تعارف
مسلم تاریخ کی رواداری اور مذہبی تکثیریت پسندی کی حقیقت کو سمجھنے میں ایک اہم رکاوٹ وہابی لٹریچر اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والا مسخ شدہ تاریخی بیانیہ ہے۔ شیخ ابن تیمیہ کے نظریات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی یہ کوشش نہ صرف مسلم سماجوں کی روایتی رواداری کو کمزور کرتی ہے بلکہ بعد میں آنے والی اصلاحی، سوشلسٹ، اور قوم پرست تحریکوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ مصر، شام، عراق، اور ہندوستان جیسے خطوں میں اٹھنے والی لیفٹ، بعث ازم، اور عقلیت پسندانہ تحریکوں کے تناظر میں، یہ مضمون ان اثرات کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔
وہابی لٹریچر کا تاریخی مسخ شدگی میں کردار
وہابی تحریک نے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ابن تیمیہ کے نظریات کو اسلامی احیاء کی ایک مثالی شکل کے طور پر پیش کیا، جن میں بدعت، شرک، اور روایتی اسلامی رسومات کے خلاف سخت گیر موقف شامل تھا۔ اس بیانیے نے نہ صرف ابن تیمیہ کی محدود مقبولیت کو ایک وسیع اسلامی لہر کے طور پر پیش کیا بلکہ مملوک، ایلخانی، اور دہلی سلطنتوں کی حقیقی مذہبی رواداری اور تکثیریت کو بھی مسخ کر دیا۔
1. ابن تیمیہ کی نظریات کی مبالغہ آرائی:
ابن تیمیہ کے نظریات، جو اصل میں مملوک سلطنت کے دوران مخصوص حلقوں تک محدود تھے، کو وہابی لٹریچر نے اسلامی احیاء اور اصلاح کی ایک ماڈل شکل کے طور پر پیش کیا۔ اس نے انہیں مملوک سلطنت کی سنی مذہبی اسٹبلشمنٹ کے غالب نظریے کے طور پر دکھایا، حالانکہ حقیقت میں مملوک حکمرانوں کی پالیسیز عمومی طور پر رواداری پر مبنی تھیں۔
2. مملوک سلطنت میں ابن تیمیہ کا محدود اثر:
تاریخی طور پر، مملوک سلطنت نے اہل الذمہ، صوفیاء، اور شیعہ کے ساتھ ایک متوازن پالیسی اپنائی، جس میں مذہبی رواداری اور بقائے باہمی کا عنصر موجود تھا۔ ابن تیمیہ کے سخت گیر نظریات کو حکمرانوں نے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا، اور ان کا اثر عموماً محدود مذہبی حلقوں تک ہی رہا۔
مغرب میں مسخ شدہ تصور اور جدید تحریکوں پر اثرات
وہابی لٹریچر کے زیر اثر، مغربی مستشرقین اور محققین نے بھی ابن تیمیہ کی نظریات کو اسلامی تاریخ کے ایک اہم پہلو کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اس نے مغربی لٹریچر میں مملوک سلطنت اور دیگر مسلم سماجوں کی رواداری کو دبایا اور اسلامی تاریخ کو ایک مسلسل شدت پسندی کی کہانی کے طور پر پیش کیا۔ یہ مسخ شدگی بعد میں آنے والی جدید مسلم تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
1. لیفٹ اور بعث ازم میں شدت پسندی کا تصور:
سوویت یونین کے زیر اثر لیفٹ تحریکوں اور بعث پارٹی نے ابن تیمیہ کی شدت پسندی کو سامراج اور استعماری قوتوں کے خلاف اسلامی مزاحمت کے تاریخی ماڈل کے طور پر دیکھا۔ اس مسخ شدہ تصور نے مسلم سماجوں کی مذہبی رواداری کو کمزور کرنے کا کام کیا اور ان تحریکوں نے اسلامی تاریخ کی تکثیریت پسندی اور رواداری کو نظرانداز کیا۔
2. جمال الدین افغانی اور پین اسلام ازم:
جمال الدین افغانی کا پین اسلام ازم بھی اس مسخ شدہ تاریخ کے زیر اثر رہا، جہاں ابن تیمیہ کی اصلاحی تحریک کو مسلم اتحاد اور بیداری کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ افغانی نے مسلمانوں کی وحدت کو فروغ دینے کی کوشش کی، مگر فرقہ واریت کے چیلنجز کو مکمل طور پر حل نہ کر سکے، جو تاریخی طور پر مسلم معاشروں کی مذہبی رواداری کا ایک اہم حصہ رہے تھے۔
ہندوستان میں سر سید اور عقلیت پسندانہ اصلاحات:
سر سید احمد خان اور دیگر روشن خیال مفکرین نے ہندوستان میں اسلامی اصلاحات کی کوششیں کیں۔ ان کی تحریک نے جدید سائنس اور عقلیت پسندی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ بھی تاریخی مسخ شدگی کے زیر اثر ابن تیمیہ کی سخت گیر نظریات کو اسلامی تاریخ کے ایک لازمی جزو کے طور پر دیکھتے رہے۔
1. سرسید کی عقلیت پسندی:
سر سید احمد خان نے جدیدیت اور عقلیت پسندی کی طرف بڑھتے ہوئے اسلامی سماجوں کی اصلاح کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کی ایک لچک دار تشریح کو فروغ دیا، مگر وہ بھی وہابی اثرات کے زیر اثر ابن تیمیہ کی شدت پسندی کو ایک لازمی اسلامی روایت کے طور پر دیکھنے سے بچ نہ سکے۔
2. ترقی پسند اصلاحی تحریکیں:
ہندوستان کی اصلاحی تحریکیں، بشمول روشن خیالی کے داعی، بھی اسی مسخ شدہ تاریخ سے متاثر ہوئیں۔ انہوں نے ابن تیمیہ کے نظریات کو اسلامی تاریخ کے غالب پہلو کے طور پر قبول کیا، جس سے مسلم سماجوں کی اصل لچک، رواداری، اور تکثیریت پسندی کی تاریخی حقیقت کو نظرانداز کیا گیا۔
تاریخی مسخ شدگی کے نتائج اور جدید مسلم سماج:
وہابی لٹریچر کے زیر اثر پیدا ہونے والی تاریخی مسخ شدگی نے نہ صرف مسلم سماجوں کی حقیقی تاریخ کو کمزور کیا بلکہ جدید مسلم معاشروں میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کی جڑوں کو بھی گہرا کیا۔ جدیدیت پسند، روشن خیال اصلاح پسند، اور سوشلسٹ تحریکیں سبھی اس مسخ شدہ تاریخ سے متاثر ہوئیں، اور وہ مسلم سماجوں کی تکثیریت اور رواداری کی اصل روایت کو مکمل طور پر پہچاننے میں ناکام رہیں۔
1. فرقہ واریت کی تقویت:
اس تاریخی مسخ شدگی نے جدید مسلم سماجوں میں فرقہ واریت کی جڑوں کو مضبوط کیا اور ابن تیمیہ کی سخت گیر نظریات کو عمومی اسلامی تاریخ کے طور پر پیش کیا، حالانکہ اصل تاریخ اس کے برعکس زیادہ روادار اور لچک دار تھی۔
2. اسلامی سوشلسٹ اور ترقی پسند تحریکیں:
اسلامی سوشلسٹ اور ترقی پسند تحریکوں نے بھی اس مسخ شدہ تاریخ کو قبول کیا، جس نے انہیں اسلامی سماجوں کی حقیقی تنوع پسند اور تکثیریت کی تاریخ کو پہچاننے سے روک دیا۔ اس سے ان تحریکوں کی فکری بنیادیں کمزور ہوئیں، اور انہوں نے اسلامی تاریخ کو ایک متعصب اور محدود عدسے سے دیکھنا شروع کر دیا۔
نتیجہ
وہابی لٹریچر اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی تاریخی مسخ شدگی نے نہ صرف ابن تیمیہ کے نظریات کو غیر معمولی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا، بلکہ مسلم سماجوں کی رواداری اور تکثیریت پسند تاریخ کو بھی کمزور کیا۔ اس مسخ شدہ تاریخ کے اثرات جدید مسلم تحریکوں، بشمول لیفٹ، بعث ازم، اور روشن خیال اصلاحات پر بھی مرتب ہوئے، جنہوں نے اسلامی سماجوں کی حقیقی تنوع اور رواداری کی روایت کو پہچاننے کی بجائے انہیں ایک متعصب اور محدود نظر سے دیکھا۔ اس تحقیق کا مقصد اس تاریخی مسخ شدگی کو پہچاننا اور مسلم سماجوں کی حقیقی تاریخی روایات کو بحال کرنا ہے، تاکہ جدید مسلم معاشروں میں رواداری، لچک، اور مذہبی تکثیریت کو فروغ دیا جا سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں