بیٹیوں کی پیدائش پر دکھ ہوتا ہے/منصور ندیم

سچ کہوں تو بیٹیاں پیدا ہونے پر ہمارے ہاں کوئی بھی خوش نہیں ہوتا، واقعی بالکل خوش نہیں ہوتا مگر یہ علیحدہ بات ہے کہ کچھ لوگ اسے رحمت اور نعمت میں تول کر خود کو دلاسہ دیتے ہیں، کچھ لوگ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ ہم نے بیٹیوں کی پیدائش پر مٹھائیاں بھی بانٹی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ برصغیری سماج میں لوگ کم از کم بیٹیوں کو پیدا نہیں کرنا چاہتے، یا بیٹی کی پیدائش پر وہ کچھ نہیں کرسکتے، تو مٹھائیاں بھی بانٹ لیتے ہیں، لیکن ان کے دل اندر سے کٹ ہی جاتے ہیں، مجبوری ہے بھائی، ہمارے ہاں یہی معروف سوچ ہے، ہاں البتہ لوگ اب اس کا انکار کرتے ہیں۔ بظاہر اس کا انکار ضروری محسوس ہوتا ہے۔ عموما یہ سوچ دو طرح کے لوگوں کی ہے، جب کسی کے بیٹی ہو تو اکثر لوگ کہتے ہیں فکر نہ کرو اللہ اولاد نرینہ بھی دے گا، چند دن پہلے ریاض خٹک جیسے دانشور اسی طرح کی اپنے تئیں ایک جگہ کسی (وہ بندہ بھی معروف ہے فیسبک پر اچھی دوستی بھی ہے) کی بیٹی کی پیدائش کی پوسٹ پر آئندہ کے لئے اولاد نرینہ کی دعائیں دے رہے تھے، میں نے وہاں ان سے کمنٹ میں خصوصاً پوچھا کہ یہ اولاد نرینہ کیا ہوتی ہے؟ تو جواب نہیں دیا۔ وہ جواب دے بھی نہیں سکتے تھے، بہرحال افسوس ہوا کہ یہ لوگ اس سماج میں دانشور کہلاتے ہیں، پھر یہی لوگ عورت کے لئے پردوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک عورت کا کردار اتنا ہی رہتا ہے، اگر وہ پیدا ہو ہی گئی ہیں تو پھر انہیں ملفوف کر دیا جائے۔

مزید ایک اور عجیب قسم کی مخلوق پائی جاتی ہے، جنہیں اپنی نسل کا نام بڑھانے کی فکر رہتی ہے، سمجھ نہیں آتا کہ جیسے وہ ڈائناسور کی کوئی آخری نسل ہیں، اور ان کی نسل یا نام بڑھانے کے لئے دنیا میں نہ رہی تو دنیا میں فطرت کو کوئی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ہماری کمپنی میں ایک کم عمر محنتی پختون ڈرائیور ہے، چند سال پہلے اس نے شادی کی اس کی اولاد نہیں ہو رہی تو اب صرف وہ اس لیے دوسری شادی کر رہا ہے، اولاد کیوں نہیں ہو رہی، میڈیکل چیک اپ وغیرہ نہیں کروا رہے، لیکن وہ خود دوسری شادی کر رہا ہے۔ اور ان تمام لوگوں کی نظر میں اولاد کا مطلب ہوتا ہے “بیٹا”۔ یہی سوچ رکھنے والے لوگ حقیقت میں لڑکی کے پیدا ہونے کے بعد اسے ایک شدید ذمہ داری سمجھ کر قبول کرتے ہیں، اور بیٹی کی پیدائش کے بعد اسی سوچ کے تابع بیٹیوں کے لیے ان کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے کہ اب ان کی شادی کرنا ہے، جب بیٹی پیدا ہو جائے، تو بس پھر وہ بطور ایک شادی کرنے کے لئے ہی پالی جانے والی جنس کے طور پر پرورش پاتی ہے۔ اس کا واحد و آخری مقصد بس اب اس کی شادی کرنا رہ جاتا ہے۔ اچھا ایک قسم لوگوں کی اور بھی ہے، جو حقیقتاً بیٹا اور بیٹی میں اتنا زیادہ فرق نہیں رکھتے لیکن وہ اس سماج میں اس کا ادراک رکھتے ہیں کہ بیٹیاں پیدا ہونے کے بعد والدین کے لئے کتنے خوف کا سبب بنتی ہیں۔ ان کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم اور تعلیم سے لے کر ان کی شادی اپنی ہی سماجیات کے معیار پر کرنے میں وہ ہر لمحہ اذیت سے گزرتے ہیں۔ اس اذیت میں کبھی کبھی وہ بیٹیوں کو لاشعوری طور پر یہ احساس دلاتے رہتے ہیں، کہ بیٹیاں ہم پر بوجھ ہیں، اور اکثر پھر وہ اپنی بیٹیوں کی ایسی جگہ شادی کرتے ہیں جو بے جوڑ رشتے ہوتے ہیں ساری زندگی خود بھی روتے ہیں اور بیٹیوں کو بھی رلاتے ہیں۔ کیونکہ بیٹیوں کی شادی کرنا انہی کی ذمہ داری رہتی ہے، اس کا حق وہ بھی بیٹیوں کو نہیں دیتے۔

ہمارے ہاں ایک آخری قسم بھی ہے مگر وہ بہت معدوم ہے۔ وہ بہت تھوڑے سے لوگ ہیں، ممکن ہے کسی کو برا لگے، مگر میں نام لوں تو میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کو ان لوگوں میں رکھوں گا، میں حاشر ابن ارشاد کو ان بہادر لوگوں میں رکھوں گا، جو بیٹیوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم تک اور ان کی تعلیم سے لے کر ان کی شادیوں کے خوف سے باہر نکل جاتے ہیں۔ وہ بیٹیوں کو خود مختار بناتے ہیں۔ ایک ایسا انسان اس میں جنس کی تفریق نہیں رہتی وہ لڑکا اور لڑکی کو ایک ہی طرح سے پالتے ہیں۔ وہ انہیں وہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنا فیصلہ خود کر سکے وہ اپنے فیصلوں کی قیمت بھی خود ادا کرنے کے قابل ہوں اور غلط فیصلہ کریں تو بھی اس سے نمٹنا جانتی ہوں، غلط فیصلوں سے نمٹ کر انہیں ملال بھی نہ رہے، کوشش کریں کہ بیٹیوں کی ایسے ہی پرورش کریں۔ ان کی پیدائش کے بعد ان کی زندگی کا مقصد شادی نہ سمجھیں، انہیں ایک انسان ہی سمجھیں عاقل اور بالغ عمر تک پہنچنے تک ان کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا اختیار بھی دے دے اور ان کے فیصلوں کو قبول کرنا بھی سیکھ لیں۔ میں نے زندگی میں ایسے بہت سارے قریبی مشاہدات دیکھے ہیں جن میں والدین اپنے خوف کے تابع سماجی نبھاؤں میں ایسی شادیاں کرتے ہیں اور ساری زندگی ان بدبختوں کی ہر ناجائز بات قبول کرتے ہیں، ان کی گھٹیا فرمائشیں پوری کرتے ہیں، باپ اور بھائی ساری زندگی یہی کرتے کرتے خود بھی روتے ہیں اور اپنی بہن اور بیٹیوں کو بھی رلاتے ہیں۔ ایسے جانوروں کو (جی ہاں وہ جانور ہی ہیں), جو ایک عورت سے اس کا انسانی حق چھین لیتے ہیں، اور منڈی کی ایک جنس کی طرح آپ سے برتاؤ کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹیوں کو خود مختار بنائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے ان کو ہر حالت میں ڈاکٹر، انجینیئر یا کسی بھی اعلی درجے کی ہی کوئی پروفیشنل تعلیم دلوانی ہے، اپنے وسائل میں رہ کر انہیں زندگی کا مقابلہ کرنے کے قابل ضرور بنائیں۔ ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور اپنے فیصلوں سے نمٹنے کا حوصلہ اور صلاحیت دیں، نہ کہ انہیں یہ ترغیب دی جائے کہ ایک ہی جوتا مارا ہے تو دو جوتے اور کھا لینا، یا ہر حال میں اس گھر سے جنازے کی صورت ہی نکلنا۔ زندگی میں آس پاس بہت دکھ دیکھتا ہوں، کبھی کبھی بڑا افسوس ہوتا ہے، اپنے سے اعلی تعلیم یافتہ بیوی سے شادی کریں تو اپنا ظرف بھی اتنا اونچا ضرور رکھیں کہ جس طرح کی بیوی لائے ہیں، ان کا خیال بھی اسی درجے میں رکھ سکیں۔ شادی کے بعد بیٹی کی خواہش نہ ہو تو پھر پہلے سے فیصلہ کر لیں، کہ اپ نے بیٹی کو دنیا میں نہیں لانا ورنہ ایک سسکتی ہوئی روح کو ساری زندگی رونے پر مجبور مت کریں۔ ان کی روحوں پر داغ مت لگنے دیں، اپنی سوچ کا برملا اظہار کرنا سیکھیں۔ سچ بولیں کہ آپ کو بیٹیوں کی پیدائش پر دکھ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply