھوٹ ہوتا ہے۔سچ اجتماعی شے ہوتی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے سانچ کو آنچ نہیں۔سانچ سچ کو ہی کہا جاتا ہے۔اسی متروک لفظ سانچ کا آج کل کوئی بھی سامنا کرنے کو تیار نہیں۔حتی کہ چینلز بھی اس سانچ سے کوسوں دور ہیں۔اسی لیے ایک خاص واقعے کے بعد ہم نے ٹی وی چینلز دیکھنا بھی متروک کیا ہوا ہے کہ یک طرفہ ٹریفک پردہ ِسماعت ناکارہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔سوچتے ہیں کہ کسی مناسب وقت تک ٹیلی ویژن خاموش ہی رہے تو بہتر ہے۔آج کل یہ Noise Pullution کا تیر بہدف نسخہ ہے۔اسی لیے بزرگان نے خموشی کے ہزار ہا فوائد گنوائے ہیں۔مگر آرزو لکھنوی نے تو یہ کہہ کر کمال کر دیا
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

یہ وہی آرزو ہیں جو ہمارے ممدوح یگانہ کے خلاف ایک متحدہ محاذ کے سرگرم رکن تھے۔ایسے شعر کوٹ کرنے کے لیے ہوتے ہیں کہنے کے لیے نہیں ہوتے۔کہنے کے لیے یگانہ جیسا جگرا درکار ہوتا ہے۔کشاکش سے بھرا پرا ہنگامہ خیزیت کا اعلامیہ۔

جن بڑوں نے اپنی زبانوں کے الفاظ اردو سے ہمیشہ کے خارج کرنے کا  اہتمام کیا وہ اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔یہی مزاج انہیں عوام سے دور کرتا گیا اور زبان غیر ہوتی گئی۔وہ الفاظ بھی ہمیں اپنی جانب کھینچتے ہیں جن سے باغی بننے میں مدد ملتی ہے۔فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ پیدائشی تخلیق کار ہوتے ہیں لیکن باغی آپ کو معاشرہ   بناتا ہے یا آپ انہی فنون ِلطیفہ سے وابستہ لوگوں کو پڑھ کر بنتے ہیں۔باغی خود پیدا ہوتا نہیں وہ بنتا ہے مگر باغی پیدا کرتا ہے۔
جس لفظ سے آج کل ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ اشرافیہ ہے۔اشرافیہ ایک کلاس بھی ہے اور ایک مزاج بھی۔اشرافیہ ہی وہ واحد وجہ ہے جو بغاوت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ویسے لغوی پر تو پوری نسل انسانی ہی اشرافیہ ہے مگر اب معنوی طور پر اشرافیہ کا تعلق اشرف المخلوقات سے نہیں ایک مشرف کلاس سے ہے۔بھائی مشرف نیا فنامنا ہے۔اس سے پہلے فقط مشرف بااسلام ہی سنا تھا۔

اشرافیہ ایسا لفظ ہے جس کا صوتی اعتبار قافیہ صرف مافیا ہے۔ العوام کالانعام مافیا کو وہ گروہ سمجھتے ہیں جس نے الٹ پلٹ اور الل ٹپ کام کرنے کے لیے خود کو معافی دے رکھی ہو۔خود کو معافی دینے کا معاملہ بھی عجیب ہے ہما شما کسی گناہ کسی جرم پر زندگی بھر خود کو معاف نہیں کر پاتے۔خود سے چھپے چھپے پھرتے ہیں۔مرشد کا کہنا ہے جو آدمی اپنا ننگاپن دیکھ کر شرمندہ نہیں ہوتا اس پر گھڑوں پانی ڈالیں وہ گیلا نہیں ہوتا۔اسی لیے نامعلوم شاعر نے وہ کہہ دیا جس کی سچائی آج بھی اٹل ہے
درمیان ِقعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوید کہ دامن تر مکن ہشیار باش

شعر چونکہ بدیسی زبان میں ہے اس لیے اس کا لطف عام قاری نہیں لے سکے گا۔عام قاری وہی ہے جسے اشرافیہ عام سمجھتی ہے۔ویسے خود اشرافیہ بھی اس شعر کو دو وجوہات پر رد کر دے گی ایک اس کے معنی کے حوالے سے اور دوئم فارس کی زبان ہونے کی وجہ سے۔کیونکہ ان کی اور ان کے آقاؤں کی زبان تو انگریزی ہے۔جب لسان العصر اکبر الہ آبادی کی اسی انگریزی زبان والوں نے ان کی پنشن بند کر دی تو کہہ اٹھے
خداوندان ِلندن سے مرا پروردگار اچھا

ان خداوندان ِلندن کا روپ اب ہر جگہ موجود ہے پہلے جو پنج ہزاری لشکر کا کرتا دھرتا ہوتا تھا وہی بادشاہ ِوقت کے خواص میں شامل ہوتا تھا۔پنج ہزاری کئی ممالک کراس کرتے آتے اور اپنے آدمیوں کو قتل کرواتے اور نئے شامل کرواتے۔وہ اب بھی یہیں ہیں۔سب کو نظر آتے ہیں کسی سے اوجھل نہیں ہیں۔ایک نشانی اس کی ٹھنڈی سڑک پر اب بھی چار صد سترہ روپے ماہانہ پر انہیں پنج ہزاریوں کو ملی ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ ذہانت وہ واحد صلاحیت ہے جو اشرافیہ کی روک ٹوک کے باوجود از خود غیر اشرافیہ تک منتقل ہوتی ہے۔یہ سیلاب ِنوح ہے جو ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے اور نوح کا بیٹا کہتا رہ جاتا ہے۔وہ اسے پہاڑوں پر چڑھ کر اس سیلاب کو دیکھتا رہتا ہے۔جو سیلاب چھ ماہ جاری رہے وہاں بچنے کی کیا سبیل۔ علامہ مشرقی اعلٰی درجے کے حساب دان تھے۔کسی امتحان میں میتھ کے پرچے میں لکھا تھا کہ دس سوالوں میں سے کوئی پانچ سے سوالات کا جواب لکھیں۔انہوں نے دسیوں کے دسیوں سوالات حل کر کے لکھا کوئی سے پانچ جوابات چیک کر لیں۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply