ربیع الاوّل کا پیغام/ سعید الرحمن علوی

ہجری سن کا تیسرا مہینہ ربیع الاوّل شروع ہو چکا ہے۔ اس مہینہ میں کائنات کے سب سے بڑے انسان آخری معصوم ر سول اور اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب بندے محمد عربی ﷺکی ولادت ہوئی۔

ایک عربی شاعر نے معلوم نہیں کس کے لیے کہا کہ
صدیاں بیت گئیں، ان کی مانند کوئی دنیا میں نہیں آیا اور جب وہ آگئے توزمانہ ان کی مثال لانے سے عاجز ہو گیا۔
اور ایک اردو شاعر نے کہا
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آئے توساری بہاروں پر چھا گئے
تو بلاشبہ یہ دونوں شعر اگر دنیا میں کسی پر صادق آتے ہیں تو محض حضور اقدس ﷺ کی ذات گرامی پر  اور کسی پر ان کا اطلاق ممکن ہی نہیں۔
پھر اسی مہینہ میں وہ واقعہ پیش آیا جسے ارباب سیرت “ہجرت” کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ بظاہر دکھی اور ستم رسیدہ انسانوں نے اپنا گھر اور وطن چھوڑا لیکن یہی بات تاریخ کا رخ بدلنے کا سبب بن گئی۔
اسی واقعہ کے حوالے سے ہماراملی سال طے ہوا، دور فاروقی میں سیدنا عثمانؓ کی رائے سے یہ فیصلہ ہوا۔
یہ الگ بات ہے کہ اپنی بہت سی عظیم روایات کی طرح ہم اس روایت کا تحفظ کرنے سے بھی محروم ہیں اور اپنے جملہ معاملات سن عیسوی سے چلا رہے ہیں۔
پھر اسی مہینہ میں وصال و ارتحال نبوی ﷺ کا سانحہ پیش آیا جو بلا شبہ انسانی تاریخ کا سب سے اندوہناک سانحہ تھا، جس سے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو گیا، بڑے بڑے لرز اٹھے، سیدنا عمر ؓ جیسے اپنے آپ پر قابو رنہ رکھ سکے تاآنکہ محمد کریم ﷺ کی چھوڑی ہوئی امانت کے لیے اس نازک ترین موڑ پر وہ شخصیت آگے بڑھی جسے اقبال مرحوم نے
آں امن الناس برمولائے ما
کہا جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کر کے ایثار و قربانی کا عظیم مظاہرہ کیا جسے نبی معصومﷺ اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں نماز کی امامت سونپ کر بقول سیدنا علی ؓ “امامت کبریٰ” کا مستحق قرار دیا۔ وہ صدیق اکبر کی ذات گرامی ہے۔امام ولی اللہ دہلویؒ کے بقول دور جاہلیت میں جن کی فطرت سلامتی کی راہ پر رہی، ان میں سب سے بڑھ کر ابوبکر ؓہیں کہ نہ کبھی بت کے حضور ریز ہوئے نہ کسی اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوئے۔
انہی ابوبکرؓ نے اس سانحہ پر کمال درجہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 144 اس طرح تلاوت کی کہ سبھی حضرات سنبھل گئے اور سمجھ گئے کہ جو ہونا تھا وہ چکا اب نالہ و شیون سے کام نہ چلے گا بلکہ اس امانت کو سنبھالنا ہی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
“محمدﷺ قافلہ رسالت کے ایک فرد ہیں آپ سے قبل بہت سے حضرات اس فرض کی ادائیگی کے بعد دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر گئے (آپ پر بھی ایسا ہی وقت آنا تھا سو آکر رہا) اب ان کی طبعی یا حادثاتی موت پر تم اپنے ماضی کی طرف پلٹ جاؤ گے اور اس امانت سے منہ موڑ لو گے جو بھی ایسا کرے گا اپنا ہی نقصان کرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اللہ تعالیٰ کی ذات اصحاب شکر کو اجر سے نوازتی ہے” ۔
ابوبکر صدیقؓ کے اسی کردار کے پیش نظر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ “رسول اللہﷺ کے سانحہ ارتحال کے بعد جو حالات پیش آئے، قدرت الہٰی سے ابوبکر ؓ کی ذات گرامی سامنے نہ آتی تو ہم ہلاک ہو جاتے”۔
بہرحال یہ سارے واقعات اس مہینہ سے متعلق ہیں جسے “ربیع الاوّل” کہا جاتا ہے ربیع الاوّل مسلسل آرہا ہے، حضور اقدس کی ذات کے حوالہ سے اس پر چودہ صدیاں بیت چکی ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ہے، ربیع الاوّل اسی طرح آتا رہے گا۔ اب کچھ عرصہ سے اس مہینہ میں “یاد رسول” کے حوالہ سے بہت سے ایسے کام ہو رہے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ یہ سب کیا ہے؟ رسالت ایک عظیم منصب ہے جو عطیہ الہٰی ہوتا ہے۔ محنت یا کسی طرح سے بھی یہ نہیں ملتا اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے جسے نوازتا ہے وہ کائنات کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن جاتا ہے۔
رسالت ہے کیا؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کا انتخاب کرتا ہے جنہیں مخاطبہ الہٰی کا شرف حاصل ہوتا ہے، وہ حضرات اپنے ربّ سے اس کا کلام حاصل کرکے اپنے ہم جنسوں تک پہنچاتے ہیں اور انہیں قرب الہٰی کا راستہ بتاتے ہیں۔ کلام الہٰی کے مفہوم و معانی سے دنیا والوں کو آگاہ کرتے اور اس کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ وہ پاکباز اور معصوم ہوتے ہیں ان کے سوا کوئی طبقہ چاہے کتنا بڑا ہو معصوم نہیں ہوتا ان کی عصمت ان کی ذات کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ قدرت انہیں اس طرح دنیا میں رکھتی اور چلاتی ہے کہ وہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے ساری دنیا سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور پوری خود اعتمادی سے دنیا سے کہتے ہیں کہ
مجھے تم نے کیسا پایا؟ سچا یا جھوٹا؟
اس موڑ پر ان کے بدترین دشمن بھی ان کی امانت و راست بازی کی شہادت دیتے ہیں رسالت و نبوت کا جو سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام کی ذات گرامی سے شروع ہوا اس کی تکمیل مکہ کے قریشی و ہاشمی پر ہوگئی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی ختم نبوت کا مختلف انداز سے اعلان کیا اور خود اس نے بار بار اس کا اعلان کیا۔
اس نے دنیا سے کنارہ کیا تو بہت سے ناہنجار اس منصب پر جھپٹ پڑے لیکن اس کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ لوگوں نے   ہزاروں کی تعداد میں اپنا خون دے کر اس منصب کی حفاظت کی اور یہ معاملہ تاریخ کا مقدس باب بن گیا اور دنیا نے صحابہ کی اپنے آقا ﷺ سے محبت و عقیدت کا منظر دیکھ لیا رسول اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سبب اطاعت و فرمان برداری کی جائے،اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میری اطاعت کا راز رسول کی اطاعت میں مضمر ہے اور یہ کہ جو لوگ محبت الہٰی کے متلاشی ہیں انہیں رسول کی راہ پر چلنا ہوگا (النسا 08۔ آل عمران:13)
رسول کی راہ کیا ہے؟ قرآن اور قرآنی متن کی وہ تشریحات جو حدیث رسول اور سنت کے عنوان سے محفوظ ہیں۔
صفحہ گیتی پر تلاش کرو ، قرآن کے سوا کوئی کتاب تمہیں اس طرح نظر آتی ہے کہ اس کا ایک ایک گوشہ محفوظ ہو، اس کے لاتعداد حافظ موجود ہوں اور دنیا کی ہر زبان میں اس کے تراجم ہو رہے ہوں؟ اپنے بیگانے سب اس سے فیض پا رہے ہوں یہ صرف قرآن کا اعزاز ہے اور کوئی دوسری کتاب اس معاملہ میں اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔
قرآن کو مٹانے کے لیے کیا کیا جتن ہوئے لیکن اسے نازل کرنے والا اس کا محافظ ہے جس نے ایسی جسارت کی، منہ کی کھائی۔اور پھر اس دھرتی پر تلاش کرو کسی ایسی شخصیت کو جس کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہو۔
اس کا بچپن، اس کی جوانی،اس کا بڑھاپا، نبوت سے قبل کی زندگی، نبوت سے بعد کی زندگی، امن ہو کہ جنگ، مسجد کا منبرو محراب ہو یا گھر کی چاردیواری، اس نے جہاں جو کیا وہ محفوظ ہو گیا۔
اس کے تربیت یافتہ لوگوں سے یہ سلسلہ خیر جو شروع ہوا تو اب تک برابر رواں ہے دنیا کی ہر زندہ زبان میں طویل، مفصل، مبسوط اور مختصر سیرت نبوی کے مجموعے موجود ہیں۔
لیکن ربیع الاوّل کا ہر چاند ہماری بد نصیبی کا ماتم کرتا ہے کہ ہم جواہرات کو نظر انداز کر کے ٹھیکروں اور خزف ریزوں پر لٹو ہو چکے ہیں۔
وہ جس کے وجود مسعود اور جس کی حیات مبارکہ کو اس کے رب نے ہمارے لیے “اسوۂ حسنہ” اور نمونہ قرار دیا ہم نے اسے نظر انداز کیا۔
آج ہمارے لیے ہیرو اور آئیڈیل کچھ اور لوگ ہیں،کتنا ستم اور کتنے دکھ کی بات ہے، ہم گلیوں اور بازاروں میں لال پیلے بلب لگا کر اور کاغذوں کے پھول سجا کر اس کی یاد مناتے ہیں حالانکہ اس کی یاد اس کی اطاعت اور فرماں برداری سے ہی ہوتی ہے یہی صحیح راستہ اور یہی صحیح طریقہ ہے اس نے نماز پڑھی اور کہا کہ اس طرح نماز پڑھو جیسے میں پڑھتا ہوں اس نے وضو کیا تو فرمایا کہ یہی صحیح طریقہ ہے۔ اس نے تمام عبادات عملاً کر کے ہمیں بتلایا اور عبادات ہی کا کیا معاملہ ہے اس نے حیات انسانی کے ہر گوشہ کو اپنے عمل و کردار سے واضح کیا وہ خاوند ہو کر اعلان کرتا ہے کہ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھروالوں سے اچھا ہے اور مجھے دیکھو کہ میں تم سب سے زیادہ اپنے گھروالوں سے حسن سلوک کرتا ہوں۔
اس نے باپ ہو کر اپنی بیٹیوں کے لیے اچھے شوہروں کا انتخاب کیااور فرمایا:
ایک، دو، تین بیٹیوں کا باپ، ان بیٹیوں کی حسن تعلیم و تربیت کے صدقہ جنت میں جائے گا۔
وہ اتنا بلند کردار اور صاحب عظمت تھا کہ اس کی اہلیہ نے گواہی دی اور کہا کہ میرے سرتاج! اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہ کرے گا کہ آپ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے، یتیموں کی کفالت کرتے، مہمان نوازی کرتے اور مصائب پر صبرو استقامت سے کام لیتے ہیں۔
اس نے مظلومی کے عالم میں کمال درجہ صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، ظلم کرنے والوں کو گالی دی نہ برا بھلا کہا، بددعا دی نہ سخت جملہ ارشاد فرمایا بلکہ ان کی ہدایت کے لیے رب سے التجا کی اور جب ان پر اس نے قابو پالیا تو کسی قسم کا انتقام نہ لیا انہیں معاف کر کے سینہ سے لگا لیا وہ ظفر کے اس شعر کی حقیقی تصویر تھا کہ
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہا جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
اس نے اپنے مالک و خالق کو ہمیشہ سامنے رکھا اس کی رضا کو اپنا مطمع نظر بنایا ساری ساری رات مصلّے پر کھڑے ہو کر اس کے سامنے اپنی عاجزی کا نذرانہ پیش کیا اور ہمدردی کرنے والوں سے کہا، کیا میں اپنے ربّ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟اس نے خوشی و عیش کے دنوں میں کھردری چٹائی کو اپنا بچھونا بنایا اور اس حالت پر غم زدہ ہونے والوں سے کہا کہ
ہمیں اس بات پر راضی رہنا چاہیے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت کی نعمتیں فراہم کر دی ہیں۔
گو کہ وقتی طور پر اس دنیا میں رنج و تکلیف برداشت کرنا پڑے آج اس کی یاد میں محافل ہیں، مجالس ہیں، جلسے ہیں، جلوس ہیں، لیکن عمل و کردار میں اس کی سیرت کا حسین عکس نہیں، ظاہر ہے کہ اس رویہ کو ایمان و اخلاص کا رویہ نہیں کہا جاسکتا قرآن و سنت اس رویہ کو نفاق و دوعملی کا رویہ کہتے اور اس پر شدید تنقید کرتے ہیں۔
محمد عربی کے نام لیواؤ! تم نے اس عظیم رسول ﷺ کا وہ فرمان نہیں پڑھا جس میں آپﷺ نے واضح کیا ہے محشر کی ہولناک گھڑی میں “کوثر” کی ساقی گری کے دوران بعض لوگ مجھ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے لیکن انہیں نامراد لوٹا دیا جائے گا اور مجھے کہا جائے گا
محمد! یہ وہ لوگ ہیں جو نام تو بے شک تیرا لیتے ہیں لیکن کام اپنی مرضی کے کرتے ہیں۔
یادرکھو! اس بارگاہ میں اپنی مرضی کا م نہ آئے گی، مرضی اللہ تعالیٰ کی کام آئے گی اور اس کی مرضی کی نشاندہی صرف محمد عربی ﷺ نے کی ہے اسی لیے تمہارے آقا نے قرآن و سنت سے تمہاری گہری وابستگی کو تمہارے لیے وجہ افتخار اور تمہاری کامیابی کا زینہ قرار دیا۔ ربیع الاوّل پھر تمہارے سروں پر سایہ فگن ہے وہ تمہیں وہی پیغام دے رہا ہے جو صدیوں پہلے اس نے دیا جس کی عکاسی یوں کی گئی کہ
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

Advertisements
julia rana solicitors london

بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
گر بہ او نہ رسیدی تمام بولھبی است

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply