معاشیات میں قدر سے مراد ہے کہ صارف کسی چیز کی کتنی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ مثلاً ایک تولے سونے کے لیے آپ ایک لاکھ بہت آرام سے ادا کردیں گے جبکہ ایک لاکھ روپے آپ چاندی کے ایک تولے کے لیے دینے کو نہیں مانیں گے کیونکہ سونے کی قدر چاندی سے زیادہ ہے۔ قدر ایک تجریدی تصور ہوتا ہے جبکہ قیمت حقیقی رقم ہوتی ہے۔
یہ تعریف تو معاشیات کے آغاز میں ہی وجود میں آگئی تھی لیکن پھر معاشیات کے ماہرین کے لیے ایک سوال تھا کہ “وہ کیا چیز ہے کہ جو چیز کو قابلِ قدر بناتا ہے؟” اس پر کافی اختلاف پایا گیا لیکن آخرِکار برطانوی ماہرِ معاشیات نے اس کی ایک تعریف کر ہی ڈالی۔ اس معاشیات دان کا نام تھا ڈیوڈ ریکارڈو۔
ریکارڈو نے استدلال کیا کہ کسی بھی سروس یا چیز کی قدر اس میں شامل محنت کے مقدار سے وابستہ ہوتی ہے، یعنی جس چیز کو پیدا کرنے یا حاصل کرنے کے لیے جتنی محنت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک کرسی کو بنانے میں دس گھنٹے محنت درکار ہے اور ایک میز کو بنانے میں دو گنا وقت لگتا ہے، تو میز کی قدر کرسی سے زیادہ ہوگی۔
یہ قدر کو سمجھانے کا سیدھا سادہ طریقہ تھا۔ خاص کر ایسے دور میں جب صارف کا رویہ بھی یہی تھا کہ جانتا تھا کہ کس چیز میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ ریکارڈو کے وقت میں لوگوں کے پاس دو راستے تھے۔ چیز خریدو یا خود بنا لو تو ظاہر ہے وہ جانتے تھے کہ بنانے میں کتنی محنت درکار ہوگی تو اس سے ان کی چیزوں کی قدر اس کے لیے محنت سے جڑی ہوتی تھی۔
لیکن وقت بدلا تو اس پر بہت سے تنقیدات بھی ہوئی جیسے کہ:
1) جن چیزوں کے حصول میں ایک سی محنت ہوتی ہے ان کی قدر ہمیشہ ایک سی نہیں ہوتی مثلاً ہیرے اور سونے کی کان کنی تقریباً ایک جتنی ہی مشکل اور محنت طلب ہوتی ہے لیکن ہیرا نکلنے کے بعد سونے سے زیادہ مہنگا تصور ہوتا ہے۔
2) ایک تنقید جو پہلی ہی سے جڑی ہے وہ یہ ہے کہ کئی چیزیں ایسی ہیں جنھیں پیدا کرنے میں بہت زیادہ دماغی اور جسمانی محنت چاہیئے ہوتی ہے لیکن ان کی قدر کچھ نہیں ہوتی جیسے اگر جدید مثال لی جائے تو اینٹی میٹر اس کی مثال ہے جو کہ پیدا کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن اس کے باوجود ایک عام صارف کی نظر میں اس کی کوئی قدر نہیں اور وہ اس کے لیے تھوڑی سی قیمت دینے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔
3) تیسری تنقید یہ ہے کہ زمانہ بدل چکا ہے ریکارڈو کے زمانے میں وہ چیزیں بکتی تھی جو لوگ خود بھی پیدا کرتے تھے یا جانتے تھے کہ ان کے پیدا کرنے میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے جبکہ آج کا صارف کسی چیز کے پیچھے کتنی محنت ہے سے زیادہ اس بات کو سوچتا ہے کہ آیا یہ چیز میرے کام کی ہے یا مجھے چاہیئے؟
4) اس کے علاوہ ریکارڈو کا نظریہء قدر دراصل ایک منطقی مغالطے پر کھڑا ہے جیسے کہ چیز کی قدر دراصل محنت سے پیدا ہوتی ہے اور محنت کی قدر کیا ہے یہ دیکھنے کے لیے ہمیں چیز کی قدر دیکھنی ہوگی۔ یہ circular reasoning ہے۔
5) ایک اور تنقید جو کی گئی وہ یہ کہ ریکارڈو کے نظریہء قدر کا براہِ راست نتیجہ ہے کہ جن کاروباروں میں محنت زیادہ ہوگی وہ زیادہ قدر پیدا کریں گے اور نتیجتاً زیادہ منافع کمائیں گے۔ یہ شاید ریکارڈو کے دور تک تو ٹھیک تھا لیکن آج کے جدید دور میں یہ درست نہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک finance company کا منافع ایک فیکٹری سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ محنت فیکٹری میں زیادہ ہورہی ہوتی ہے۔ ایک اور مثال یہ ہوگی کہ ٹرانسسٹر بنانے والی فیکٹریوں میں کان کنی کرنے والوں سے کم محنت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ٹرانسسٹر کمپنیاں کسی بھی کان کنی کرنے والے کاروباری سے زیادہ امیر ہوتی ہیں۔
6) ایک اور مسئلہ ریکارڈو کے نظریہء قدر کے ساتھ یہ ہے کہ یہ چیزوں کو جامد انداز میں دیکھتا ہے جبکہ مارکیٹ تو مسلسل تبدیلی میں اور محرک ہوتی ہے۔ پانچ سال پہلے جس چیز کی قدر جتنی تھی اتنی آج نہیں رہی۔
ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کی جستجو میں آسٹریائی ماہر معاشیات اور آسٹرین اسکول کے بانی کارل مینگر نے اپنا نظریہء قدر دینے کا فیصلہ کیا جو کہ آج کی جدید معاشیات کی بنیاد بنا۔
مینگر نے استدلال کیا کہ قدر کوئی داخلی شے نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق کسی جامد determinate سے ہوتا ہے بلکہ قدر کا تعلق صارفین کی مرضی، ترجیحات اور طلب پر ہوتا ہے جو کہ تبدیلی کا شکار رہتی ہیں اور کسی بھی وقت میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر پانی ہے تو اس کی قدر ایک سر سبز و شاداب علاقے میں رہنے والے کے لیے کم ہوگی کیونکہ اس کو اس کی ضرورت تو ہے لیکن اس کے پاس اس کی کوئی کمی نہیں جبکہ ایک صحرا میں رہنے والے کے لیے پانی کی قدر بہت زیادہ ہوگی کیونکہ وہاں پانی کی قلت ہوتی ہے۔ مینگر کا کہنا تھا کہ چیز کی قدر اگر کسی چیز سے تعلق رکھتی ہے تو وہ صارف کے نزدیک اس کا اسے کتنا فائدہ (جسے انگریزی میں utility کہتے ہیں) ہے اسی سے رکھتی ہے یعنی قدر کا تصور بنیادی طور پر موضوعی ہے جیسے اوپر مثال سے سمجھ آتا ہے کہ صحرائی شخص کے لیے پانی کی قدر زیادہ ہے جبکہ سبزے میں رہنے والے شخص کے لیے کم ہے۔
لیکن مینگر کے سامنے ایک سوال تھا کہ پانی کی utility تو دونوں افراد کے لیے ایک سی ہے پھر کیونکر صحرائی شخص اور سبزے میں رہنے والے شخص کے لیے اس کی قدر مختلف ہے اس سوال کا جواب دینے کے لیے مینگر نے ایک نیا تصور پیش کیا جسے ہم marginal utility کہتے ہیں یعنی یہ وہ اضافی utility ہوتی ہے جو کہ اضافی حصہ کسی چیز کا حاصل کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور مینگر کے نزدیک یہ وہ اہم ترین چیز ہے جو قدر کا تعین کرتی ہے۔ مینگر کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق براہ راست قلت (scarcity) اور desirability (چیز کی چاہ) سے ہوتا ہے۔ مینگر کے مطابق کسی صارف کے لیے کسی چیز کی marginal utility کتنی ہوگی وہ اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ اس کے لیے اس چیز کی scarcity اور desirability کے درمیان کیا ratio ہے۔ جس چیز میں کسی شخص کو زیادہ marginal utility نظر آتی ہے وہ اس کے لیے قیمت دینے کو تیار ہوتا ہے۔ تبھی صحرائی شخص پانی کی بوتل کے لیے زیادہ رقم دینے کو مان جائے گا کیونکہ اس کے لیے پانی scarce ہے کیونکہ وہ صحرا میں رہتا اور اس کی desirability بھی اس کے اندر ہے جبکہ سبزے کا رہائشی یہ کرنے پر نہیں مانے گا کیونکہ اس کے لیے پانی desirable ہے لیکن scarce نہیں۔
کارل مینگر کے مطابق اس نے ان چیزوں کے خریدے جانے کی توجیہ بھی معاشیات سے کردی ہے جن کو کلاسیکل کیپٹلسٹ emotional purchase کہہ کر نظرانداز کر دیتے تھے جیسے کوئی کیونکر اپنا heirloom غلطی سے یا مجبوراً بک جانے کے بعد اسے اس کی منڈی کی قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر بھی خریدنے کو تیار ہوتا ہے۔ مینگر کہتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کے لیے heirloom دنیا میں ایک ہی ہے یعنی scarce ہے اور desirable بھی کیونکہ اس سے اس کی یادیں جڑی ہیں لہذا وہ اس میں کوئی محنت نہ ہونے کے باوجود اسے بڑھی ہوئی قیمت پر خریدنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
یہ یاد رکھنے کی چیز ہے کہ کارل مینگر نے محنت کو بالکل قدر سے الگ قرار نہیں بلکہ انہوں نے ریکارڈو کے نظریے جتنی اہمیت نہ دی اسے۔ کارل مینگر نے استدلال کیا کہ محنت کا یقیناً قدر کے تعین میں کردار ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں میں زیادہ محنت ہوتی ہے وہ scarce ہوتی ہیں۔
کارل مینگر کے نظریہء قدر نے ریکارڈو کے نظریہء قدر پر اٹھنے والے تمام سوالوں کا جواب بہت آرام سے دے دیا جیسے:
1) دو چیزوں کے حصول میں ایک جتنی محنت کے باوجود ان دونوں کی قدر یا قیمت برابر کیوں نہیں لگتی کارل مینگر نے اس کا جواب دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ چیزیں ویسے ہی ہماری دنیا میں scarce ہے جس کی وجہ سے وہ برابر محنت ہونے والی چیزوں سے بھی مہنگی ہوتی ہیں اور دوسرا ان چیزوں کی desirability بھی زیادہ ہوتی ہے۔
2) کئی چیزیں جنھیں بنانا مشکل ہے کیونکہ ان میں بہت زیادہ محنت چاہیئے لیکن پھر بھی ان کی قدر بہت کم ہے۔ یہ مسئلہ مینگر کے نظریے کے لیے بھی تھا کیونکہ ایسی چیز یقیناً scarce بھی ہے لیکن اس کے جواب سے ہمیں مینگر کے نظریے کا اہم حصہ سمجھ آتا ہے کہ مینگر کے مطابق scarce ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ desirable ہونا بھی شرط ہے جیسے اینٹی میٹر ہے اس کا یہی مسئلہ ہے کہ scarce ہے مگر desirable نہیں جبکہ صرف desirable ہونا بھی کافی نہیں بلکہ مناسب scarcity بھی ہونی چاہیئے تاکہ قدر ہو جیسے پانی ہے desirable ہے لیکن scarce نہیں لہذا قدر بہت کم ہے۔
3) تیسرا سوال مینگر کے نظریے کے لیے تو مکمل ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ بھی اسی بات پر زور دیتا ہے کہ صارف کی مرضی پر چیز کی قدر منحصر ہے۔
4) چوتھا بھی مینگر کے نظریے پر لاگو نہیں ہوتا۔
5) پانچویں اعتراض کا جواب جو مینگر دیتے ہیں اسے ہمیں مینگر کے نظریے کا ایک اور اہم حصہ سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ کمپنیاں زیادہ اس لیے کماتی ہیں کم محنت کے باوجود کیونکہ وہ عوامی طلب اور ٹرینڈ کی بہتر تحقیق کرتی ہیں۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پیداوار میں محنت کے ساتھ ساتھ پلاننگ اور کہاں پیسہ لگانا ہے بےحد ضروری ہے۔ تبھی finance company بہت کماتی ہیں کیونکہ وہ درست جگہ پیسہ لگاتی ہیں اور خوب پلاننگ کرتی ہیں۔
6) آخری مسئلے کو بھی مینگر کا نظریہ بہت اچھے سے حل کرتا ہے کیونکہ وہ چیزوں کی قدر کو صارف کی ترجیحات پر مشتمل قرار دیتا تو ترجیحات بدلیں گی تو قدر بھی بڑھ یا گھٹ جائے گی چیزوں کی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں