“Nineteen Eighty-Four ”
جارج آرویل
جارج آرویل کی ضد یوٹوپیا ، ( جہاں ہر چیز خوفناک ہے ) ” انیس سو چوراسی کی منصوبہ بندی 1943ء میں یورپ کا آخری آدمی کے زیر عنوان ہوئی ۔ چنانچہ یہ اس کی موت کا باعث بننے والی تپ دق کی بیماری کا ترش رد عمل نہیں تھی ۔ آرویل 1950 ء میں 50 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا ۔ اس کی تصنیف ذاتی مایوسی سے بالکل پاک ہے۔ یہ ایک تصوراتی ریاست کے ماتحت انفرادی زندگی کی نا گفتہ بہ حالت کی تصویر کشی کرتی ہے۔ مستقبل کی یہ ریاست سوویت یونین کی یاد دلاتی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ جذبات سے عاری سوشلزم کے تحت انفرادیت نہ صرف کم بلکہ تباہ ہو جاتی ہے۔
آرویل نے اپنی فیاضی اور انکساری کو برقرار رکھا۔ تا ہم ، اس نے شدید مایوس کن بیماری کی حالت میں ناول مکمل کیا ۔ لیکن یہ ایک موت زدہ آدمی کی جانب سے ایک انتظامی پیشگوئی نہیں تھی ۔ اس کی بجائے یہ طنز مگر پرامید ، ممکنہ صورتحال کی یاددہانی تھا۔ انیس سو چوراسی بہت اثر انگیز ثابت ہوا: کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ اس نے اپنی پیش بینیوں کو حقیقت کا روپ دھارنے سے روکا۔ اس میں شامل بگ برادر اور دیگر اصطلاحات زبان کا حصہ بن گئیں ۔ یہ سٹالنسٹ ” پاکیزگی اور فریب پر طنز کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دور کی استبدادی سیاسی درستگی کی پیش بینی بھی کرتا ہے۔ ابتداء میں انیس سو چوراسی کی مخالفت تو ہونا ہی تھی ۔ قابل ستائش نقاد ڈیوڈ ڈیچز نے اسے شاندار انداز میں بے کار قرار دیا۔
آرویل 1903 ء میں بنگال میں پیدا ہوا جہاں اس کا باپ انڈین گورنمنٹ میں ملازم تھا۔ پیدائش کے بعد اس کا نام ایرک آرتھر بلیزر رکھا گیا ۔ اس نے ایٹن کے خصوصی پبلک سکول میں داخلہ لیا، مگر یونیورسٹی میں جانے کے لیے سکالرشپ حاصل نہ کر پایا اور برما میں امپیریل انڈین پولیس میں بھرتی ہوا اور پھر سکول ماسٹر اور صحافی کے طور پر زندگی گزاری۔ ابتدائی زمانے میں اس نے خود کو انارکسٹ بیان کیا مگر 1930 ء کی دہائی کے دوران سوشلزم کا زبر دست حامی بن گیا ۔ آرویل پر بائیں اور دائیں بازو ( سوویت روس کے خلاف طنز یہ ناول “Animal Farm” کی وجہ سے ) دونوں نے حق جتایا۔ مگر اس کا عمومی رویہ بائیں بازو کی جانب رجحان ظاہر کرتا ہے …. امن پسند، سرمایہ داری کا مخالف، زیریں۔ متوسط ۔ اور بالائی طبقات کی تقسیم پر شرمسار، اور مزدوروں کی سادہ اقدار میں شراکت کا تمنائی ۔
سب چیزوں سے بڑھ کر وہ ایک قلم کارتھا، اور اپنا زیادہ تر وقت یہ منصوبہ بندی کرنے کی کوشش میں صرف کیا کہ بحیثیت مصنف اپنی آزادی کو قربان کیے بغیر انسانیت پسندانہ اور اصلاحی سیاسی خیالات کو کس طرح عملی جامہ پہنائے ۔ اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر اس نے اس قسم کے ٹکراؤ کی ضرورت محسوس نہ کی ہوتی تو یقیناً وہ ویسا مصنف نہ بن پاتا جیسا کہ بنا۔ اپنے دور کے بہت سے انگریزوں کی طرح اس کے طرز عمل میں تبدیلی 1947 ء کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتی ہے:
اگر آپ کو روس اور امریکہ میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو آپ کے منتخب کریں گے؟ ہم اب اتنے طاقتور نہیں رہے کہ الگ تھلگ رہ سکیں ، اور اگر ہم ایک مغربی اتحاد ( یونین ) کو وجود میں نہ لا سکے تو طویل المدت میں ہم ایک یا پھر دوسری عظیم طاقت کی پالیسی کے تحت چلنے پر مجبور ہوں گے اور ہر کوئی اپنے دل سے جانتا ہے کہ ہمیں امریکہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
کچھ اینٹی کمیونسٹ امریکیوں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ آرویل امریکہ کا معترف تھا، مگر حقیقت ایسی نہیں ۔ مثلاً وہ زندگی بھر ایٹم بم کی شدید مخالفت کرتا رہا: ”اگر ہم نے اسے مسترد نہ کیا تو یہ ہمیں تباہ کر دے گا۔
آرویل ہسپانوی سول جنگ میں فرانکوں کے خلاف لڑنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر سپین چلا گیا ۔ اس لڑائی کے دوران ( جب وہ زخمی بھی ہوا ) اسے پہلی مرتبہ ان سٹالنی طریقوں کا علم ہوا جن پر اس نے اینیمل فارم میں طنز کی۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد اس نے لیبر کو ووٹ دیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ مزدور طبقہ لیبر کو ووٹ دے گا۔
اینیمل فارم نے اسے کچھ شہرت دلائی، مگر انیس سو چوراسی نے تو عالمی سطح پر مشہور کر دیا۔ خود آرویل نے تسلیم کیا تھا کہ یہ ایک اور ( مغرب میں بہت کم مشہور ) ضد یوٹوپیا” We” کی بنیاد پر تھا ( جو zamyatin نے لکھی تھی ) ۔ تاہم انیس سو چوراسی کے حوالے سے “We” کا نہیں بلکہ برطانوی ناول نگار آلڈس ہکسلے کی “Brave New World (1933 ء) کا خیال آتا ہے۔ ہکسلے کی کتاب کا مقصد پیش گوئیاں کرنا تھا۔ اور اس نے ایک تخیلاتی کام کی بجائے ایک پیش گوئی کے طور پر ہی کامیابی حاصل کی ۔ اس کے ذریعہ ہکسلے اپنے دور کے ذہنی خالی پن اور شہوت پرستی کے رجحانات سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اس نے بھی ایوگینی زمیاتن ( 1884ء تا 1937 ء ) کی تصنیف “We” سے کافی کچھ لیا تھا۔ لیکن ہکسلے نے نہ معلوم وجوہ کی بنا پر زمیاتن کا حوالہ تک نہ دیا اور کہا کہ اس نے “We” نہیں پڑھا۔ تاہم، یہ امر یقینی ہے کہ اس نے واقعی زمیاتن کی تحریر پڑھ رکھی تھی اور کسی بھی نقاد کو اس حوالے سے کوئی شک نہیں ۔
آرویل کے انیس سو چوراسی کی بنیادوں میں زمیاتن کا “We” موجود ہے۔ لیکن اس سے انیس سو چوراسی کی قدر و قیمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے پلاٹ بھی تو کچھ دیگر تصنیفات سے مستعار لیے ہوئے ہیں۔ لیکن آرویل کے ناول کا حوالہ ادبی سے زیادہ سیاسی بنتا ہے۔ “We” کا شمار 100 عظیم ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ انیس سو چوراسی انگلینڈ کی ایک اسطورہ اور اس امر کی ایک خوبصورت شرح بھی ہے کہ “Etonianism” ( جس سے آر ویل بخوبی آگاہ تھا) کا دبیز چھلکا ٹوٹنے والا تھا۔ اس دور میں ایٹن کی حکومت کا انحصار رسوماتی دہشت (Ritual terror) پر تھا۔ فرد کے مفادات میں ملفوف دہشت ۔ آرویل نے اس کا اثر بھی لیا اور اس سے نفرت بھی کی ۔ آرویل کا کردار اوبرائن اپنے ” عام ہیرو ونسٹن سمتھ سے کہتاہے:
پارٹی صرف اپنی خاطر اقتدار کی متمنی ہے۔ ہم دوسروں کی بہتری میں دلچسپی نہیں رکھتے ؟ ہمیں صرف اور صرف اقتدار میں دلچسپی ہے۔ اب آپ سمجھ جائیں گے کہ خالص اقتدار یا طاقت کیا ہے۔ جرمن نازی اور روسی کمیونسٹ اپنے طریقہ ہائے کار میں ہمارے بہت قریب آگئے ہیں، لیکن ان میں اپنے ارادوں کو تسلیم کرنے کی ہمت کبھی نہیں تھی۔ اقتدار ایک ذریعہ نہیں بلکہ مقصد ہے ….. ایذا دہی اور تادیب کا مقصد صرف ایذا دہی اور تادیب ہی ہوتا ہے (Perseustion) اگر دنیا، یا دنیا کا ایک حصہ اس قسم کی باتوں سے کم خوف کھاتا ہے تو اس کی وجہ کافی حد تک آرویل ہی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں