1977 کے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی چھٹی قومی اسمبلی جو کبھی مانی ہی نہ گئی الیکشن کے تین مہینے بعد ہی مارشل لاء لگا دیا گیا لیکن جمہوریت کے چمپینوں نے مسحیوں کی دو شہادتوں کے عوض جو 6نشستوں کی بھیک اقلیتوں کو دی تھی،اور جو میرے مسیحی بزرگوں نے لی تھی ۔۔اسکی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ یہ کمال ہے ریاست اور اس وقت کی طاقت ور حکومت کا کہ مسیحیوں کے حقیقی لیڈر اس میں نہیں تھے۔جنہوں نے نمائندگی کے لئے جدو جہد کی تھی ۔۔ جیلیں کاٹی تھیں ۔شہر اور صوبے بدریاں بھگتی تھیں ۔ ہر دؤر میں دودھ پینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں سچے عاشق اور ہوتے ہیں۔ چار مسیحی۔۔
1.ڈی پی سنگھا 2.ڈاکٹر ٹولین سی ڈین 3 ۔فادر ڈیرک مسکییٹا 4 ڈاکٹر اسٹیفن پی لال ہندؤ
1.رانا چندر سنگھ قادیانیوں نے بایئکاٹ کیا ہوگا۔ (انکا یہ بائیکاٹ آج بھی ہماری این جی اوز کے ذریعے مذہبی شناخت والے دوہرے ووٹ کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے ۔۔)اس لئے انکے اسمبلی کی نشستوں کو پورا کرنے کے لئے اور چوتھی آئینی ترمیم کی حجت پوری کرنے کے لئے کہ 6 اقلیتی شہری ممبر قومی اسمبلی ہونگے ۔ مسز گل رستم جی کو ایم این اے بنا لیا گیا۔نام سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ محترمہ پارسی خاتون ہونگی ۔ معاشرتی رویہ دیکھیں ہمارے بابو لوگوں کا کہ ڈی پی سنگھا کو ڈی پی سنگھ لکھا ہوا ہے۔۔ اسی طرح پہلی اسمبلی میں رلیا رام کو رلیا رانا لکھا ہوا ہے ۔ ساتویں اسمبلی ویب سائٹ پر اور لیلی یا لائلہ کو انگریزی میں Lila لکھا ہوا ہے ۔۔ اب پتہ نہیں یہ لیلی ہے لیلہ یا لائلہ ہے۔ یا کچھ اور ۔۔۔
اس نظام طریقہ انتحاب برائے اقلیتی مذہبی شناخت بذریعہ سلیکشن ۔۔جو آج بھی 2002 سے رائج ہے کہ یہ انتخاب اقلیتوں کی شناخت پر سلیکشن کا اختیار الیکشن جیتنے والی جماعت کی سیاسی قیادت کو دیتا ہے۔ کہ وہ جسے مرضی چاہے ایم این اے ایم پی اے بنا دیں جیسے اس فہرست میں دیکھیں ایک مذہبی راہنماہ کو شامل کرلیا گیا ۔۔سنا ہے انھوں نے مسیحیوں کے لئے بڑے اچھے کام کئے ہیںم۔ لیکن طریقہ انتحاب دیکھیں جو بھی اس وقت کی سیاسی اشرفیہ کے قریب ہو۔ اسے ہی ایم این اے بنا دیا گیا ۔۔یہ اسمبلی صرفِ تین مہینے ہی چلا سکی آور مارشل لاء لگ گیا۔۔ اس پورے قصے میں اقلیتی خصوصاً مسیحیوں کے سیاسی ،سماجی اور سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی ورکروں کے لئے سیکھنے سمجھنے کی بات یہ ہے ۔۔کہ انکی استعداد کار کی کمی سارا وقت این جی اوز کے لئے رپورٹاں رپاٹی کرنے کی وجہ سے یا فہرست میں نام لکھوانے کی تگ و دو میں گذارنے اور بڑے منصبوں پر براجمان چھوٹے لوگوں کے چھوٹے مشیروں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے سے کہیں ضروری ہے کہ اپنے لوگوں اور معروضی حالات کا صحیح ادراک کرنا کتنا ضروری ہیں ۔۔ورنہ کیا اس طرح کی بے اعتنائی کوئی تقریباً کروڑ لوگوں پر مبنی اقلیتوں کے ساتھ برت سکتا ہے۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں