اقتباسات سے ابتدا کرتے ہیں :
“جس عورت کو کبھی حمل نہ ہوا ہو وہ اولاد کے لئے اتنا نہیں روتی ہے جتنا وہ جس کا حمل ضائع ہو گیا ہو!”
“دنیا میں ہر کام کی فیس ہوتی ہے کام جائز یا نا جائز نہیں ہوتا ناجائز فعل کام کی فیس ادا نہ کرنا ہے”۔
“عورت کے ہاتھ کا کھانا تا عمر ہر اس مرد کی کمزوری رہتی ہے جسے صحیح بچپن ملا ہو”۔
“زیادہ عبادت اکثر انسانوں میں سے ہر قسم کے جذبات کو سلب کرلیتی ہے حتیٰ کہ خدا سے لگاؤ کو بھی اور ایسا انسان خود اپنی ذات کا مرکز بن جاتا ہے”۔
“جب پیسے ہوتے ہونگے تو پیسہ دینے والے زندگی کی ان چیزوں کے لئے وقت کہاں چھوڑتے ہوں گے اور اب جب وقت ہی وقت ہے تو پیسہ کہاں”۔
“غربت کی طرف کون لوٹنا چاہتا ہے خواہ وہ اپنا ہی گھر کیوں نا ہو!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ایک اور آدمی” حسن منظر صاحب کی کہانیوں کا پانچواں مجموعہ ہے۔ کتاب کی پہلی اشاعت 1999 میں ہوئی ہے، کتاب 9 کہانیوں ،افسانوں پر مشتمل ہے
کتاب میں موجود کچھ کہانیوں کا انگریزی ترجمہ Requiem for the earth کے عنوان سے 1998 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سٹی پریس کراچی سے شائع ہوا تھا
کتاب مصنف کی پوتیوں عمرہ، ناشیہ اور یشما کے نام ہے !
مگر اولین طور پر یہ جان لینا ضروری ہے کہ حسن منظر صاحب 4 مارچ 1933 کو اترپردیش (انڈیا) میں پیدا ہوئے 1947 میں ان کا کنبہ ہجرت کرکے لاہور آیا
آپ نے ایف سی کالج، اسلامیہ کالج اور کنگ ایڈورڈ کالج میں تعلیم حاصل کی
آپ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر رہے ہیں اور اس پیشے سے جڑی بہت سی سچی کہانیاں مذکورہ کتاب “ایک اور آدمی” میں اور اس کتاب کی طویل ترین کہانی “موری پور” میں قلم بند ہیں، دراصل ڈاکٹر حسن منظر صاحب نے اپنے “ہنر” کی ابتدا کراچی سے کی تھی
بیرونِ ملک طب کی پوسٹ گریجویٹ تعلیم مکمل کی
ایشیا اور افریقہ میں خدمات انجام دیں اور پھر آپ سندھو دھرتی میں مقیم ہوگئے ۔
حسن منظر صاحب نے جس وقت اس کتاب کو لکھا
پاکستان مارشل لاء، ایم کیو ایم، بھوک اور پیاس جیسی نسلیں کھا جانے والی چکی میں پس رہا تھا۔
اس کتاب میں حسن منظر صاحب کی کہانیوں کا پلاٹ متوسط طبقے کے کرداروں کے بیچ پنپتے ان کے روز مرہ کے مسائل اور ان کی زندگیاں ہیں
کتاب میں مذکورہ موضوعات کو قلم بند کیا گیا ہے :
غربت، عورت، بھوک، سمندر، موت، ہجرت، جنگلی حیات، آزادی، سندھ، کراچی، رویے، مختلف نسلیں، ہندوستان اور ان کا ڈاکٹری کا پیشہ۔
آدھی سے زیادہ کتاب ان کی زندگی سے حاصل ہوئے تجربات کا خلاصہ ہے جسے انہوں نے کہانیوں یا افسانوں کا روپ دیکر صفحے پر اتارا ہے۔
بڑھاپے اور جوانی کا موازنہ دوستی اور تعلقات کے ساتھ کرتے ہوئے “افسردگیِ دل” نامی افسانے میں لکھتے ہیں۔
“بڑھاپے کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ دیر پا تعلقات کی بنیاد رکھے ۔ نوجوانی کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے ۔ جب کوئی کام بچی کھچی مدت کے لئے کیا جائے تو اس کی بنیاد ریت پر بھی رکھی جا سکتی ہے اور جب ارادہ تا عمر کا ہوتو دیکھنا پڑتا ہے ریت کے نیچے مضبوط بنیاد رکھنے کے لئے چٹان ہے یا نہیں ۔ بوڑھے جب کسی نوجوان لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ اس کی وفاداری کتنی پائیدار ہوگی جتنا بھی مل جائے غنیمت گردانتے ہیں”۔
کتاب میں سب سے اہم اور طویل افسانہ “موری پور” ہے
شاید یہ میرے دل کے زیادہ قریب اس لئے ہے کہ جتنا لگاؤ حسن منظر صاحب کو اس سندھ دھرتی کے کراچی سے ہے ہم کراچی باسیوں کو بھی ہے
دراصل یہ افسانہ موری پور ۔۔ ماڑی پور کے اصل نام کی طرف منسوب ہے، جب یہ افسانہ لکھا گیا اس وقت موری پور بھی ملیر، منوڑا اور بند مراد خاں کی طرح کراچی سے مستقل جڑے ہوئے حصے نہیں تھے۔
بلکہ کراچی سے ماڑی پور تک جانے کے لئے مکمل سنسان رستے اور کھلی ہوا والی سڑکیں تھیں۔
وہ جگہ 1999 سے پہلے اور کچھ بعد تک بھی ائر فورس اور سنٹرل ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹمز حکام کے زیر استعمال تھی۔
(اب بھی کراچی ایسے ہی لوگوں اور اداروں کے بیچ کہیں کہیں شہری آبادی کا حصہ ہے)۔
ماڑی پور کے لوگوں کی الگ دنیا تھی، وہاں مکرانیوں کے گوٹھ کی زندگی منفرد تھی، ان کا رہن سہن جدا تھا۔
موری پور افسانہ آپ کی آنکھوں میں کچھ دیر کے لئے نمی ضرور لائے گا (پچھلے دنوں اسی گروپ میں اس کہانی سے ایک واقعہ کاپی پیسٹ کیا تھا)۔
ایک جگہ کراچی کے متعلق لکھتے ہیں
“کراچی نہ صرف یہ کہ غریب پرور شہر ہے بلکہ ان کے لئے بھی اپنے بازو کھلے رکھتا ہے جو اسے پسند نہ کرتے ہوں اور ان کی حسبِ حیثیت سیوا بھی کرتا ہے میرا خیال ہے کراچی کا حسن اور اس کی وسعت چیونٹیوں کی طرح صبح سے شام تک مصروف انسانوں کے دم سے ہے ”
نوٹ :
کتاب میں بس یہی کچھ نہیں ہے
اس میں ایم کیو ایم کی بربریت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ظلم لکھا گیا ہے آمریت کا ننگا ناچ اور مارشل لاء کی دو طرفہ سچائی کی تاریخ لکھی گئی ہے۔
جسے اپنے آپ کو طالب علم سمجھنے والے ہر قاری کے لئے پڑھنا سود مند ہے۔
میرے خیال سے بہترین کتاب وہی ہے جس میں مصنف اپنے خیالات کی رائے کا اظہار واضح اور کھلے الفاظ میں کرے اور یہ کتاب اس پر پورا اترتی ہے۔
حسن منظر اب کافی ضعیف ہوچکے ہیں مگر ان کا تمام ادبی کام اسی طرح جوان اور سچا ہے۔
اللہ کریم محض اپنے فضل سے انہیں کامل صحت سے نوازیں اور صحت بھری زندگی انہیں سونپ دیں آمین ثم آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں