بات چیت میں کانگریس کا ذکر بھی در آیا، وہ بولے ’کانگریس کی حکومت میں ایک ’ڈی جی پی‘ تھے۔ اس وقت یہاں ویربھدر چیف منسٹر تھے، ان سے میرے خاص تعلقات تھے۔ میں مسلمانوں کے لیے ان سے کام کرایا کرتا تھا۔ اب تو وہ معذور ہوگئے ہیں۔ میں اب بھی ان کے جنم دن پر اور نئے سال کے موقع پر انھیں مبارک باد دینے ان کے گھر جاتا ہوں، یہ میری روایت ہے، بس اس مرتبہ اس روایت میں کورونا کی وجہ سے رخنہ پڑ گیا 24 یا 25 جون کو انھوں نے مجھے خود فون کیا، بیٹے سے بھی اچھے تعلقات ہیں، حکومت پر میرے جیسے مولوی کا اثر انداز ہونا یہ میری خوبی نہیں ہے، بلکہ من جانب اللہ ہے! کسی افسر سے میں مرعوب ہو کر نہیں ملتا۔‘
وہ کہے جا رہے تھے، ’کورونا‘ کے موقع پر یہاں کے ڈی ایس پی امت کشیپ تھے، انھوں نے ایک مرتبہ جمعہ کی نماز کے بعد مجھے بلایا۔ میں چلا گیا، تو اس نے کہا کہ مسجد میں جمعے کی نماز میں بڑی بھیڑ ہو رہی ہے، آپ لوگوں کو مسجد آنے سے منع کرو! میں نے کہا کشیپ صاحب، میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور میں منع نہیں کر سکتا۔ ہاں! البتہ بھیڑ اکٹھا نہ ہو، اس کی کوئی تدبیر کر لوں گا۔ یہ سن کر وہ غصے میں بولا، آپ منع کردو ورنہ پھر مجھے ہی آرڈر دینا پڑے گا! میں نے قدرے تیز آواز میں کہا ’مسٹر کشیپ! میں آپ کے باپ کو جانتا ہوں، آپ کے باپ سے میرے تعلقات ہیں، آپ مجھے دھمکا رہے ہیں! میں کھڑا ہو گیا، اب وہ پیچھے پیچھے چل رہے ہیں، میں نے اس سے کہا کہ جب میں کہہ رہا ہوں کہ اگلے جمعہ سے یہ بھیڑ نہیں ہو گی، تو الٹی بات کرنا چہ معنی دارد؟۔‘
کہانی ایک دل چسپ موڑ لے چکی تھی اور مولانا کی داستان جاری تھی، ’جامع مسجد شملہ سے متصل ایک ڈھابہ تھا، اس کے مالک ایک پنڈت تھے، وہ بڑے ملنسار تھے، جب بابری مسجد کا مسئلہ گرم تھا، تو میں نے پنڈت سے پوچھا کیوں خواہ مخواہ آپ لوگوں کو مروا رہے ہو تو اس نے کہا یہ ہندو قوم کبھی اکٹھی نہیں ہوتی، تم ہر جمعہ کو اکٹھا ہو جاتے ہو۔ میں نے کہا ہم سے بھی سچی بات سن لو۔ وہ اللہ کا حکم ہے اور تمھارا اجتماع اللہ کے حکم کے خلاف ہے یہ سن کر کہنے لگا یار مولبی صاحب! میں نہیں سنتا تیری! ہمارے تعلقات شروع ہی سے سب سے رہے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ کرتے ہوں۔
’دینک‘ بلاس پور سے ایک ڈیڑھ گھنٹے کے راستے پر ہے، مجھے یہاں مولانا ظہیر لائے۔ میں 1975ء میں یہاں آیا، اس وقت مولانا ظہیر” ٹرسٹ کمیٹی شملہ “کے چیئرمین تھے، ساری مسجدیں ان کے تحت تھیں۔ 1978ء میں مجھ سے کہا، تم شملہ میں اپنا گھر بنوا لو، میں نے منع کر دیا، مگر کام کرنے کے لیے میں نے یہ جگہ پسند کی یہ زمین بالکل ویران تھی۔ میں نے کہا مجھ سے کام لینا ہے، تو یہاں لگا دو، امام بنانا ہے، تو جامع مسجد دے دو، لیکن میں امام بن کر پابندی نہیں کر سکتا، شروع میں یہاں گراونڈ کا جھگڑا شروع ہو گیا۔
مسجد کے آس پاس ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگے :”یہ وقف کی پراپرٹی ہے، یہاں کے لوگوں نے الزام لگایا کہ ہمارا اس کو مسلم کالونی بنانے کا ارادہ ہے میں نے کہا اول تو ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے بالفرض اگر ہو ابھی تو کیا پریشانی ہماری پراپرٹی ہے، ہم چاہے بیچیں، چاہے کالونی بنائیں، اس بات سے ناراض ہو کر تین آدمی مجھے مارنے آ دھمکے۔ ان میں ایک سہارن پوری تھا۔ کہنے لگا مولانا صاحب ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے، میں نے اسے کہا ’ ہمت ہے تو چھو کے بھی دکھا بس سب بھاگ کھڑے ہوئے “۔
مولانا کا رُخِ تکلُّم اب زمانے کے اتار چڑھاؤ کے بیان میں چوکڑیاں بھرنے لگا تھا،وہ بولے:”یہ 1980ء کی کہانی ہے۔ اس لڑائی کی خبر ہر جگہ پھیل گئی، اس وقت جو پنڈت تھا اس تک بات پہنچی، اس نے کہا،مولانا ایسے نہیں ہیں، پھر بھی ان سے بات کرلیتے ہیں، تو مندر میں میٹنگ رکھی گئی، ہمیں بھی بلایا۔ یہ لوگ چاہ رہے تھے کہ اس جھگڑے کو ہندو مسلم کا رنگ دے دیں، اگر وہ کامیاب ہو جاتے، تو یہ زمین مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جاتی جیسے ہی میں مندر گیا پنڈت آ گیا کہنے لگا، اجی ہم تو آپ کے ٹیکا لگائیں گے میں نے کہا اجی پنڈت جی یہ تھوڑا سا کیوں سارے سر پر ہی لگا دو۔ سارے سر پہ لگا دو اور ٹوپی اتار کر سر ان کے سامنے کر دیا۔ پنڈت خوش ہوگئے اور لوگوں کو سمجھایا، دیکھو یہ کتنے اچھے آدمی ہیں۔ وہ آدمی وہیں تھا۔ میں نے کہا جس کا باپ زندہ ہو اس کو حرامی نہیں کَہہ سکتے۔ کسی اور سے پچھوا دو۔ میں اسی وقت شملہ چھوڑ دوں گا۔ میں مندر میں کَہہ رہا ہوں۔ اگر اس نے نہیں کہا، تو تجھے شملہ چھوڑنا پڑے گا۔ میں نے کہا اس جھگڑے کا حل صرف یہ ہے کہ تحقیق کرکے زمین نپوا لو۔ اگر وقف کی ہوئی، تو ہم لے لیں گے، ورنہ تمھیں سونپ دیں گے۔ خیر پٹواری کو بلا کر زمین ناپی گئی تو وہ وقف کی نکلی۔ یہ واقعہ اگر یوپی میں ہوتا تو ہندو مسلم ہوجاتا۔ہم نے اپنی حکمت عملی سے اسے وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔۔ اب تو ایک حصہ، میں نے مدرسے کے لیے لے لیا۔ ایک حصہ حکومت نے اسکول کے لیے، وہ کرایہ دے رہی ہے، میں بھی کرایہ دیتا ہوں “۔
مولانا کی کہانی جاری تھی،’میں سب سے یہی کہتا ہوں کوئی بھی واقعہ ہو اس کی گہرائی کو دیکھو۔ ان فسادات کی بنیاد کچھ بھی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک صاحب میرے پاس آئے کہ میں پانی بھر رہا تھا میرا برتن چند ہندوؤں نے یہ کہتے ہوئے ہٹا دیا کہ تو مسلمان ہے۔ میں نے پوچھا تم کتنے سال سے یہاں ہو؟ کہنے لگا اتنے سال سے میں نے کہا، آج تک تجھے کبھی اس طرح کی شکایت ہوئی ہے؟ کہنے لگا نہیں، میں نے کہا تو پھر اب بھی کیوں غلط فہمی پال رہا ہے۔ بس اس کی سمجھ میں بات آ گئی۔ اصل میں یہاں پانی کی قلت ہے۔ گرمیوں میں صرف ایک گھنٹہ پانی فراہم ہوتا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ ہر آدمی کوشش کرے گا کہ پہلے اُسے پانی ملے۔
میں مسلمانوں کی مدد اس لیے نہیں کرتا کہ مسلمان میری تعریف کریں گے، بلکہ میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میں ہر موقع پر مسلمانوں کے مفاد کی بات کروں گا۔ ہمیں جذبات میں بہنے کے بجائے مضبوط حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا چاہیے‘۔
پہلو بدلتے ہوئے مولانا نے کہا :” آپ لوگوں کو ایک اور کہانی سناتا ہوں ’یہاں عیدگاہ کے قریب ’عیدگاہ کالونی‘ کے نام سے ایک مسلم محلہ ہے۔ میں نے ایک ریزولیوشن دیا کہ یہاں پانی کی پائپ لائن بچھوانی چاہیے۔ وہاں ایک ممبر ’بی جے پی‘ کا تھا، اس نے میری مخالفت کی، میں نے اس سے بہت بحث کی اور خوب ’توتو، میں میں‘ ہوئی، چوں کہ اس وقت کانگریس کی حکومت تھی، اور میئر ہمارا تھا اسی لیے وہ پاس ہو گیا، بعد میں باہر آ کر اس نے مجھے پکڑ لیا اور بڑے دوستانہ انداز میں کہا، چلو ! یار کافی پئیں گے۔ پھر کہنے لگا تم یہ سمجھ رہا تھے کہ میں مسلمانوں کی وجہ سے اس علاقے میں پائپ لائن نہیں بچھانے دے رہا تھا۔ یہ تیری غلط فہمی ہے۔ ابے! وہ تو میرا علاقہ ہے، مجھے وہاں سے ووٹ لینا ہے۔ میں ان کا کام نہیں کروں گا، تو کون کرے گا؟دراصل بات یہ ہے ان کے یہاں بڑے پاپ پھیلے ہوئے ہیں اس علاقے میں شراب وہ پیتے ہیں، بد کاری وہ کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں، وہ میرے پاس آئیں، میں انھیں تنبیہ کر کے ان کی اصلاح کر دوں۔ اس نے ایک آدمی کو فون کر کے بلایا۔ میں نے پوچھا: کیوں بلاتے ہو؟کہنے لگا:تجھے دکھانا ہے کہ اس کا گھر شراب کی دکان بنا ہوا ہے، پھر کہنے لگا، اگر یہ لوگ سدھر جائیں تو میں خود پائپ لائن لگوا دوں گا۔اگر وہ مخلص ہوتا تو پانی کی سہولت فراہم کر کے بھی ان کے دلوں میں جگہ بنا سکتا تھا “۔
اس کے بعد مولانا نے مسلمانوں کے تشخص اور ان کی صورتحال پر گفتگو چھیڑی: ”اس وقت مسلمانوں کے سامنے دو چیلنج ہیں۔ ایک اپنا تشخص برقرار رکھنا اور دوسرا اسلامی شعار اپنانا۔ مسلمانوں کو چاہیے جذباتی نعروں سے بچیں، کیوں کہ ملک کی تقسیم مذہب کے نام پر ہوئی تھی، جب مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ایک ملک دے دیا گیا، تو ہندوؤں کا کہنا تو بنتا ہی ہے۔ ہمارا دستور اس قابل تھا کہ اس پر پوری طرح سے عمل کیا جائے، مگر افسوس ایسا کانگریس نے بھی نہیں کیا۔ اپنی بقا کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ خاموشی سے اپنا کام کر لیں اور جذباتی باتوں میں نہ آئیں۔ باقی ہندوستان ہندو راشٹر تو بن نہیں سکتا۔ ’اتہاس‘ میں بھی کبھی ہندو راشٹر نہیں رہا۔ ایک مرتبہ ایک ہندو نے ہمیں شادی کا دعوت نامہ دیا۔ اور کہا، مولانا کچھ خیال مت کرنا۔ میں نے کہا بھائی میں ایسا کیوں کروں گا۔ ہمارا آپسی میل ملاپ ہے۔ وہ تو بس کچھ جذباتی لوگ ہیں، جو خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ اصل چیز قومی یکجہتی ہے، ہمیں اس کے لیے محنت کرنی ہے۔ شملہ میں اردو بولنے والے کم ہیں، لیکن ’محبینِ اردو‘ زیادہ ہیں۔ یہاں کئی مسئلے ہیں۔ 1948ء میں قانون بنا کہ وقف پراپرٹی کے لیے کسٹوڈین کا محکمہ بنایا جائے گا۔ 1970ء میں نوٹیفیکیشن آیا کہ وقف کی تمام زمینیں وقف بورڈ کے نام رجسٹرڈ ہوں گی۔ ادھر کچھ لوگ وقف کی اراضی پر قابض ہو چکے ہیں 21 مئی کی کیبنٹ میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا زمین پر جو لوگ قابض ہیں، وہ انھی کے حوالے کر دی جائیں اور انھی کو سونپ دی جائیں۔ اس پر ہم نے وقف بورڈ کو توجہ دلانے کے لیے خط لکھا۔ مگر انھوں نے توجہ نہیں دی، ہم نے ان سے کہا، ہم گورنمنٹ کے خلاف کیس لڑیں گے۔ تو سنئے !یہاں وقف کے حالات بہت مخدوش ہیں۔
کے -رحمٰن نے وقف ایکٹ 2013ء میں ترمیمات کیں، وہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ہم ان سے ملے اور کہا یہ آپ غلط کر رہے ہیں، یہ وقف کی پراپرٹی پر مدرسہ ہے، اسپتال کے لیے، 30 سال کا قبضہ ہو سکتا ہے، لیکن وقف کی زمینیں مسلمانوں کی ہیں۔ آپ عام مسلمانوں کو کیا رعایت دے رہے ہیں؟ اس طرح تو یہ زمینیں صرف مال دار خرید لیں گے۔ کہنے لگے: اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم نے کہا:تمھاری یہاں حکومت ہی نہیں ہے۔ ہم چند ووٹوں کے لیے ہندوؤں کو ناراض کیوں کریں گے۔ اب وقف بورڈ کی صورت احوال خراب ہو گئی ہے۔ میں نے یہ تجویز رکھی کہ وقف بورڈ کی شرائط یہاں پوری نہیں ہوتیں، سینٹرل گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن اپنے ماتحت رکھے، وہ بھی نہیں مانا۔ اب وقف بورڈ میں ہر پارٹی اپنا آدمی شامل کرے گی۔ یہاں کے وقف کا چیئرمین تین چار جماعت پڑھا ہوا ہے۔ یہاں اربوں، کھربوں کی ملکیت ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا آپ کے یہاں ایسا کوئی ہال ہے، جہاں ثقافتی اور تہذیبی پروگرام ہوتے ہوں؟ یہاں’ دھرم شالہ‘ہے اس میں بڑی تصویر لگی ہے۔ ہم کے رحمٰن سے کہَہ رہے تھے آپ غلط کر رہے ہو۔ میں نے بھی وہ زمین لی، میری نیت تو کچھ بنانے کی تھی۔ اگر حکومت میرے خلاف کھڑی ہو جائے، تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ اب حالات یہ ہیں کہ وقف کی پراپرٹی مسلمانوں کا اثاثہ ہے۔ آپس میں بیٹھ کر ان چیزوں کا حل نکلے گا۔ کانگریس کے دور میں یہ قانون بنا، بی جے پی کو یہ ختم کر دینا چاہیے تھا، لیکن نہیں ختم کیا، کیوں کہ ان کا فائدہ تھا۔ میں نجمہ ہبت اللہ سے ملا جب وہ وزیر اقلیت تھیں، میں نے ان سے کہا، وہ بولیں کہ ہاں یہ غلط ہے، لیکن کام نہیں کیا۔ طاقت ہمارے پاس نہیں ہے۔اب یہی راستہ بچا ہے کہ طاقت کی راہ سے انتظامیہ میں شامل ہوا جائے۔ یہ بھی تب ممکن ہے جب ذہن اسلامی ہو۔ میں دارالعلوم دیوبند کی مدارس کمیٹی ”رابطہ مدارس اسلامیہ“ کا ممبر ہوں، میں نے لکھا دیو بند اپنے طلبا کا الگ ہاسٹل بنائے اور عصری تعلیم کا سلسلہ وہاں شروع کرے۔۔ اچھا مغلیہ دور حکومت میں بھی تو مذہبی تعلیم تھی۔ دارالعلوم دیوبند اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا قیام دونوں وقت کی ضرورت تھیں۔ ایک نے چاہا،انتظامیہ میں جائیں، دوسرے نے چاہا علم دین سے تعلق رہے۔ یہ پس ماندگی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی، جب تک ہم عصری علوم کو ساتھ لے کر نہ چلیں، ساتھ ہی ہمیں اپنی معیشت بھی درست کرنی ہو گی۔میں نے ایس -وائی -قریشی کے ساتھ کام کیا ہے، وہ ہم سے بہت متاثر تھے۔۔ انھوں نے ’عطیہ خون‘ کے کیمپ کے لیے کہا، میں نے حمایت کی۔ کچھ مولوی میرے پیچھے پڑ گئے۔ آپ خون کیوں لیتے ہیں، جائز و ناجائز۔ جدید مسائل میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو عبور حاصل تھا۔ انھوں نے فقہ اکیڈمی بھی قائم کی ان کی رائے یہی تھی کہ خون کا عطیہ دینا جائز ہے۔
ایک زمانہ میں وحید الدین خان اپنے مجلہ’ الرسالہ‘میں اپنے بڑے خواب شائع کر رہے تھے۔ میں نے انھیں خط لکھا کہ آپ اپنی نبوت کا اعلان کب کررہے ہیں۔ انھوں نے جواب میں لکھا کہ اس کا جواب میں بالمشافہ دوں گا۔ اسی زمانہ میں ہماچل میں سونیا گاندھی نے انسانیت کے موضوع پر ایک سیمینار رکھا تھا ۔اس میں ان کو بھی بلایا گیا تھا۔ خیر وہ شملہ آ گئے۔ وہ سیمینار ’ایڈوانس اسٹڈی ‘میں ہو رہا تھا۔ مولانا وحید الدین خان کو بھی مقالہ پڑھنا تھا۔ ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں دعوت دے دی۔ انھوں نے کہا میں آپ کی دعوت اس شرط پر قبول کروں گا کہ آپ اہتمام نہیں کریں گے۔ میں نے کہا تھوڑا بہت اہتمام کرنے کا حکم تو اللہ نے بھی دیا ہے۔ کہا، نہیں،ورنہ کل آؤں گا۔ خیر! وہ ہمارے گھر آئے، ہمارے گھر میں اس دن آلو کی سبزی بن رہی تھی ۔کہنے لگے :آپ نے وہ بات کیوں لکھی؟ خواب تو مبَشِّرات میں سے ہیں۔ میں نے کہا: یقیناً خواب کی تعبیریں اچھی بھی ہوتی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آدمی اپنی ہر بات کی تائید، خوابوں سے کرنے لگے! ان دنوں آپ اپنی ہر بات کو خواب سے ثابت کر رہے ہیں۔ مرزا غلام قادیانی بھی پہلے بہ کثرت خواب دیکھنے کے دعوے کرتا تھا، پھر آخر میں اس نے نبوت کا ہی اعلان کر دیا۔ خیر! ان سے ملاقات بڑی دلچسپ رہی۔ وہ مجھ سے بڑے خوش ہوئے، بعد میں واپس جا کر”الرسالہ“ میں میرے بارے میں انھوں نے ایک تفصیلی مضمون لکھا۔
میرا مزاج اصل میں ظریفانہ ہے۔ طالب علمی کے دور ہی سے میں خوب ہنسی مذاق کیا کرتا تھا۔ شاہ بانو کیس میں وکیلوں سے میری بہت بحث رہی۔ وکیل مجھ سے کہتا: یار !تم بہت بحث کرتے ہو!میں ان سے کہتا: کرتے تو تم بھی ہو، بس تمھیں صحیح طریقے سے بحث کرنا نہیں آتا۔
ہماری یہ بات چیت مال روڈ پر چل رہی تھی، جہاں لالہ لاجپت رائے کی مورتی نصب تھی۔ ان کی ایک انگلی آسمان کی طرف تھی۔ اس وکیل نے مجھ سے پوچھا، اچھا یہ بتاؤ، یہ لالہ لاجپت کیا کہَہ رہا ہے۔ تو میں نے برجستہ جواب دیا: یہ کَہہ رہا ہے کہ اے لوگو!، سنو، وہ یعنی اللہ ایک ہے، یہ سچی بات تھی۔ اس موقع پر وحید الدین خان بڑے محظوظ ہوئے اور کہنے لگے، ایسے ہی مبلغین کی ضرورت ہے۔
ہماچل پردیش میں مسلمانوں کا صرف محرم کا جلوس نکلتا ہے۔ 1982ء میں شیعوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہم جلوس نہیں نکالیں گے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آیا۔ کسی زمانہ میں لوگ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے پاس گئے۔حضرت تھانوی نے ان سے پوچھا: تم مسلمان بھی ہو کیا؟ ان لوگوں نے کہا :کیوں نہیں؟اور فخریہ انداز میں کہا: ہم پکے مسلمان ہیں اور ہر سال تعزیہ نکالتے ہیں، تو حضرت تھانوی نے فرمایا : ” نکالتے رہنا “۔
اب کوئی بے وقوف یہ کہنے لگے کہ بتاؤ حضرت تھانوی نے تو تعزیہ کو جائز کَہہ دیا، تو آپ اس کی عقل کا ماتم کریں گے یا نہیں؟ اصل میں یہ جائز یا ناجائز کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ حکمت کی بات ہے۔ تو جب شیعوں نے تعزیہ نہ نکالنے کا فیصلہ کیا تو میں خود ’امام باڑہ‘ گیا اور ان لوگوں سے کہا تم تعزیہ کیوں نہیں نکالتے ہو۔ کہنے لگے، اجی ہماری تعداد کم ہے اسی لیے نہیں نکال رہے۔ میں نے کہا ارے نہیں یار نکالو۔ حالات کے اعتبار سے ضروری ہے۔ اور میں بھی تمھارے ساتھ جلوس میں نکلوں گا اور میں تمھیں نہیں روکوں گا، تم مجھے نہیں۔ یہ بے چارے ننگے پیر تھے۔
جلوس کے موقع پر کچھ ’ سنی مسلمانوں ‘نے مجھے دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور کہا :مولانا !آپ کب سے ان کے ساتھ ہو گئے؟ میں نے کہا یہ مسئلہ ’شیعہ سنی‘ کا نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں کا مشترک مسئلہ ہے۔ ان میں سے ایک افسر نے مجھ سے پوچھا مولانا یہ تعزیہ جائز ہے کیا؟ میں نے اس سے پوچھا تم مہاتما گاندھی کے جلوس میں شریک ہوتے ہو وہ جائز ہے کیا؟
علاقے میں اگر ہندوؤں میں کسی کی موت ہو جاتی ہے، تو حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں خود بھی ان کے ساتھ شمشان گھاٹ جاتا ہوں، البتہ ہندوانہ رسوم میں شریک نہیں ہوتا۔ وہ آگ جلانے کے لیے لکڑی ڈالتے ہیں، تو میں بھی ایک آدھ ڈال دیتا ہوں۔ ایک موقع پر ایک مولانا کہنے لگے، ”یہ تو جائز نہیں“ اب بتاؤ ۔ بھئی، میں ناجائز کو جائز نہیں کہتا، بس یہ کہتا ہوں کہ بصیرت اور حکمت سے کام کرو۔ میری میل ملاپ کی انھیں کوششوں کی وجہ سے 1992ء کے فسادات کے بعد جب حالات بہت خراب تھے، ہندوؤں کے درمیان بھی میرا بڑا مقام تھا۔ اس وقت صورت احوال یہ تھی کہ مندر کے فیصلوں تک کے لیے بھی وہ مجھے بلاتے تھے۔ خیر، اب تو میں کم زور ہو گیا ہوں۔ زیادہ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا، لیکن ذرا آپ ہی بتلائیے، اگر میں جائز و ناجائز کے چَکّر میں پڑتا تو کیا یہ لوگ میری بات مانتے۔
ہماچل پردیش میں دو فی صد مسلمان ہیں،ان کی معاشی حالت ٹھیک ہے۔ ہماچل کے دس اضلاع میں مسلم آبادی ہے۔ دو میں نہیں ہے، لیکن اب مزدور طبقہ پہاڑی علاقوں میں پہنچ گیا ہے یہاں زیادہ بدھ دھرم کے پیرو کار ہیں۔ میری پیدائش 16 اکتوبر 1944ء کی ہے۔ اس لحاظ سے آج 76 سال کا ہوں۔ مجھے اس طویل عرصے میں یہ سمجھ میں آیا کہ کبھی جذبات میں آکر کام نہیں کرنا چاہیے۔یہ تھے مولانا ممتاز قاسمی جو شملہ کی سر زمین پر گذشتہ پچاس سال سے علم و ارشاد کی محفل سجائے ہوئے ہیں۔
وقت تیزی کے ساتھ گذر رہا تھا اور روانگی کا سمے قریب آ رہا تھا ۔ یہاں سے بات چیت کا سلسلہ ختم کر کے جب ہم باہر نکلے تو شام خاصی بھیگ چکی تھی۔ جلدی جلدی کوارٹر واپس آیا، 9 بجے رات کو دہلی کے لیے بس تھی، کھانا وغیرہ کھانے کے بعد سامان سمیٹا اور دہلی کے لیے بذریعہ بس روانہ ہو گیا۔ عادل کار تک چھوڑنے آیا۔ یہ لمحہ بڑا جذباتی تھا۔ جدائی کا منظر میرے لیے ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے، آنے کا جی تو نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن دہلی میں بہت سارے کام پڑے تھے۔ دل پر جبر کر کے اپنے دوست کو الوداع کہا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیا، مجھے اندیشہ تھا اگر تھوڑی دیر میں اور رْکتا تو آنسووؤں کو برکھا رُت بنتے دیر نہیں لگتی ۔ اسٹیشن پہنچا تو بس نکلنے ہی والی تھی، جلدی جلدی سامان لے کر بس میں بیٹھ گیا اور اداسی کی کیفیت کو مزید بھڑکانے کے لیے استاد شجاعت حسین خان کی گائی ایک غم انگیز غزل لگا لی:
اور کچھ غم نہیں غم یہ ہے
آپ مل کر جدا ہو گئے
ہارمونیم کی مدھر لیے دل کو چیر رہی تھی اور رات کی تاریکی میں مست ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی بس آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
محمد علم اللہ کے سفرنامہ “ہم نے بھی شملہ دیکھا” سے ماخوذ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں