آرٹ کی دنیا کے لوگوں کے لئے سلیپنگ بیوٹی کی یہ تصویر اجنبی نہ ہوگی اور اکثر نے کیرولین کی اسی نام کی نظم بھی پڑھ سن رکھی ہو گی ۔ مگر ذکر ہماری اپنی سلیپنگ بیوٹی کا ، جسے پہاڑوں سے عشق کرنے والے جانتے ہیں ۔
پاکستان کے بلند وبالا پہاڑی سلسلوں کی طرف جاتے ہوئے اچھے پائلٹ ان چوٹیوں کا تعارف بھی کرواتے ہیں جنہیں سلیپنگ بیوٹی کہا جاتا ہے ۔ اس لطف کو کافی کی چسکیوں سے دوبالا کرتے ہوئے ہم سب پرواز کر رہے تھے اور ایک پرانا گانا کوئی منچلا گنگنا رھا تھا ۔
یہ آج مجھ کو کیا ہوا۔
عجیب سا سرور ہے ۔
بدن نشے میں چور ہے ۔
لا لا ۔لا لا ۔ لالا ۔ لالا
اور جہاز نے ائر پاکٹ میں ایک غوطہ لگایا ۔اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا کچھ پتہ ہی نہیں ۔ وہی گانا ایک نعرہ میں تبدیل ہو گیا ۔
لالا ۔ لالا ۔ لالا ۔لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
یہ تو روز کا کام ہے ۔ ہم سب ہوائی سفر یا کم از کم سفر تو ضرور ہی کرتے ہیں ۔ لیکن اپنی آرام دہ سیٹ پر چسکیاں لیتے ہوئے ۔وہی موسم جو آپ کو کیف آگیں لگ رھا ہوتا ہے وہی پائلٹ کے دانتوں پسینے نکلوا دیتا ہے ۔ مگر راستے کی صعوبتیں وہ آپ تک صرف اس صورت میں پہنچنے دیتا ہے ، جب وہ قدرت سے ھار جائے ۔ ورنہ تمام ہی عملہ منزل پر پہنچ کر دانت نکالتے ہوئے آپ کو خدا حافظ کہہ رہا ہوتا ہے۔
یہ وہ برف پوش پہاڑ ہیں ، جہاں برف پگھلتی ہے ، تو دریا میدانوں کو زرخیز کرتے ہوئے سمندروں تک جاتے ہیں ۔ کبھی اِس پانی سے بجلی بھی نکلتی تھی ، مگر اب اِس بجلی سے صرف جان ہی نکلتی ہے ۔ لیکن بہر حال یہ پانی ہمارے میدانوں کو سیرابی اور ہمیں حیات بخشتا ہے ۔
یہی پہاڑوں کی بلندیاں ، میدانوں کی وسعتیں اور سمندروں کی اتھاہ گہرائیاں مل کر ہی ہمارا کائنات کو مکمل کرتی ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے ۔
پِھر ذکر اُسی پائلٹ کا ، جس کی وجہ سے ہم سب اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے اپنے شوق اور اپنی مرضی کے کام مزے سے کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جنت سے زمین کی طرف دیکھتا تھا اور اب وھاں واپس جانے کے راستے تلاشتا ہے ۔ اور یہ ہی مزاج دنیا کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے ۔ رائٹ برادران کی “رانگ ڈوئینگ ” wrong doing ہی تو تھی جس نے ہوائی جہاز اُڑائے ،ورنہ مزے سے بیٹھے رہتے محفوظ اور مطمئن ۔
مگر چین کرنا انسان کی فطرت میں ہے ہی نہیں ۔ دنیا میں آتے ہی وہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے ” میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں ” اور جیسے ہی کچھ ہوش سنبھالتا ہے دنیا بھی اس راگ میں شریک ہو جاتی ہے “کہ کچھ تو کرو ورنہ کھاؤ گے کیا ؟”
جوان ہوتے ہی ہمارے سامنے یہ سوال رکھ دیا جاتا کہ کرنا کیا ہے؟ نوکری یا کاروبار تو ابھی بعد کی بات ہے ۔ مگر کس شعبہ میں کام کرنا ہے ؟ آٹھ ارب لوگوں کے لئے کروڑوں نہیں تو لاکھوں شعبے ضرور ہیں ۔ ان میں سے انتخاب اور پھر درست انتخاب محنت طلب ہے ۔ شاید اس پر بھی بات ہو ،مگر سردست بنیادی تقسیم ، کہ کاروبار کرنا ہے یا کہ نوکری ؟ اس پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کچھ ایسے ہے کہ “کار” (کام ، پیشہ ، جاب ، ورک ) کا “بار” (وزن یا ذمہ داری ) یعنی اچھا یا برا ہونا اگر تو آپ خود ذمہ داری اُٹھا رہے ہیں تو یہی کاروبار ہے ۔ورنہ آپ وہی کام کر کے اس کے اچھے برے کی ذمہ داری کسی اور کو دے دیں تو وہی ملازمت ہو جائے گی ۔ شاید اس سے سادہ کوئی اور تشریح ہو نہ سکے ۔ دونوں کے اپنے اپنے فوائد ونقصانات ہیں بلکہ ایمانداری برتی جائے تو فوائد اور کم فوائد ہیں، بھلا کام کا نقصان کیا ہوگا ؟
انسانوں میں کسی بھی معاملے کا ایک ہی حل تو شاید کبھی ممکن نہ ہو مگر عمومی خیال یہ ہے کہ اپنا خود کا کام کرنے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تو کسی سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے ، وہ رہنما آپ کا سینئر ، آپ کا کوئی بڑا کوئی بھی ہو سکتا ہے ، اور اگر وہ آپ کو اسی کام کو سیکھنے کے دوران کچھ مالی فائدہ ، کوئی وظیفہ ، کوئی تنخواہ یا کچھ بھی گزارے کے لئے دیتا ہے تو ایک شکل ملازمت کی ہی ہو جائے گی اس وقت تک جب تک کہ آپ خود آزادنہ بغیر کسی مدد کے کام کرنے کے قابل نہ ہو جائیں ۔ سو ہم پہلے ملازمت پر ہی بات کرلیتے ہیں ۔
1️⃣ انسانی صلاحیتیں تو لا محدود ہیں ۔ کرنے کو ایک دو تین ملازمتیں بھی کی جاسکتی ہیں ۔ مگر ابتدائی طور پر کوشش ایک ہی ملازمت کی ہونا چاہیے ۔ مگر جب بھی کبھی ایک سے زیادہ ملازمتیں ہوں ، تو ان کو علیحدہ علیحدہ خانوں اور اوقات میں بانٹنا ضروری ہے۔ ایک کو کسی طوربھی دوسری ملازمت پر اثر انداز نہ ہونا چاہیے ۔ اور نہ ہی آجروں کے معاملات ایک دوسرے کے علم میں ہونے چاہییں ۔ یعنی جہاں ہیں وھاں حال میں ہی رہیں مکمل طور پر صاحب ِحال ۔
2️⃣ ۔ جیسا کہ نوکری میں ہم کلی طور پر متابعت یا فرمانبرداری سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک انگریزی ٹرم tunnel vision (یک نظری ) سے کام لینا ہوتا ہے کہ جو بھی کام کر رہے ہوں بس اسی کی طرف توجہ دی جائے کولہو کے بیل کی طرح ۔ اگر دوسرے کولہوؤں پر نگاہ رکھنا بھی ہو تو پہلے کا ” جؤا ” گلے سے اتارنے کے بعد ہی توجہ دی جائے ، چاہے وہ عارضی طور پر ہی ہو ۔
3️⃣ ۔ ملازمت ہمیشہ ہی ایک ٹیم ورک ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ فتور ذہن میں آتا ہے کہ ہم نہ ہوں تو یہ کاروبار نہ چلے لیکن یقین رکھیں ہم اس جہان میں نہ بھی ہوں گے تو بھی یہ کاروبار حیات چلتا رہے گا ۔ ہر ٹیم پلیئر کا متبادل ہر وقت موجود ہوتا ہے ۔
4️⃣ ۔ قطعاً بھی کوئی ہرج نہیں ہوتا کہ ہم نوکری کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میں کوئی کاروباد خود کرنے کی تیاری کریں ۔ اس سلسلہ میں ہم خیال لوگوں سے راہ و رسم بھی بڑھائی جاسکتی ہے ، مگر کاروباری دیانت داری مقدم رکھنا چاہئیے اور کبھی بھی رقابت یا مقابلہ پر کاروبار کی بنیاد نہیں رکھنا چاہیے ۔
5️⃣ ۔ پہلی تنخواہ کا مزہ دوبارہ آپ کی زندگی میں نہیں آنا ! چاہے آپ قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ پا لیں ۔ یہ وہ پہلی اینٹ ہوگی جو کہ آپ کی بنیاد کے نیچے سے ساری زندگی نکلے گی نہیں ۔ اس کا لطف کیسے اُٹھانا ہے اور کیسے سنبھالنا ہے ، کہ آپ کی آئندہ زندگی میں فائدہ دے ۔ اگر تو 1:4کے قانون عمل کر لیا جائے تو کیا بات ہے ۔ پانچویں حصہ کی بچت آپ کا مستقبل محفوظ بنا دے گی ۔
6️⃣ ۔ نوکری یا غلامی ۔ ملٹی نیشنل کمپنی سے پتہ نہیں دنیا کیا مراد لیتی ہے مگر کیا ایک رنگ اس کا یہ نہیں ہے کہ کمپنی بہت سے ملکوں بہت سے لوگوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ جہاں آپ کی خدمات خریدنے والے بھی لامحدود ہیں ۔ تو غلامی کیسی ؟ آپ اپنی سہولت اور اپنی مرضی سے اپنی خدمات بیچ سکتے ہیں اور جہاں پر موجود ہیں وھاں پر بھی آپ فرمانبرداری کرنے کے ساتھ ساتھ ہی اپنے لیول پر آزادی عمل برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ نکتہ صرف آپ کو ہی نہیں پتہ بلکہ آجر بھی جانتا ہے ، اس لئے اب وہ مالک نہیں کہلاتا ۔ وہ بھی جان گیا ہے کہ ملازم اور غلام میں کیا فرق ہے ؟
ملازمت کا تَیر بہ ہدف نسخہ ::
ہو سکتا ہے کہ بات پسند نہ آئے تو رد کرنے کی آپ کی آزادی ہے ۔مگرکبھی بھی طے شدہ معاوضہ کے عوض دو گنا کام کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ ایسا کر کے آپ اپنے ساتھیوں کی حق تلفی کریں گے ۔ اور نہ ہی کبھی معاوضہ سے کم کا کام کریں ایسا کرنے سے آپ اپنے آجر کے دَین دَار ہوں گے دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔ لیکن کبھی بھی پورا پورا کام بھی نہ کریں ۔ سو فیصد کی بجائے ایک سو پانچ فیصد حق ادا کریں ۔ ایسا کر کے آپ سب ملازمین کے ہجوم سے نمایاں بھی رہیں گے اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی زیادہ ملیں گے ۔ اور آپ کا دل بھی خوش کہ میں لازمی حق سے سِوا بھی کچھ دے ہی رھا ہوں اپنے آجر کو ۔
کاروبار کیا اور کب ؟
کچھ وقت ہو گیا ایک شعبہ میں کام کرتے سیکھتے ہوئے ۔ کچھ تجربہ اور مناسب سرمایہ بھی مہیا ہو گیا کہ خود کا کام شروع کیا جا سکے ۔
جیسے کہا جاتا ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔سب سے پہلے تو یہ ہونا چاہیے کہ کاروبار کرنے کے پیچھے نیت کیا ہے ۔صرف یہ کہ اس سے ڈھیروں منافع ہوگا ۔ کچھ کام نہ کرنا ہوگا ۔ تو اسے تو ذہن سے نکال ہی دیا جائے ۔
گھومنے والی کرسی پر بیٹھے مالک کے پیچھے شبانہ روز کی محنت صرف وہ ہی جانتا ہے ۔ ملازمت میں یہ ہی محنت تھوڑی تھوڑی کر کے ساری عمر کرنا ہوتی ہے ۔
کاروبار کرنے کے لئے ایک ہمہ گیر توجہ ( holistic approach )لازمی امر ہے جو کہ نیت کرنے سے پہلے نگاہ میں ہونا ضروری ہے ۔
1️⃣ ۔ کاروباری مزاج
2️⃣ ۔ مطلوبہ سرمایہ
3️⃣ ۔ متعلقہ شعبہ کا تجربہ
4️⃣۔ وقت یا مہلت
5️⃣ ” خیر الماکرین ” کی راہ پر
6️⃣۔ صحت
خواہشات اور صرف نیت سے کاروبار نہیں چلتے ۔ ان نکات میں سے اگر کوئی ایک بھی آپ کے ساتھ نہیں ہے تو خاطر جمع رکھیں ۔ رازق ” ملازم پیشہ “لوگوں کا بھی اتنا ہی قوی ہی ہے ۔
1️⃣ ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ملازمت کرنے والے لوگوں کا مزاج کچھ ایسا بن جاتا ہے کہ ادھر گھڑی نے پانچ بجائے ادھر سوئچ آف ۔ جب کہ اپنا کاروبار دن رات گھڑی پل کی خبر نہیں رکھتا ۔ بلکہ سال کے 365 اور ہفتے ساتوں دنوں کے علاؤہ دن کے بھی چوبیس گھنٹے آپ اپنے کام پر ہیں ۔ جسمانی طور ہوں نہ ہوں ذہن آپ کاوہیں اٹکا رہے گا ۔
2️⃣۔ کاروبار کھڑا کرنا اور پھر جمانا لازمی طور ہر کچھ سرمایہ کا تقاضا کرتا ہے ۔ اس کا بندوبست سب سے پہلے ہونا ضروری ہے ۔ نہ صرف کاروبار کے لیے بلکہ اپنے رواں گھریلو اخراجات کا اندازہ اور اس کے مطابق سرمایہ بھی پاس ہونا ضروری ہے ۔ کیونکہ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ آپ کا کاروبار جمنے میں کتنا وقت لگے گا ۔ نئے کام کے لئے عموماً تیس سے پینتیس برس کی عمر آئیڈیل رہتی ہے اس عمر میں آپ کچھ نہ کچھ سرمایہ بھی جمع کر چکے ہوتے ہیں اور آپ کو کھرا کھوٹا پرکھنے کی بھی کچھ سمجھ آ چکی ہوتی ہے ۔
3️⃣ ۔ جس بھی شعبہ میں کام کرنا چاہ رہے ہیں اس میں بنیادی مہارت ہونا لازمی ہے ۔ یہ مفروضہ کہ میں “اس کام کے لئے ملازم رکھ لوں گا” کام نہیں آتا کہ ملازم سے کام کروانے کے لئے خود کو وہ کام آنا ضروری ہے ۔ بہترین طرزِ عمل تو یہ ہی ہے کہ متعلقہ شعبہ میں ملازمت یا کسی استاد کی شاگردی کی جائے ۔
4️⃣ ۔ وقت ہمیں کتنی مہلت دیتا ہے ۔ کہ ہم کاروبار کو جما اور پھر چلا بھی سکیں ۔ وہی دور جب ہم تیس سے چالیس کے درمیان ہوتے ہیں ۔ بہترین رہتا ہے ۔ کیوں کہ اس وقت آپ کی زندگی ایک ڈھرے پر آ چکی ہوتی ہے ۔ آپ کی ذریت ، آپ کے ساتھیوں ، legacy کے لیے بھی وقت ہوتا ہے کہ وہ آپ کو کام کرتا دیکھ کر آپ سے کچھ سیکھ سکے ۔
5️⃣ ۔ “واللہ خیر الماکرین” دنیا میں ہر کام کسی کے لئے مشکل ہوتا ہے اور کسی کے لئے آسان ۔ یہ بھی ایک الٰہی صفت ہے کہ وہ ایسے اسباب پیدا فرماتا ہے کہ وہ کام سہولت اور آسانی سے کیونکر ہوسکتا ہے ۔ اسی صفت پر کاروباری چلتا ہے کہ وہ گاہک کے لئے آسانی پیدا کرنے کا گُر جانتا ہے ۔
6️⃣۔ اور آخر میں سب سے بڑی نعمت ۔” صحت” کسی بھی کاروبار میں کوئی بیماری کی رخصت نہیں اور پھر اگر خدا نخواستہ آپ کی صحت اس قابل نہیں کہ آپ دل لگا کر کچھ کام کر سکیں تو نیا کام تو ایک طرف پرانا یا چلا چلایا کام بھی ڈھیر ہو سکتا ہے ۔
گلا کاٹ معیشت::::
یہ مضمون سارے کا سارا اس بارے میں ہے کہ ہمیں رزق کیسے کمانا ہے ۔ اور جس جہان میں ہم جی رہے ہیں وھاں کامیابیوں اور رزق کا پیمانہ صرف سونے کے سکے ہیں ۔ لیکن اپنے اور صرف اپنے دل پر ھاتھ رکھ کر ! کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ کیا یہ ہی وہ جہاں ہے جسے ہم کمانا چاہتے ہیں ۔ اور کیا رزق صرف سونے کے سکے ہی ہیں ۔ وہ پیار ،وہ سکون ، وہ برکتیں ، جو ہمیں کسی بھی سکے کے بغیر میسر آئیں ، اس کا بدلہ ہم کس سے طرح دیں گے ‘ کس کو دیں گے اور نادھندہ رہ کر جینا کتنا اطمینان بخش ہوگا ۔
سو اس مالک کے حق کو ادا کیسے کرنا ہے جس نے سب کچھ بن مانگے دیا ۔ یہ سوال ہر ایک نے خود سے پوچھنا ہے ۔
حرف آخر ::::
اس خیال کو کبھی بھی اپنے ذہن میں جگہ نہ دیں کہ کاروبار یا ملازمت میں سے کوئ بھی کسی بھی طرح دوسرے سے کمتر یا برتر ہے ۔ دونوں کا اپنا اپنا دائرہ عمل ہے ۔
کام دونوں ہی کر رہے ہیں اور اس کا معاوضہ بھی پا رہے ہیں ۔ اسے آپ منافع کہیں یا کہ تنخواہ کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ۔ فرق ہے تو صرف ہماری ذہنیت کا کہ آجر یہ سمجھ رھا ہوتا ہے کہ یہ تنخواہ وہ دے رھا ہوں اور ملازمین یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں ہماری محنت کا اچھا پھل تو آجر غصب کر جاتا ہے ۔ عملاً دونوں ہی غلط ہی۔
کیا اس بات پر غور نہیں کیا جا سکتا کہ ملازم بھی تو اپنی محنت اچھے داموں آجر کے ھاتھوں بیچ رھا ہے اور آجر بھی تو اسی محنت کو مارکیٹ کر کے محنت کشوں کے لئے منافع حاصل کر رھا ہے اور ان تک پہنچانے کی کا ذمہ دار ہے جیسے کہ وہ سرکاری ٹیکس اکٹھا کر رھا ہوتا ہے ویسے ہی وہ ملازمین کی تنخواہیں جمع کر کے ان تک پہنچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
سو پیارو بات وہی ہے کہ
جہاں میں اختلاط ِ رنگ و بُو سے بات بنتی ہے
ہم ہی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں تم ہی تم ہو تو کیا تم ہو
یہ سارے رنگ مل کر ہی ہمارا کینوس سجاتے ہیں ۔
کاروبار یا ملازمت ایک آرٹ ہے ۔جو کہ سلیپنگ بیوٹی کے آرٹ کی طرح چمکایا تو جا سکتا ہےمگر سکھایا جانا ،شاید مشکل ہی ہو ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں